تین طلاق ایک مجلس میں دینے کا شرعی حکم حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے ڈالیں۔ ایک ماہ بعد اس شخص نے تقریباً پانچ آدمیوں کی موجودگی میں صلح کے لیے کہا، مگر بیوی کے والدین بریلوی علماء سے فتوٰی لے آئے، جامعہ نعیمیہ اور جامعہ رسولیہ نے فتوٰی دیا کہ بیوی حلالہ کے بغیر نہیں مل سکتی۔ اب میاں بیوی کو الگ ہوئے سات ماہ ہو چکے ہیں اور وہ دونوں ملنا چاہتے ہیں، براہ مہربانی فتوٰی جاری فرمایا جائے کہ میاں بیوی کسی طرح دوبارہ اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں یہ بھی بتایا جائے کہ طلاق ہو گئی یا نہیں؟

جواب :

یہ بات واضح ہو کہ مجلس واحد کی تین طلاقیں خواہ تحریر ہوں یا زبانی شرعاً ایک طلاق شمار ہوتی ہے، جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة
مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث (1472)
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور مبارک اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں مجلس واحد میں دی گئیں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔“
اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دیں، پھر اس پر نادم ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تو نے طلاق کس طرح دی؟“ جواب دیا: ثلاثا فى مجلس واحد”تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دی ہیں۔“ مسند احمد میں ہے کہ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإنما تلك واحدة، فارجعها إن شئت، قال فرجعها
مسند ابی یعلی (0458/2 ح : 2495)، مسند احمد (265/1، ح : 2387)، فتح الباری (362/9)
”یہ تو ایک ہی ہے، اگر تو چاہتا ہے تو رجوع کر لے۔“ راوی کہتا ہے کہ پھر اس نے رجوع کر لیا۔ “
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مسئلہ طلاق میں نص قرار دیا ہے۔ ثابت ہوا کہ ایک مجلس کی اکٹھی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہے۔ لہٰذا محمد شہباز صاحب اپنی اہلیہ سے رجوع کا حق محفوظ رکھتے ہیں، اگر عدت گزر چکی ہے تو نکاح جدید کے ذریعے گھر آباد کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے حلالے جیسے کسی قبیح عمل کی قطعاً حاجت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لعن الله المحلل والمحلل له
ابن ماجہ، أبواب النكاح، باب المحلل والمحلل له (1934 تا 1936)
اس کا ترجمہ مشہور بریلوی عالم کرم شاہ صاحب بھیروی ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”حلالہ کرنے والے پر بھی اللہ کی لعنت اور جس (بے غیرت) کے لیے حلالہ کیا جا رہا ہے اس پر بھی اللہ کی پٹھکار۔ “
ضیاء القرآن (1409/1)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے