تھوڑا کھانے کی فضیلت اور اس سے متعلق ایک روایت کی تحقیق
سوال:
ایک روایت عوام الناس میں مشہور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
"ایک حکیم مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مدینہ ہی میں ٹھہرنے کا حکم دیا۔ وہ ایک مہینہ ٹھہرا لیکن اس دوران اس کے پاس کوئی مریض نہ آیا۔ جب اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘یہاں کے لوگ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے جب تک انہیں شدید بھوک نہ لگے، اسی لیے وہ بیمار نہیں ہوتے’۔”
سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعہ صحیح ہے یا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر بہتان ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس روایت کی تحقیق:
◈ یہ روایت تلاش کے باوجود معتبر کتب حدیث میں نہیں ملی۔
◈ جس روایت کی سند اور حوالہ نہ ہو وہ مردود و بے اصل کے حکم میں آتی ہے، الا یہ کہ کوئی شخص اس کی صحیح یا حسن سند کے ساتھ اس کو ثابت کر دے۔
صحیح حدیث: تھوڑا کھانے کی ترغیب
یحییٰ بن جابر الطائی (ثقہ تابعی) سے منقول ہے:
روى الترمذي فيَنْ مِقْدَامِ ابْنِ مَعْدِي كَرِبَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مَلأ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ، بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لا مَحَالَةَ، فَثُلُثٌ لِطَعَامِهِ، وَثُلُثٌ لِشَرَابِهِ، وَثُلُثٌ لِنَفَسِهِ
(مسند احمد، ج4، ص132، ح 17318، وسندہ صحیح، وصححہ الحاکم 4/331، ح 7945، ووافقہ الذہبی)
یہ روایت سنن الترمذی (2380) میں بھی موجود ہے جس کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا:
"ھذا حدیث حسن صحیح”
اسی طرح یہ حدیث صحیح ابن حبان (موارد الظمان:1349، الاحسان:673) میں بھی پائی جاتی ہے۔
بعض افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ یحییٰ بن جابر اور سیدنا مقدام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن یہ دعویٰ مسند احمد میں موجود تصریحِ سماع کے مقابلے میں ناقابل قبول ہے۔
مزید ملاحظہ کریں:
◈ السلسلۃ الصحیحۃ للشیخ البانی رحمہ اللہ (5/337، حدیث: 2265)
◈ ارواء الغلیل (7/42، حدیث: 1973)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ الحمد للہ۔
مفہوم حدیث:
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ:
◈ کم کھانا بہتر اور افضل ہے۔
◈ پیٹ بھر کر کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
◈ صرف اتنا کھانا کافی ہے جس سے انسان کی کمر سیدھی رہے۔
◈ اگر ضرورت ہو تو پیٹ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے:
➊ ایک تہائی کھانے کے لیے
➋ ایک تہائی پینے کے لیے
➌ ایک تہائی سانس کے لیے
ایک اور حدیث: مسلمان اور کافر کا کھانے کا فرق
ایک مشہور صحیح حدیث میں آیا ہے:
المسلم یأکل فی معی واحد، والکافر یأکل فی سبعة أمعاء
یعنی:
مسلمان ایک آنت میں کھاتا ہے جبکہ کافر (اور منافق) سات آنتوں میں کھاتا ہے (یعنی بہت زیادہ کھاتا ہے)۔
(صحیح البخاری، حدیث: 5394، صحیح مسلم، حدیث: 2061)
پیٹ بھر کر کھانے کی بعض صورتیں:
یاد رہے کہ:
◈ بعض مواقع پر پیٹ بھر کر کھانا بھی جائز ہے۔
◈ جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں آیا ہے کہ:
"وشبعوا” یعنی انہوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔
(صحیح البخاری: 5381، کتاب الاطعمۃ، باب من اکل حتی شبع، صحیح مسلم: 2040)
نیز دیکھیں:
صحیح مسلم: 2144، ترقیم دارالسلام: 6322 (الحدیث: 19)
نتیجہ:
◈ سوال میں بیان کی گئی حکیم والی روایت کسی معتبر سند یا مصدر سے ثابت نہیں ہے۔
◈ لہٰذا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا درست نہیں۔
◈ البتہ تھوڑا کھانے کی فضیلت پر صحیح احادیث موجود ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ:
"کم کھانا سنت نبوی ہے اور صحت کے لیے مفید بھی۔”