تین زبانی طلاقوں کا شرعی حکم اور عدت کے بعد نکاح کا جواز
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ جلد 1، صفحہ 795

سوال

سائل: رحمت علی ولد گہنا، قوم میر عالم، سکنہ چاہ باغ والا، موضع کھوکھے، تحصیل ننکانہ، ضلع شیخوپورہ

صورتِ حال کا بیان:

میں، رحمت علی ولد گہنا، قوم میر عالم، رہائشی چاہ باغ والا موضع کھوکھے، تحصیل ننکانہ، ضلع شیخوپورہ، علمائے دین سے ایک شرعی مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ میری بیٹی، مسمات رضیہ بی بی کا نکاح تقریباً چار سال قبل مسمی محمد اقبال ولد میاں ماہی قوم میر عالم، چک نمبر 545 گ ب، تحصیل سمندری، ضلع فیصل آباد سے کیا گیا۔

رضیہ بی بی اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً ایک سال تک ازدواجی تعلقات میں رہی، مگر بعد ازاں دونوں کے درمیان ناچاقی پیدا ہو گئی۔ اس ناچاقی کی وجہ یہ تھی کہ محمد اقبال ایک آوارہ مزاج انسان تھا، جو اکثر لڑائی جھگڑا کرتا اور اپنی بیوی کو مار پیٹ کا نشانہ بناتا رہتا۔

اس دوران رضیہ بی بی نے نہایت تنگدستی کے ایام گزارے۔ بالآخر محمد اقبال نے گواہوں کی موجودگی میں اپنی بیوی کو تین مرتبہ “طلاق، طلاق، طلاق” کہہ کر طلاق دے دی، اسے اپنے اوپر حرام قرار دیا اور گھر سے نکال دیا۔

صلح و مصالحت کی کوششوں کے باوجود محمد اقبال نے رجوع نہیں کیا۔ اس واقعے کو تقریباً تین سال گزر چکے ہیں۔
اب مسمات رضیہ بی بی محنت مزدوری کرکے اپنا گزارا کر رہی ہے اور بے سہارا زندگی بسر کر رہی ہے۔

لہٰذا علمائے دین سے سوال ہے کہ:
کیا زبانی طور پر دی گئی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں یا نہیں؟
ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں صحیح جواب دیا جائے تاکہ ہم عنداللہ ماجور ہوں۔

اگر اس بیان میں کوئی غلط بیانی ثابت ہوئی تو اس کا ذمہ دار سائل خود ہوگا۔

تصدیق

ہم تصدیق کنندگان اس سوال کی حرف بہ حرف تصدیق کرتے ہیں کہ سوال مکمل طور پر درست ہے۔
اگر کبھی غلط ثابت ہوا تو ہم تصدیق کنندگان اس کے ذمہ دار ہوں گے۔
ہمیں شرعی فتویٰ عطا کیا جانا مناسب ہے۔

تصدیق کنندگان:
➊ حامد علی ولد لال محمد، قوم بھٹی، موضع کھوکے، تحصیل ننکانہ۔
➋ محمد نعیم ولد علی، قوم میر عالم، سکنہ چاہ باغ والا، موضع کھوکے، تحصیل ننکانہ، ضلع شیخوپورہ۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال میں بیان کردہ صورت کے مطابق طلاق واقع ہو چکی ہے، اس پر علمائے اہلِ حدیث اور علمائے احناف میں کوئی اختلاف نہیں۔
البتہ اختلاف اس بات میں ہے کہ:

علمائے احناف کے نزدیک ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں مکمل اور مغلظہ بائنہ تصور ہوتی ہیں۔
اس صورت میں حلالہ کے بغیر رجوع ممکن نہیں۔
✿ جبکہ علمائے اہلِ حدیث اور محققینِ شریعت کے نزدیک بیک وقت دی گئی تین طلاقیں شرعاً ایک رجعی طلاق شمار ہوتی ہیں۔
اس حالت میں عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق حاصل رہتا ہے،
اور عدت گزرنے کے بعد بغیر حلالہ کے دوبارہ نکاح کی اجازت ہوتی ہے۔

تاہم، اس مخصوص معاملے میں تمام علماء کے اتفاق سے طلاق واقع ہو چکی ہے۔

قرآنی دلیل

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ
(البقرۃ: 229)
"(رجعی) طلاق دو مرتبہ تک ہے، پھر یا تو معروف طریقے سے بیوی کو روک لو یا اچھے طریقے سے رخصت کر دو۔”

تفسیر ابنِ کثیر

أَيْ إِذَا طَلَّقْتَهَا وَاحِدَةً أَوِ اثْنَتَيْنِ، فَأَنْتَ مُخَيَّرٌ فِيهَا مَا دَامَتْ عِدَّتُهَا بَاقِيَةً، بَيْنَ أَنْ تَرُدَّهَا إِلَيْكَ نَاوِيًا الْإِصْلَاحَ بِهَا وَالْإِحْسَانَ إِلَيْهَا، وَبَيْنَ أَنْ تَتْرُكَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، فَتَبِينَ مِنْكَ،
(تفسیر ابن کثیر، ج 1، ص 272)

تشریح:
جب شوہر اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دے دے، تو عدت کے دوران اسے یہ اختیار حاصل رہتا ہے کہ نیک نیتی سے رجوع کر کے ازدواجی زندگی بحال کر لے، یا عدت پوری ہونے دے تاکہ عورت اس سے جدا ہو جائے۔

ایک اور قرآنی آیت

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ
(البقرة: 228)
"اور مطلقہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں (یعنی نکاح نہ کریں)۔”

تفسیر ابنِ کثیر

هَذَا الْأَمْرُ مِنَ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى لِلْمُطَلَّقَاتِ الْمَدْخُولِ بِهِنَّ مِنْ ذَوَاتِ الْأَقْرَاءِ، بِأَنْ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ، أَيْ: بِأَنْ تَمْكُثَ إِحْدَاهُنَّ بَعْدَ طَلَاقِ زَوْجِهَا لَهَا ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ؛ ثُمَّ تَتَزَوَّجَ إِنَّ شَاءَتْ،
(تفسیر ابن کثیر، ج 1، ص 229)

تشریح:
اللہ تعالیٰ نے مطلقہ عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ تین حیض گزرنے سے قبل کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کریں۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ عدت ختم ہونے پر نکاح از خود ختم ہو جاتا ہے۔

زبانی طلاق کا وقوع

اگر طلاق زبانی دی گئی ہو یا تحریری، دونوں صورتوں میں طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔

فتاویٰ نذیریہ میں ہے:

“واضح ہو کہ جب شوہر شریعت کے مطابق اپنی زوجہ کو طلاق دے گا، خواہ زبانی دے یا تحریری، تو طلاق بہرحال واقع ہو جائے گی۔
اس کی زوجہ کا منظور کرنا یا نہ کرنا طلاق کے وقوع پر اثر انداز نہیں ہوتا۔”

(فتاویٰ نذیریہ، ج 3، ص 73)

اسی طرح مفتی محمد شفیع حنفی (دارالعلوم کراچی) بھی زبانی طلاق کے وقوع کے قائل ہیں۔
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، جلد 2، ص 658)

شرعی فیصلہ

اس صورتِ مسئلہ میں:

اہلِ حدیث کے نزدیک:
تینوں الفاظِ طلاق ایک رجعی طلاق شمار ہوں گے۔
احناف کے نزدیک:
تینوں طلاقیں مکمل مغلظہ بائنہ واقع ہو چکی ہیں۔

تاہم، چونکہ محمد اقبال نے اپنی بیوی رضیہ بی بی کو تین سال قبل طلاق دی تھی، اس لیے عدت گزر چکی ہے اور نکاح شرعاً ختم ہو چکا ہے۔

لہٰذا:
مسمات رضیہ بی بی کو شرعاً دوبارہ نکاح کرنے کا حق حاصل ہے،
البتہ قانونی اجازت افسرِ مجاز سے لینا ضروری ہے۔
مفتی کسی قانونی پہلو کے ذمہ دار نہیں ہوگا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے