نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تیمم کا جو طریقہ صحیح احادیث سے ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مٹی پر دونوں ہاتھ مارتے، پھر چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرتے۔ اس سے مختلف کوئی اور طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔
دلیل نمبر 1:
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک کام کے لیے بھیجا۔ راستے میں انہیں جنابت لاحق ہوگئی اور پانی نہ ملنے پر انہوں نے جانوروں کی طرح مٹی میں لوٹ پوت کی۔ واپس آ کر یہ واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے لیے یہی کافی تھا کہ تم یوں کرتے۔” پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پہلے بائیں ہاتھ کو دائیں پر اور پھر دونوں ہاتھوں کو چہرے پر پھیرا۔ (صحیح بخاری: 347، صحیح مسلم: 368)
صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، ان میں پھونکا اور پھر چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا۔ (صحیح بخاری: 338)
یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سکھایا ہوا تیمم کا طریقہ تھا، جو سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے اپنایا اور بعد میں لوگوں کو بھی یہی طریقہ سکھایا۔
تقلیدی نظریات:
بعض لوگ اس نبوی طریقے سے اختلاف کرتے ہیں اور تقلید کی وجہ سے اس حدیث کو نظرانداز کرتے ہیں، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے روگردانی درست نہیں۔ مشہور دیوبندی عالم تقی عثمانی اور حسین احمد مدنی نے اس حدیث کی وضاحت میں اختلافی آراء پیش کی ہیں، جو اس حدیث کی بنیادی تشریح سے ہٹ کر ہیں۔
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا عمل:
ابو مالک غزوان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے سنا، جس میں انہوں نے تیمم کا ذکر کیا اور ہاتھوں کو زمین پر مار کر چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا۔ (سنن دارقطنی: 702)
مقلدین کی پیش کردہ روایت:
مقلدین مسند بزار کی ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے ایک ضرب چہرے کے لیے اور ایک ضرب کہنیوں تک ہاتھوں کے لیے کی۔ تاہم، اس روایت کو سند کی بنیاد پر ضعیف قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اس میں تدلیس موجود ہے۔
تیمم کے بارے میں خودساختہ اضطراب کا جواب
دیوبندی عالم جناب مدنی صاحب نے تیمم کے حوالے سے تین اعتراضات کیے ہیں جن کے جوابات پیش ہیں:
➊ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی فرمان اور عملی مثال:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف زبانی طور پر تیمم کا طریقہ بیان کیا بلکہ اسے عملی طور پر کر کے بھی دکھایا۔ جس روایت میں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو یہ سکھایا گیا کہ چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے ایک مرتبہ مٹی پر ہاتھ مارنا کافی ہے، اس کی سند میں ضعف موجود ہے۔ اس روایت کے راوی سعید بن ابو عروبہ اور ان کے استاذ قتادہ بن دعامہ مدلس ہیں اور انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ اس لیے یہ روایت کمزور ہے اور اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ (سنن ابو داوٗد: 327، سنن الترمذی: 144)
➋ صحیح بخاری میں واضح روایت:
صحیح بخاری میں ایک مضبوط روایت موجود ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر مارا، ان میں پھونکا، اور پھر چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا۔ اس میں کوئی شک یا اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں بھی یہی الفاظ آئے ہیں:
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر مارا، ان میں پھونکا اور پھر چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا۔” (صحیح بخاری: 343)
➌ سنن ابو داؤد میں ذکر کردہ شک اور وہم:
سنن ابو داؤد میں ایک روایت ہے جس میں ذکر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف ذراع تک مسح کیا۔ تاہم، یہ روایت راوی سلمہ بن کہیل کے شک کی وجہ سے قابل اعتماد نہیں ہے۔ صحیح روایت میں صرف ہتھیلیوں کا ذکر ہے، نہ کہ کہنیوں تک مسح کا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نصف ذراع تک مسح والی روایت میں مقال ہے اور اسے درست نہیں سمجھا جا سکتا۔ (فتح الباری: 445/1)
تنبیہ:
ایک اور روایت میں کہنیوں تک مسح کرنے کے الفاظ بھی ملتے ہیں لیکن اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کے منقطع ہونے کی وضاحت کی ہے اور بتایا ہے کہ قتادہ کے واسطے سے بیان کردہ یہ روایت قابل اعتماد نہیں ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: 220/1)
اس شک کا رد کرتے ہوئے ہم صحیح روایات کو ترجیح دیں گے، جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تیمم کا طریقہ واضح اور شک و شبہ سے پاک بیان کیا گیا ہے۔
دلیل نمبر 2:
(ا) سیدنا ابو جہیم انصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ:
سیدنا ابو جہیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بئر جمل کی طرف سے تشریف لا رہے تھے۔ راستے میں ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، مگر آپ نے فوری طور پر سلام کا جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ آپ ایک دیوار کے قریب آئے، اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر مسح کیا اور پھر سلام کا جواب دیا۔ (صحیح بخاری: 337، صحیح مسلم: 369)
(ب) سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان:
اسی طرح ایک اور روایت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت سے فارغ ہو کر بئر جمل کے پاس آئے۔ وہاں ایک شخص نے سلام کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب نہ دیا۔ جب آپ ایک دیوار کے قریب پہنچے تو ہاتھوں کو دیوار پر مارا، اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا اور پھر سلام کا جواب دیا۔ (سنن ابو داؤد: 331، سنن دارقطنی: 666، السنن الکبریٰ للبیہقی: 306/1)
احادیث کی تشریح:
یہ دونوں احادیث ایک دوسرے کی وضاحت کرتی ہیں، اور ان میں "ہاتھوں” سے مراد ہتھیلیاں ہیں، جیسا کہ دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے اور ہتھیلیوں پر مسح کیا، جو کہ تیمم کا صحیح طریقہ ہے۔
بعض الناس کے دلائل اور ان کا تجزیہ
بعض لوگ تیمم کے نبوی طریقے میں تبدیلی کرتے ہوئے مختلف روایات کو بنیاد بناتے ہیں۔ ان روایات کا منصفانہ تجزیہ محدثین کے اصولوں کے مطابق پیش کیا جا رہا ہے تاکہ حقیقت واضح ہو سکے۔
روایت نمبر 1:
ایک روایت میں آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیوار پر ہاتھ مارا اور چہرے پر مسح کیا، پھر دوبارہ ہاتھ مار کر بازوؤں پر مسح کیا۔ (سنن ابو داؤد: 330، سنن دارقطنی: 665)
تجزیہ:
اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی محمد بن ثابت عبدی، ابو عبد اللہ بصری کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس بارے میں کہا ہے کہ یہ راوی محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہے۔ (خلاصۃ الاحکام: 217/1)
روایت نمبر 2:
سیدنا ابو جہیم رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت منسوب کی جاتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیوار پر ہاتھ مارا اور چہرے پر مسح کیا، پھر دوسری بار ہاتھ مارا اور کہنیوں تک ہاتھوں پر مسح کیا۔ (سنن دارقطنی: 674)
تجزیہ:
یہ روایت جھوٹی ہے اور کئی وجوہات کی بنا پر ناقابل اعتبار ہے:
➊ محمد بن خلف بن عبد العزیز بن عثمان بن جبلہ کے حالات زندگی معلوم نہیں ہو سکے، لہٰذا یہ راوی مجہول ہے۔
➋ ابو حاتم احمد بن حمدویہ بن جمیل بن مہران مروزی بھی غیر معتبر راوی ہے۔
➌ ابو عصمہ نوح بن ابو مریم، جو اس روایت کا اہم راوی ہے، محدثین کے اتفاق کے ساتھ جھوٹا اور ضعیف ہے۔ اس کو "متروک” بھی قرار دیا گیا ہے۔ محدثین کے ہاں اس کے حق میں کوئی توثیق موجود نہیں ہے۔
