سوال
میرا مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ تین سال سے میرے اور میرے شوہر عمران عزیز قریشی ولد عبدالعزیز قریشی کے درمیان مسلسل جھگڑے چل رہے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران متعدد بار جھگڑوں میں وہ یہ الفاظ کہہ چکے ہیں: "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”۔
ایک موقع پر جھگڑے کے دوران اس نے واضح طور پر تین مرتبہ کہا:
"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”
اور تیسری مرتبہ خاموش رہا۔
چند دن بعد اس نے معافی مانگ کر رجوع بھی کر لیا۔
اس واقعہ کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد دوبارہ جھگڑے شروع ہو گئے، اور ان جھگڑوں میں بھی اس نے کئی مرتبہ کہا:
"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”
تقریباً آٹھ ماہ پہلے ایک جھگڑے کے دوران اس نے پھر کہا:
"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، تمہیں طلاق دیتا ہوں”
اس کے بعد تقریباً ہر ماہ ایک یا دو بار وہ یہی الفاظ دہراتا رہا۔
براہِ کرم اہلِ حدیث کے مؤقف کے مطابق اس مسئلے کی شرعی حیثیت بتائی جائے۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرطِ صحتِ سوال، مذکورہ صورتِ حال میں واضح ہے کہ رجعی طلاق صرف دو مرتبہ دی جا سکتی ہے۔
اگر شوہر دو بار طلاق دینے اور دو بار رجوع کرنے کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دیتا ہے تو وہ تیسری طلاق مغلّظہ بائنہ بن جاتی ہے۔
یعنی اس تیسری طلاق کے بعد نہ رجوع جائز رہتا ہے اور نہ دوبارہ نکاح کی شرعاً اجازت۔
تیسری طلاق کے بعد عورت شوہر پر حرام ہو جاتی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ … ٢٢٩﴾ (البقرة)
یعنی "طلاق دو بار ہے، پھر یا تو معروف طریقے سے بیوی کو روک لینا ہے یا بھلے طریقے سے چھوڑ دینا ہے۔”
امام ابنِ کثیرؒ کی تفسیر
امام ابن کثیر اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:
"أی إذا طلقتھا واحدة أو إثنتین فانت مخیر فیھا مادامت عدتھا باقیة بین أن تردھا الیک ناویا الإصلاح بھا والإحسان إلیھا وبین أن تترکھا حتی ٰ تنقضی عدتھا فتبین منک و تطلق سراحھا محسنا إلیھا.”
(تفسیر ابن کثیر، ج1، ص 292)
یعنی اگر تم اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دو تو تمہیں اختیار ہے کہ اگر وہ عدت میں ہے تو اصلاح کی نیت سے اسے واپس لے لو، اور اگر چاہو تو رجوع نہ کرو تاکہ اس کی عدت پوری ہو جائے اور وہ دوسرے سے نکاح کر سکے۔
تیسری طلاق کا حکم
اس کے بعد قرآنِ مجید میں فرمایا گیا:
﴿فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ الله … ٢٣٠﴾ (البقرة)
یعنی اگر شوہر اپنی بیوی کو تیسری طلاق دے دے تو وہ اس پر اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی دوسرے مرد سے شرعی نکاح نہ کرے۔ پھر اگر دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے تو دونوں کو دوبارہ نکاح میں کوئی حرج نہیں، بشرطِ یہ کہ وہ اللہ کی حدود قائم رکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔
امام ابنِ کثیرؒ کی مزید وضاحت
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں مزید فرماتے ہیں:
"أی أنه إذا طلق الرجل إمراته طلقة ثالثة بعد ما أرسل علیھا الطلاق مرتین فإنھا تحرم علیھا.”
(تفسیر ابن کثیر، ج1، ص 292)
یعنی جب کوئی شخص اپنی بیوی کو دو طلاقیں دینے کے بعد تیسری طلاق دے دے تو وہ عورت اس پر حرام ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے شخص سے باقاعدہ شرعی نکاح کرے۔
اگر وہ دوسرا شوہر اپنی مرضی سے (کسی پیشگی معاہدے کے بغیر) طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو عدت پوری کرنے کے بعد وہ عورت اپنے پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔
لیکن حلالہ کی نیت سے کیا گیا نکاح باطل اور حرام ہے۔
موجودہ مسئلے کا شرعی حکم
آپ کے سوال میں بیان کردہ حالات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کے شوہر عمران عزیز قریشی نے وقفے وقفے سے تین سے زائد مرتبہ طلاق کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
لہٰذا آپ کا نکاح ٹوٹ چکا ہے، اور وہ نکاح اسی وقت ختم ہو گیا تھا جب اس نے دو رجوع کے بعد تیسری طلاق دی تھی۔
اگر آپ ابھی تک اس کے ساتھ بطور بیوی رہ رہی ہیں تو یہ شرعاً زنا اور سفاح کے زمرے میں آتا ہے۔
آپ پر لازم ہے کہ فوراً اس سے علیحدگی اختیار کریں، اور تیسری طلاق کے بعد کے تعلق پر اللہ تعالیٰ سے معافی اور توبہ کریں۔
فتویٰ دینے والا مفتی کسی قانونی یا دنیوی نتائج کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