تیمم کا مسنون طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس مکتبہ دارالاندلس کی جانب سے شائع کردہ کتاب صحیح نماز نبویﷺ سے ماخوذ ہے جو الشیخ عبدالرحمٰن عزیز کی تالیف ہے۔

تیمم کا بیان

پانی کی عدم دستیابی یا استعمال نہ کر سکنے کی صورت میں شریعت اسلامیہ نے مٹی کو پانی کے قائم مقام قرار دیا ہے۔ لہذا پانی کا استعمال نقصان دہ ہو تو تیمم کیا جا سکتا ہے، پانی کا ملنا مشکل ہو تو بھی تیمم کیا جا سکتا ہے اور پاک مٹی سے اسی طرح طہارت حاصل کی جا سکتی ہے جس طرح پانی سے طہارت حاصل کی جاتی ہے اور اسے تیمم کہا جاتا ہے۔
❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ
(5-المائدة:6)
”اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے لوٹے، یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی اور پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو، پس اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو۔“
اس آیت میں چند احکام بیان ہوئے ہیں:
➊ تیمم غسل کی ضرورت بھی پوری کرتا ہے اور وضو کی بھی۔
➋ پانی کا استعمال نقصان دہ ہو تو تیمم کیا جا سکتا ہے۔
➌ پانی کا ملنا مشکل ہو تو تیمم کیا جا سکتا ہے۔
➍ پاک مٹی سے تیمم کیا جا سکتا ہے۔
➎ تیمم کرنے کا طریقہ۔
پانی نہ ملنے کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً آدمی جس جگہ ہے وہاں پانی موجود نہیں۔ پانی وضو سے کم ہے، یا پانی محض پینے کے لیے ہے، اس سے وضو کریں تو پینے کے لیے نہیں بچے گا۔ تو ایسی صورت میں پاک مٹی سے تیمم کیا جائے گا۔

پاک مٹی کی صورتیں:

❀ سطح زمین کی جتنی شکلیں ہیں، سوائے خالص پتھر کے، وہ مٹی ہی کی قسم شمار ہوتی ہیں۔ مٹی کی تمام صورتوں سے تیمم کیا جا سکتا ہے، مثلاً مٹی، ریت، گرد و غبار، کچی دیوار اور کسی چیز سے مٹی خلط ملط ہو۔

تیمم کا مسنون طریقہ:

❀ ہر کام کا مدار نیت پر ہے، لہذا تیمم کرتے ہوئے طہارت کی نیت کریں۔
❀ وضو کی طرح یہاں بھی پہلے ”بسم الله“ پڑھیں۔
❀ پاک مٹی پر ہاتھ ماریں۔
❀ پھر دونوں ہاتھوں پر پھونک ماریں۔
❀ دونوں ہاتھوں سے پہلے چہرے کا، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کا اور بائیں سے دائیں ہاتھ کا مسح کر لیں۔
[بخاری، کتاب التيمم، باب المتيمم هل ينفخ فيهما: 338 – مسلم: 368]
❀ یا پہلے دونوں ہاتھوں کا مسح کریں، یعنی دائیں سے بائیں کا اور بائیں سے دائیں کا اور پھر چہرے کا مسح کریں۔
[بخاری، کتاب التيمم، باب التيمم ضربة واحدة: 347 – مسلم: 368]

کیا ہر نماز کے لیے الگ تیمم کرنا چاہیے؟

❀ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ایک تیمم سے صرف ایک نماز پڑھی جا سکتی ہے، دوسری نماز کے لیے دوبارہ تیمم کرنا چاہیے، یہ بات بلا دلیل ہے۔ جب یہ بات طے ہے کہ مٹی پانی کے قائم مقام ہے تو اس کے احکام بھی وہی ہوں گے۔ لہذا جب تک تیمم نہ ٹوٹے نیا تیمم کرنے کی ضرورت نہیں۔

تیمم کے مزید مسائل:

❀ مٹی سے تیمم پانی کا قائم مقام ہے، لہذا اس کے احکام بھی پانی سے حاصل کی گئی طہارت جیسے ہیں۔ مثلاً اگر کئی غسل اکٹھے ہو جائیں تو سب کے لیے ایک ہی تیمم کافی ہے۔ غسل اور وضو کے لیے ایک ہی تیمم کافی ہے۔ اگر غسل کی جگہ تیمم کیا پھر وضو ٹوٹ گیا تو اس کا غسل باقی رہے گا۔ (یعنی اگر صرف وضو کے لیے پانی مل گیا تو وضو کر لیا جائے اور غسل لازم نہیں)
[الكافي لابن قدامة، فصل: 150]
❀ میت کو تیمم کرانے کا بھی یہی طریقہ ہے۔
❀ تیمم کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے، جب تک مذکورہ صورتحال رہے تیمم کرتے رہنا جائز ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الصعيد الطيب وضوء المسلم ولو إلى عشر سنين
”پاک مٹی مسلمان کے لیے طہارت کا ذریعہ ہے، اگر چہ دس سال تک (پانی نہ مل سکے)۔“
[ابو داود، كتاب الطهارة، باب الجنب يتيمم: 332 – ترمذی: 124 – صحیح]
❀ تیمم کر کے نماز پڑھ لینے کے بعد پانی ملا تو نماز دہرانے کی ضرورت نہیں، لیکن اگر کوئی دہرائے تو اسے دگنا اجر ملے گا، جیسا کہ دو صحابی سفر میں تھے، ایک جگہ پانی نہ ملنے پر دونوں نے تیمم کر کے نماز ادا کر لی، پھر نماز کے وقت ہی میں پانی مل گیا، ایک نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھ لی، جبکہ دوسرے نے نہ دہرائی۔ واپسی پر انھوں نے سارا واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ دہرانے والے سے فرمایا: ”تو نے سنت پر عمل کیا، تیری پہلی نماز تجھے کافی ہے۔“ اور دہرانے والے سے فرمایا: ”تجھے دگنا اجر ملے گا۔“
[ابو داود، كتاب الطهارة، باب المتيمم يجد الماء: 338 – صحیح]

جن چیزوں سے تیمم ٹوٹ جاتا ہے:

❀ جن چیزوں سے غسل یا وضو ٹوٹ جاتا ہے ان سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
❀ پانی ملنے سے تیمم ٹوٹ جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإذا وجدت الماء فأمسه جلدك فإن ذلك خير
”تجھے پانی مل جائے تو اسے استعمال کر، کیونکہ اسی میں خیر و بھلائی ہے۔“
[ابو داود، كتاب الطهارة، باب الجنب يتيمم: 332 – ترمذی: 124 – صحیح]
لہذا اگر حالت نماز میں پانی ملنے کی اطلاع مل گئی اور وہ پانی استعمال کرنے پر قادر ہے تو اسے نماز توڑ کر وضو کر کے نماز ادا کرنی چاہیے۔

مریض اور معذور کی طہارت :

❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا
(سورۃ التغابن: 16)
”جس قدر تم میں طاقت ہو اسی قدر اللہ سے ڈرو، اس کے احکام سنو اور اس کی اطاعت کرو۔“
❀ اور دوسری جگہ فرمایا:
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا
(سورۃ البقرة: 286)
”اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی استطاعت سے بڑا حکم نہیں دیتا۔“

زخمی شخص کی طہارت:

❀ کسی جگہ زخم ہے تو سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”وہ (غسل اور وضو میں) اس کے ارد گرد جگہ کو دھو لے اور زخم پر مسح کر لے۔“
[السنن الكبرى للبيهقي: 228/1، ح: 1079 – صحیح]
❀ اگر پورا جسم زخمی ہے تو تیمم کر لے۔
❀ زخم یا پٹی و پلاسٹر پر مسح کرنے کی کوئی مدت نہیں، جب تک زخم یا پٹی و پلاسٹر برقرار ہے اس پر مسح ہو سکتا ہے۔

مریض کی طہارت:

