سوال:
میں تہجد کی نماز میں قرآن کی کچھ بڑی سورتیں تلاوت کرنا چاہتا ہوں۔ کیا میں پاکٹ قرآن دیکھ کر قراءت کر سکتا ہوں؟
کیا قضائے عمری ادا کرنا ضروری ہے؟
جواب
نماز تہجد میں پاکٹ قرآن سے دیکھ کر تلاوت کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جمہور اہل علم اس عمل کی اجازت دیتے ہیں۔
مولانا عبد الستار حماد نے ہفت روزہ اہلحدیث
[جلد نمبر 39، 25 ذوالحجہ تا یکم محرم الحرام 1428 ھ، 5 تا 11 جنوری 2008ء]
میں اس بارے میں لکھا ہے کہ:
"ایسا کرنا جائز ہے، تاہم اس کی مستقل عادت بنانا بہتر نہیں ہے۔”
احادیث سے بھی اس عمل کے جواز کا ثبوت ملتا ہے۔ مثال کے طور پر، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک غلام ذکوان، قرآن دیکھ کر ان کی امامت کرتے تھے۔ یہ حدیث
صحیح بخاری (تعلیقاً، کتاب الاذان، باب امامۃ العبد والمولی، حدیث 692)
میں بیان کی گئی ہے اور حافظ ابن ابی شیبہ نے اسے متصل سند کے ساتھ ذکر کیا ہے
(فتح الباری، ص 692، جلد 2)۔
بعض لوگ اس عمل کو "عمل کثیر” کہہ کر منع کرتے ہیں، لیکن اگر نماز کی ضرورت کے تحت ایسا کیا جائے تو علماء اسے جائز سمجھتے ہیں۔ مزید برآں، نماز میں بچے کو اٹھانا جائز ہے تو قرآن کو اٹھانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ قرآن کو حفظ کر کے تلاوت کی جائے کیونکہ امت کا متواتر عمل یہی ہے۔
قضائے عمری کے متعلق حکم
قضائے عمری (پوری زندگی کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا) کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کے بجائے، چھوڑ دی گئی نمازوں پر اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ کرنا ضروری ہے۔ جان بوجھ کر نماز چھوڑنا بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے۔ بعض اہل علم تو ایسے شخص کے کفر کا فتویٰ دیتے ہیں۔
ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ اللہ سے توبہ کرے، اپنی غلطیوں پر ندامت کا اظہار کرے، اور آئندہ نمازوں کی پابندی کا عہد کرے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا مشروع نہیں ہے بلکہ اس پر توبہ فرض ہے۔ شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ اگر کوئی شخص اخلاص کے ساتھ توبہ کرتا ہے اور باقاعدگی سے نماز پڑھنے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دے گا۔