سوال:
ایک شخص نے اپنی بیوی کو پہلے علیحدہ علیحدہ دو طلاقیں دی تھیں اور اب تیسری طلاق کے بعد رجوع کا ارادہ رکھتا ہے۔ طلاق کے وقت گواہ موجود نہیں تھے، اور اس معاملے پر کچھ علماء نے نرمی کا ذکر کیا ہے۔ کیا رجوع ممکن ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ ، فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
1. طلاق میں گواہ کی شرط کا حکم:
◈ طلاق کے لیے گواہ ہونا استحباب کے درجے میں ہے، یعنی بہتر ہے کہ گواہ ہوں، لیکن یہ شرط فرض یا واجب نہیں ہے۔
◈ اگر طلاق دی گئی ہے، چاہے گواہ موجود نہ ہوں، تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
◈ بعض علماء کا یہ کہنا کہ طلاق گواہ کے بغیر نہیں ہوتی، یہ محل نظر ہے اور جمہور علماء کی رائے کے مطابق گواہ کے بغیر بھی طلاق نافذ ہوتی ہے۔
2. موجودہ صورت حال:
◈ شوہر نے پہلے دو طلاقیں علیحدہ علیحدہ دی تھیں، اور اب تیسری طلاق کے الفاظ بھی کہہ دیے ہیں، جیسا کہ سوال سے معلوم ہوتا ہے۔
◈ اس صورت میں تیسری طلاق واقع ہو چکی ہے، اور یہ طلاق طلاقِ مغلظہ (ناقابل رجوع) ہے۔
3. رجوع کا حکم:
◈ تیسری طلاق کے بعد رجوع کا کوئی راستہ نہیں، جب تک کہ شرعی طور پر حلالہ صحیحہ نہ ہو، یعنی عورت کسی اور شخص سے نکاح کرے، اور طلاق کے بعد عدت مکمل کرے، تب ہی وہ پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔
◈ تاہم، حلالہ کو شرعی طریقے سے ہونا چاہیے، مصنوعی یا طے شدہ حلالہ کی اسلام میں سخت ممانعت ہے۔
4. طلاق کے وقت طہر کی حالت:
◈ شریعت میں طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ طلاق طہر (پاکی) کی حالت میں دی جائے، لیکن اگر شوہر نے طہر کی حالت کے بغیر طلاق دی ہو، تو بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
اہم اقدامات:
◈ شوہر اور بیوی دونوں کو حلفیہ بیان دینا چاہیے جس میں وہ تمام واقعات اور الفاظ کا ذکر کریں تاکہ مسئلے کی مکمل وضاحت ہو سکے۔
◈ مقامی اہلِ علم اور دارالافتاء سے رجوع کریں تاکہ تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا سکے اور مناسب رہنمائی فراہم کی جا سکے۔
خلاصہ:
◈ موجودہ صورت حال میں تیسری طلاق واقع ہو چکی ہے، اور رجوع ممکن نہیں ہے۔
◈ گواہ کی شرط ضروری نہیں، اس لیے گواہ کے نہ ہونے سے طلاق میں شبہ پیدا نہیں ہوتا۔
◈ مقامی علماء کے سامنے تفصیلی مسئلہ رکھا جائے تاکہ کوئی شرعی حل تلاش کیا جا سکے، لیکن شرعی اصولوں سے ہٹ کر کسی گنجائش کی تلاش مناسب نہیں۔