❀ مریض کے لیے ایسی صورت میں تیمم کرنا جائز ہے جب اس کے لیے پانی کا استعمال نقصان دہ ہے، مثلاً آدمی بیمار ہے اور پانی استعمال کرنے سے اس کی بیماری بڑھنے کا خطرہ ہے، یا شدید سردی میں ٹھنڈا پانی استعمال کرنے سے بیماری کا خطرہ ہے اور پانی گرم کرنے کا انتظام نہیں۔
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”مجھے غزوہ ذات السلاسل میں ایک ٹھنڈی رات میں احتلام ہو گیا، مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ اگر میں نے (ٹھنڈے پانی سے) غسل کر لیا تو میں ہلاک ہو جاؤں گا، تو میں نے تیمم کر کے ساتھیوں کو نماز فجر پڑھا دی۔ (میرے ساتھیوں نے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سارا معاملہ بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں کہا۔“
[ابو داود، كتاب الطهارة، باب إذا خاف الجنب البرد أيتيمم: 334 – صحیح]

استحاضہ کا مسئلہ:

❀ استحاضہ خون کی یا زرد رنگ کا خون ہے جو عورتوں کو بیماری کی وجہ سے آتا ہے۔
❀ استحاضہ کی صورت میں عورت پاک ہوتی ہے، لہذا وہ پاک عورت کی طرح تمام کام کرے۔
[بخاری، کتاب الحيض، باب الاستحاضة: 306 – مسلم: 333]
❀ بعض عورتیں استحاضہ کو بھی حیض سمجھ کر نماز اور روزہ ترک کر دیتی ہیں، یہ شدید غلطی ہے۔ استحاضہ والی عورت ہر نماز کے وقت خون صاف کرے اور وضو کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استحاضہ والی عورت کو فرمایا:
فاغسلي عنك الدم وصلي
”خون صاف کر اور نماز پڑھ۔“
[بخاری، كتاب الحيض، باب الاستحاضة: 306 – مسلم: 333]
❀ حالت استحاضہ میں غسل فرض نہیں لیکن وہ صفائی کے لیے غسل کرنا چاہے تو اچھا ہے۔ اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق غسل کر لیا کرے، یعنی ہر نماز کے لیے غسل کر لے، یا دو نمازوں کے لیے ایک غسل کر لے، یا دن میں ایک دفعہ غسل کر لے، یا حیض سے دوسرے حیض کے دوران ایام استحاضہ میں کبھی کبھار غسل کر لیا کرے۔
[ابو داود، كتاب الطهارة، باب ما روى أن المستحاضة تغتسل لكل صلاة: 291، 287، 303، 301 – صحیح]
❀ استحاضہ کا خون نکلے تو ہر نماز کے لیے وضو ضرور کرنا پڑے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
توضئي لكل صلاة
”ہر نماز کے لیے وضو کر لیا کر۔“
[بخاری، كتاب الوضوء، باب غسل الدم: 227]
❀ مستحاضہ دو نمازوں کے لیے ایک غسل کرنا چاہے تو دو نمازیں جمع کرے، یعنی ظہر کو لیٹ کرنے اور عصر کو مقدم کرے، اسی طرح مغرب کو لیٹ کرے اور عشاء کو مقدم کر کے جمع کر لے اور صبح الگ پڑھ لے۔
[ابو داود، كتاب الطهارة، باب من قال تجمع بين الصلاتين: 294 – ترمذی: 128 – صحیح]
❀ اگر کوئی عورت حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق نہ کر سکے تو وہ دیکھے کہ اگر حیض عادت کے مطابق آتا ہے تو عادت کے مطابق آنے والے خون کو حیض اور بعد والے کو استحاضہ سمجھے اور اگر حیض عادت کے مطابق نہ آتا ہو تو اپنی کسی قریبی عورت (ماں، بہن وغیرہ) کی عادت کو دیکھے، اس کے مطابق آنے والے خون کو حیض اور باقی کو استحاضہ شمار کرے۔

مریض کی طہارت کب ٹوٹے گی؟

جنھیں (استحاضہ کا خون، لیکوریا کا پانی)، پیشاب کے قطرے یا ہوا خارج ہونے کی بیماری ہو وہ ایک وضو سے ایک نماز مکمل پڑھ سکتے ہیں، نماز کے دوران میں خون، پانی اور ہوا وغیرہ نکلنے سے نہ طہارت ختم ہو گی اور نہ نماز ٹوٹے گی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ خاتون سے فرمایا: ”ہر نماز کے لیے وضو کر لیا کر۔“
[ابو داود، كتاب الطهارة، باب ما روى أن المستحاضة: 292]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے