سوال
مسمی غلام محمد ولد مہر دین قوم میو، ساکن موضع ہفت مدر، تحصیل ننکانہ، ضلع شیخوپورہ نے دریافت کیا:
میری دختر مسمات مختار بی بی کا نکاح مسمی محمد اسلم ولد ہمر دین قوم میو، ساکن نیا پنڈ تحصیل شیخوپورہ سے تقریباً ایک سال نو ماہ قبل ہوا۔
نکاح کے بعد مسمات مختار بی بی نے ایک ماہ اپنے شوہر کے ساتھ رہ کر حق زوجیت ادا کیا۔ دورانِ ازدواجی زندگی میاں بیوی کے درمیان ناچاقی پیدا ہو گئی کیونکہ محمد اسلم آوارہ طبیعت کا انسان تھا۔ وہ اکثر مارپیٹ اور جھگڑا کرتا رہتا اور آخرکار مختار بی بی کو زدوکوب کر کے والدین کے گھر چھوڑ آیا۔
اس کے بعد مسمی محمد اسلم نے ایک سال سات ماہ قبل گواہوں کی موجودگی میں زبانی طور پر تین بار “طلاق، طلاق، طلاق” کہہ کر علیحدگی کا اعلان کیا۔ مصالحت کی کوششوں کے باوجود اس نے رجوع نہیں کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ: کیا تین بار زبانی طور پر “طلاق، طلاق، طلاق” کہنے سے شرعاً طلاق واقع ہو جاتی ہے یا نہیں؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
نوٹ:
سائل خود اپنی دی گئی معلومات کی صداقت کا ذمہ دار ہے۔
تصدیق
ہم اس سوال کی حرف بحرف تصدیق کرتے ہیں کہ یہ سوال بالکل درست ہے، اگر غلط ثابت ہوا تو ہم ذمہ دار ہوں گے۔
ہمیں اس مسئلہ پر شرعی فتویٰ دیا جانا مناسب ہے۔
دستخط کنندگان:
✿ عبدالحمید ولد عبدالمجید قوم راجپوت، موضع ہفت مدر، تحصیل ننکانہ، ضلع شیخوپورہ
✿ رانا ولی محمد ولد غلام حیدر قوم راجپوت، موضع ہفت مدر، تحصیل ننکانہ، ضلع شیخوپورہ
✿ بذریعہ قاضی احسان الحق، چک نمبر 240 گ ب جڑانوالہ
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحتِ سوال و واقعہ، اس مسئلہ میں یہ بات واضح ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور سے زبانی طلاق کا طریقہ جاری و ساری ہے۔
جیسا کہ نکاح بھی زبانی ایجاب و قبول سے گواہوں کے سامنے ہوتا ہے، اسی طرح گواہوں کے روبرو زبانی طلاق بھی بلا شک و شبہ نافذ ہوتی ہے۔
البتہ تحریری طلاق کے معاملہ میں اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم جمہور علمائے امت کے نزدیک تحریری طلاق بھی مؤثر اور نافذ ہو جاتی ہے۔
اب ان دونوں (زبانی و تحریری) طلاقوں کے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
➊ زبانی طلاق کے وقوع پر دلیل
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم قَالَ:
«إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ»
قَالَ قَتَادَةُ: «إِذَا طَلَّقَ فِي نَفْسِهِ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ»
(صحیح بخاری، شرح فتح الباری، باب الطلاق فی الاغلال والکرہ والسکران والمجنون ومرھما والعلظ والنسیان، ج 9، ص 340، 345)
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دل کے خیالات کا محاسبہ معاف کر رکھا ہے، جب تک وہ ان پر عمل نہ کرے یا زبان سے بیان نہ کرے۔”
اس حدیث سے دو باتیں واضح ہوئیں:
(1) زبانی طلاق کے وقوع کی دلیل
حدیث کے الفاظ "أو تتکلم” سے صاف ظاہر ہے کہ جب زبان سے طلاق کا لفظ ادا کیا جائے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
امام ترمذی فرماتے ہیں:
"والعمل علی ھذا عند أھل العلم أن الرجل إذا حدث نفسه بالطلاق لم یکن شیئاً حتی یتکلم به.”
(ترمذی مع تحفة الاحوذی، باب ما جاء فی من یحدث نفسه بطلاق امرأته، ج 9، ص 215)
یعنی اہل علم کا اجماع ہے کہ اگر کوئی آدمی دل میں طلاق کا خیال کرے تو طلاق نہیں ہوتی جب تک وہ زبان سے ادا نہ کرے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"واورد حدیث أبی ہریرة للاستدلال به علی من طلق زوجته بکتابته ولم یلفظ بلسانه لم یکن لذلک حکم الطلاق لأن خطرات القلب مغفورة للعباد.”
(نیل الاوطار، ج 6، ص 245، طبع ثانی)
یعنی اگر کوئی شخص دل ہی دل میں یا صرف لکھ کر طلاق دے مگر زبان سے ادا نہ کرے تو طلاق واقع نہیں ہوتی، کیونکہ دل کے خیالات اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیے ہیں۔
(2) تحریری طلاق کے وقوع کی دلیل
اسی حدیث کے الفاظ "ما لم تعمل” سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ تحریری طلاق بھی شرعاً معتبر ہے۔
شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"واستدل به علی أن من کتب الطلاق طلقت امرأته لأنه عزم بقلبه وعمل بکتابة، وھو قول الجمہور، وشرط مالک فیه الاشہاد علی ذلک.”
(فتح الباری، ج 9، ص 345)
یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تحریری طلاق دے تو طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ دل سے ارادہ اور لکھنے کا عمل دونوں موجود ہیں۔
یہی جمہور علمائے اسلام کا مسلک ہے۔
البتہ امام مالک رحمہ اللہ اس پر گواہوں کی موجودگی کو شرط قرار دیتے ہیں۔ (تحفۃ الاحوذی، ج 2، ص 315)
➋ فتاویٰ نذیریہ کا بیان
"واضح ہو کہ جب شوہر شریعت کے مطابق اپنی زوجہ کو طلاق دے گا، خواہ زبانی دے یا تحریری، تو طلاق واقع ہو جائے گی، چاہے زوجہ اس کو منظور کرے یا نہ کرے۔”
(فتاویٰ نذیریہ، ج 3، ص 73)
➌ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند کا بیان
مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی کا بھی یہی فتویٰ ہے کہ
"زبانی طلاق شرعاً نافذ ہو جاتی ہے.”
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج 2، ص 658)
نتیجہ و حکمِ شرعی
مندرجہ بالا احادیثِ صحیحہ، اقوالِ سلف صالحین اور فتاویٰ علمائے امت کی روشنی میں:
◈ مسمات مختار بی بی بنت غلام محمد ولد مہر دین قوم میو پر اس کے شوہر محمد اسلم کی زبانی تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔
◈ چونکہ طلاق کو ایک سال سات ماہ (انیس ماہ) گزر چکے ہیں، لہٰذا عدت بھی پوری ہو چکی ہے۔
◈ اس طرح ان دونوں کا نکاح مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
◈ اب مسمات مختار بی بی کو اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کا شرعی اختیار حاصل ہے۔
البتہ مفتی اس معاملہ میں کسی قانونی سقم کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب