تکمیل دین:
اللہ کریم نے قرآن مجید میں تکمیل دین کا مژدہ سنا دیا ہے، دین مکمل ہو چکا اور اسلام کو ایک کامل شریعت بنا کر بھیجا گیا، قرآن و حدیث میں شرع کے تمام احکام کی تنصیصا و تعلیلا رہنمائی کر دی گئی ہے۔
❀ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾
(المائدة: 3)
”آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے، تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا ہے۔“
❀ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م: 774ھ) فرماتے ہیں:
هذه أكبر نعم الله عز وجل على هذه الأمة؛ حيث أكمل تعالى لهم دينهم، فلا يحتاجون إلى دين غيره، ولا إلى نبي غير نبيهم، صلى الله عليه وسلم، ولهذا جعله الله خاتم الأنبياء، وبعثه إلى الإنس والجن، فلا حلال إلا ما أحله، ولا حرام إلا ما حرمه، ولا دين إلا ما شرعه.
”یہ اس امت پر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ اللہ نے ان کے لیے دین مکمل کر دیا ہے۔ انہیں کسی اور دین کی حاجت نہیں، نہ اپنے نبی کے علاوہ کسی نبی کی ضرورت ہے۔ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء بنا کر جن و انس ہر دو کی طرف مبعوث کیا ہے۔ چنانچہ حلال وہی ہے، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال قرار دیا اور حرام وہی ہے، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا اور دین وہی ہے، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشروع قرار دیا۔“
(تفسیر ابن کثیر: 465/2)
❀ امام مالک بن انس رحمہ اللہ (م: 179ھ) فرماتے ہیں:
من أحدث فى هذه الأمة اليوم شيئا لم يكن عليه سلفها، فقد زعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خان الرسالة، لأن الله تعالى يقول: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ فما لم يكن يومئذ دينا، لا يكون اليوم دينا.
”اگر آج کوئی شخص امت میں نیا کام جاری کرتا ہے، وہ کام جس پر اسلاف امت نہیں تھے، تو وہ باور کروا رہا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ رسالت میں خیانت کی ہے (معاذ اللہ!)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ ”آج میں نے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے، تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا ہے۔“جو چیز دور سلف میں دین نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں۔“
(الاحكام لابن حزم: 85/6، وسندہ حسن)
امام مالک رحمہ اللہ کے اس فرمان کی روشنی میں یوں سمجھیے کہ اگر میں بدعت جاری کرتا ہوں، تو گویا میں یہ باور کروا رہا ہوں کہ دین ناقص تھا، جسے میں نے مکمل کر دیا، یہ کار ثواب تھا، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں کیا اور میں بیان کر رہا ہوں، یوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تجاوز کی کوشش کرتا ہوں، ہر بدعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی ہے، اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اہل ایمان بدعت کے تصور ہی سے کانپ جاتے ہیں۔
❀ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قد تركتكم على البيضاء، ليلها كنهارها، لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك.