ابو عصمہ کی متابعت:
خارجہ بن مصعب ابو حجاج سرخسی نے ابو عصمہ کی متابعت کی ہے، لیکن اسے بھی جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور محدثین نے اسے ضعیف اور متروک قرار دیا تھا۔ (نتائج الافکار: 262/1، طبقات المدلسین، ص: 54)
روایت نمبر 3:
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دیوار کے پاس آئے اور اپنے چہرے اور کہنیوں تک دونوں ہاتھوں پر مسح کیا، پھر سلام کا جواب دیا۔ (سنن دارقطنی: 671)
تجزیہ:
اس روایت میں "کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں پر مسح” کے الفاظ منکر ہیں، یعنی یہ الفاظ قابل قبول نہیں ہیں۔ اس روایت کا راوی عبد اللہ بن صالح مصری ہے، جو کہ کاتب اللیث کے نام سے مشہور تھا۔ اس کے بارے میں محدثین نے مندرجہ ذیل رائے دی ہے:
➊ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابتدا میں یہ ثقہ تھا لیکن بعد میں اس کا حافظہ خراب ہو گیا اور یہ ناقابل اعتبار ہو گیا۔ (العلل ومعرفۃ الرجال بروایۃ ابنہ عبد اللہ: 212/3)
➋ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے مطابق اس کی بیان کردہ احادیث میں منکر روایات شامل ہو گئیں۔ (المجروحین لابن حبان: 40/2)
➌ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن صالح کی روایت میں سخت منکر احادیث شامل ہو گئیں، اور یہ ثقہ راویوں سے ایسی باتیں بیان کرتا ہے جو ان کے موافق نہیں ہوتیں۔ (المجروحین: 40/2)
صحیح بخاری میں یحییٰ بن بکیر اور عبد الرحمن بن ہرمز نے اسی واقعے کے صحیح الفاظ "فَمَسَحَ بِوَجْہِہٖ وَیَدَیْہِ” یعنی چہرے اور ہاتھوں پر مسح کا ذکر کیا ہے، جو قابل اعتماد ہیں۔ (صحیح بخاری: 337، مسند احمد: 24277)
روایت نمبر 4:
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیوار پر ہاتھ مارے اور چہرے اور کہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں پر مسح کیا، پھر سلام کا جواب دیا۔ (مسند الشامیین: 44/1، السنن الکبریٰ للبیہقی: 205/1)
تجزیہ:
یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے کیونکہ:
➊ ابراہیم بن محمد بن ابو یحییٰ اسلمی، جو اس روایت کا اہم راوی ہے، جمہور محدثین کے نزدیک متروک ہے۔ (دیوان الضعفاء: 13)
➋ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اکثر محدثین اس راوی کو ضعیف سمجھتے ہیں۔ (التلخیص الحبیر: 22/1)
➌ اس روایت کا ایک اور راوی عبد الرحمن بن معاویہ ابو حارث بھی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ (مجمع الزوائد: 33-32/1)
➍ یہ روایت منقطع ہے کیونکہ عبد الرحمن بن ہرمز کا سیدنا ابو جہیم سے سماع ثابت نہیں۔
روایت نمبر 5:
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ تیمم میں ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ضرب کہنیوں تک ہاتھوں کے لیے ہے۔ (سنن دارقطنی: 181/1)
تجزیہ:
اس روایت کی سند میں ابو زبیر کی تدلیس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ ابو زبیر محدثین کے ہاں مدلس تھے، اور ان کا سماع واضح نہ ہو تو ان کی روایت قابل اعتماد نہیں ہوتی۔
روایت نمبر 6:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تیمم دو ضربات (مٹی پر ہاتھ مارنا) پر مشتمل ہے؛ ایک چہرے کے لیے اور دوسری کہنیوں تک ہاتھوں کے لیے۔” (سنن دارقطنی: 180/1)
تجزیہ:
اس روایت کی سند سخت ضعیف ہے کیونکہ اس کا راوی علی بن ظبیان ہے، جسے مختلف محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے:
➊ امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے صدوق کہا ہے، لیکن حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کا رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ راوی "بلکہ کمزور ہے” (واہٍ)۔
➋ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے کہا: "یہ راوی بے کار (لَیْسَ بِشَيئٍ) ہے۔”
➌ امام ابوحاتم رحمہ اللہ اور امام نسائی رحمہ اللہ دونوں نے اسے "متروک الحدیث” قرار دیا ہے۔ (الجرح والتعدیل: 191/6)
➍ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اس کی بیان کردہ حدیث پر کمزوری واضح ہے۔” (الکامل في ضعفاء الرجال: 189/5)
روایت نمبر 7:
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ: "ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو دفعہ مٹی پر ہاتھ مار کر تیمم کیا؛ ایک دفعہ چہرے اور ہتھیلیوں کے لیے، اور دوسری دفعہ کہنیوں تک بازوؤں کے لیے۔” (سنن دارقطنی: 689)
تجزیہ:
یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے کیونکہ:
➊ سلیمان بن ارقم، جو اس روایت کا راوی ہے، متروک ہے۔ حافظ سہیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اجماع ہے۔ (الروض الأنف: 112/7)
➋ امام زہری رحمہ اللہ اس روایت میں مدلس ہیں، اور ان کی تدلیس کی وجہ سے یہ روایت مزید کمزور ہو جاتی ہے۔
روایت نمبر 8:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی پر ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ضرب کہنیوں تک ہاتھوں کے لیے ماری۔ (التحقیق في مسائل الخلاف لابن الجوزي: 269)
تجزیہ:
اس روایت کی سند ضعیف ہے کیونکہ:
➊ اس کے راوی مثنّی بن صباح کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "یہ راوی جمہور کے نزدیک متروک ہے۔” (مجمع الزوائد: 297/4)
➋ اس روایت میں [المِرْفَقَیْن] کے الفاظ سنن کبریٰ بیہقی میں نہیں ملتے، جو اس کے ضعیف ہونے کی مزید دلیل ہے۔
روایت نمبر 9:
اسلع بن شریک سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی پر ہاتھ مارا، ان کو جھاڑا، چہرے پر مسح کیا، پھر داڑھی پر مسح کیا، پھر دوبارہ مٹی پر ہاتھ مارا اور بازوؤں کے اندر اور باہر والے حصے پر مسح کیا۔ (سنن دارقطنی: 179/1)
تجزیہ:
یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ:
➊ اس کا راوی ربیع بن بدر جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
➋ اس کا باپ بدر بن عمرو مجہول ہے۔
➌ ربیع کے دادا عمرو بن جراد سعدی بھی مجہول ہیں، جن کے حالات معلوم نہیں ہیں۔
روایت نمبر 10:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تیمم دو ضربات پر مشتمل ہے؛ ایک چہرے کے لیے اور دوسری کہنیوں تک ہاتھوں کے لیے۔” (سنن دارقطنی: 181/1)
تجزیہ:
یہ روایت سخت ضعیف ہے کیونکہ:
➊ اس کے راوی سلیمان بن ابوداؤد کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
➋ امام ابو زرعہ رازی نے اس روایت کو باطل قرار دیا ہے اور راوی کو ضعیف کہا ہے۔ (علل الحدیث لابن ابی حاتم: 54/1)
روایت نمبر 11:
سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تیمم میں ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ہتھیلیوں کے لیے ہے۔” (المعجم الکبیر للطبرانی: 245/8)
تجزیہ:
یہ روایت بے اصل اور باطل ہے کیونکہ:
➊ اس کے راوی جعفر بن زبیر شامی کو جمہور محدثین نے دنیا کا جھوٹا ترین راوی، متروک الحدیث، اور ساقط الحدیث قرار دیا ہے۔
روایت نمبر 12:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تیمم دو ضربوں پر مشتمل ہے؛ ایک چہرے کے لیے اور دوسری کہنیوں تک ہاتھوں کے لیے۔” (الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 442/2)
تجزیہ:
یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ:
➊ اس کے راوی حریش بن خریت کو محدثین نے غیر معتبر قرار دیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر "فیہ نظر” کا حکم لگایا ہے، جبکہ امام ابو زرعہ رازی اور دیگر محدثین نے اسے ضعیف اور منکر الحدیث قرار دیا ہے۔ (التاریخ الکبیر: 114/3)
نتیجہ:
تمام پیش کردہ روایات، جو تیمم کے دو ضربوں یا کہنیوں تک ہاتھوں کے مسح کا ذکر کرتی ہیں، سند کے اعتبار سے سخت ضعیف اور منکر ہیں۔ نبوی طریقے کے مطابق تیمم ایک ضرب پر مشتمل ہے، جس میں چہرے اور ہتھیلیوں پر مسح کیا جاتا ہے۔ مقلدین کی پیش کردہ روایات غیر معتبر ہیں اور ان کے ذریعے نبوی سنت کو تبدیل کرنا درست نہیں۔
دعا:
اللہ تعالیٰ ہمیں سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!