”یقیناً میں آپ کو جادہ مستقیم پر چھوڑ کر جا رہا ہوں، جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، میرے بعد اس سے روگردانی صرف وہی کرے گا، جس کے مقدر میں ہلاکت لکھی ہوگی۔“
(مسند الإمام أحمد: 126/4، سنن ابن ماجه: 43، السنة لابن أبي عاصم: 48، المستدرك على الصحيحين للحاكم: 96/1، وسندہ حسن)
❀ حافظ منذری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ”حسن“ کہا ہے۔
(الترغيب والترهيب: 46/1)
یاد رکھیے! ہمارا دین مکمل ہے، اس میں کمی و بیشی کی کوئی گنجائش نہیں۔ بدعت دین میں اضافہ ہے اور دین میں اضافہ یہود و نصاریٰ کی تقلید ہے۔ یہود و نصاری نے اپنے دین میں اس قدر اضافے کیے کہ آج ان کا اصل دین ناپید ہو گیا ہے۔
بدعت کی مذمت:
ہر بدعت ظلمت وضلالت، اتباع نفس ہے اور انہدام اسلام ہے اور ہر بدعت سیئہ اور قبیحہ ہے۔ جس کام کی اصل قرآن و حدیث میں نہ ہو، وہ اچھا نہیں ہو سکتا۔
❀ علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م: 790ھ) فرماتے ہیں:
اعلموا أن البدعة لا يقبل معها عبادة من صلاة ولا صيام ولا صدقة ولا غيرها من القربات، ومجالس صاحبها تنزع منه العصمة، ويوكل إلى نفسه، والماشي إليه وموقره معين على هدم الإسلام، فما الظن بصاحبها؟ وهو ملعون على لسان الشريعة، ويزداد من الله بعبادته بعدا، وهى مظنة إلقاء العداوة والبغضاء، ومانعة من الشفاعة المحمدية، ورافعة للسنن التى تقابلها، وعلى مبتدعها إثم من عمل بها، وليس له من توبة، وتلقى عليه الذلة والغضب من الله، ويبعد عن حوض رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويخاف عليه أن يكون معدودا فى الكفار الخارجين عن الملة، وسوء الخاتمة عند الخروج من الدنيا، ويسود وجهه فى الآخرة، ويعذب بنار جهنم، وقد تبرأ منه رسول الله صلى الله عليه وسلم وتبرأ منه المسلمون، ويخاف عليه الفتنة فى الدنيا زيادة إلى عذاب الآخرة.
”جان لیجیے کہ بدعت کی موجودگی میں نماز، روزہ اور صدقہ وغیرہ کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ بدعتی کی مجالس سے عصمت چھین لی جاتی ہے، وہ اپنے نفس کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ بدعتی کے پاس جانے والا اور اس کی تعظیم کرنے والا اسلام کے انہدام میں اس کا معاون بنتا ہے۔ اور اس کی عبادت اسے اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتی ہے۔ بدعت، بغض و عناد کا سبب ہے، نیز شفاعت رسول سے محروم کرتی اور سنتوں کو مٹاتی ہے۔ بدعت جاری کرنے والے پر ان تمام انسانوں کا گناہ ہو گا، جو اس پر عمل کریں گے۔ اس کی معافی نہیں ہوگی۔ اس پر ذلت و رسوائی اور اللہ تعالیٰ کا غضب ہوگا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے دور کر دیا جائے گا، ڈر ہے کہ وہ کفار میں شمار کیا جائے اور وقت آخر برے انجام کا شکار ہو۔ روز آخرت روسیاہ ہوگا اور اسے عذاب جہنم سے دوچار کیا جائے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیزاری کا اعلان کیا ہے، مسلمان اس سے بری ہیں۔ شدید خدشہ ہے کہ عذاب آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی کوئی بڑا فتنہ اسے آن لے گا۔“
(الاعتصام: 1/106-107)
❀ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إن أحسن الحديث كتاب الله، وأحسن الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم، وشر الأمور محدثاتها، وإن الشقي من شقي فى بطن أمه، وإن السعيد من وعظ بغيره، فاتبعوا ولا تبتدعوا.
”بہترین کلام کتاب اللہ ہے، بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے اور بدترین کام بدعت ہیں۔ بدبخت وہی ہے، جو شکم مادر میں بدبخت لکھ دیا گیا تھا اور نیک بخت وہ ہے، جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے۔ لہذا آپ اتباع کریں، بدعات جاری نہ کریں۔“
(الاعتقاد للبیہقی: 306، وسندہ صحیح)
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (م: 751ھ) فرماتے ہیں:
إن السنة بالذات تمحق البدعة، ولا تقوم لها، وإذا طلعت شمسها فى قلب العبد قطعت من قلبه ضباب كل بدعة، وأزالت ظلمة كل ضلالة، إذ لا سلطان للظلمة مع سلطان الشمس، ولا يرى العبد الفرق بين السنة والبدعة، ويعينه على الخروج من ظلمتها إلى نور السنة، إلا المتابعة، والهجرة بقلبه كل وقت إلى الله، بالاستعانة والإخلاص، وصدق اللجأ إلى الله، والهجرة إلى رسوله، بالحرص على الوصول إلى أقواله وأعماله وهديه وسنته، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله، فهجرته إلى الله ورسوله، ومن هاجر إلى غير ذلك، فهو حظه ونصيبه فى الدنيا والآخرة، والله المستعان.
”سنت بدعت کا قلع قمع کرتی ہے۔ اسے اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتی، جب آفتاب سنت کسی دل میں طلوع ہو جاتا ہے، تو اس سے بدعات کی گہر ختم کر دیتا ہے۔ اور اس کے اندھیرے زائل کر دیتا ہے، کیوں کہ سورج کے سامنے ظلمت کی طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ایک عام آدمی سنت اور بدعت میں کوئی فرق نہیں کر پاتا، اسے بدعت کے اندھیروں سے نکلنے کے لئے انوار سنت کی چھاؤں میں رہنا ہو گا، اسے اپنے دل کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی استعانت، اخلاص اور سچی تڑپ میں رکھنا ہوگا اور سب کچھ چھوڑ کر رسول صلى الله عليه وسلم کے اقوال، اعمال، آپ صلى الله عليه وسلم کی سنت و منہج کی تلاش میں رہنا ہو گا۔ جس آدمی کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے ہوئی، اس کی ہجرت مقبول ہوگی اور جس نے کسی غیر کی طرف ہجرت کی تو دنیا و آخرت میں وہی اس کا حصہ ہے۔“
(مدارج السالکین: 374/1)
❀ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ﴾
(بني إسرائيل: 36)
”اس چیز کا پیچھا مت کریں، جس کا آپ کو علم نہیں۔“
❀ مزید فرمایا:
﴿إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَى﴾
(النجم: 23)
”یہ لوگ محض ظن اور خواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس اللہ کی طرف سے ہدایت آچکی ہے۔“
❀ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ﴾
(المائدة: 77)
”نبی! اہل کتاب سے کہہ دیجئے، دین میں غلومت نہ کریں اور ان گمراہوں کی خوہشات پر نہ چلیں، جو خود گمراہ ہیں اور بہت سے انسانوں کو راہ حق سے بھٹکانے کا سبب ہیں، یہ لوگ خیر سے دور ہو چکے ہیں۔“
❀ نیز فرمایا:
﴿وَإِنَّ كَثِيرًا لَيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾
(الأنعام: 119)
”بہت سے لوگ محض جہالت کی بنا پر نفسانی خواہشات کے ذریعے گمراہی پھیلاتے ہیں۔“
ان آیات میں بدعتی کی مذمت کی گئی ہے، کیوں کہ وہ گمراہی کو پھیلاتا ہے، قرآن وسنت کو چھوڑ دیتا ہے اور خواہشات نفسانی کو زندگی کا اصل الاصول سمجھ لیتا ہے۔
❀ فرمانِ باری تعالی ہے:
﴿لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ﴾
(النحل: 25)
”تاکہ وہ روزِ قیامت اپنے اور ان کے گناہوں کا بار اٹھائیں، جنہیں بغیر علم کے گمراہ کیا، خبردار! گناہوں کا بار بہت برا ہوگا۔“
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: 728ھ) فرماتے ہیں:
معلوم أن كل ما لم يسنه ولا استحبه رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أحد من هؤلاء الذين يقتدي بهم المسلمون فى دينهم؛ فإنه يكون من البدع المنكرات، ولا يقول أحد فى مثل هذا: إنه بدعة حسنة، إذا البدعة الحسنة عند من يقسم البدع إلى حسنة وسيئة؛ لا بد أن يستحبها أحد من أهل العلم الذين يقتدى بهم، ويقوم دليل شرعي على استحبابها، وكذلك من يقول: البدعة الشرعية، كلها ممنومة لقوله صلى الله عليه وسلم فى الحديث الصحيح: كل بدعة ضلالة، ويقول: قول عمر فى التراويح: نعمت البدعة هذه، إنما أسماها بدعة باعتبار وضع اللغة، فالبدعة فى الشرع عند هؤلاء ما لم يقم دليل شرعي على استحبابها، ومآل القولين واحد؛ إذ هم متفقون على أن ما لم يستحب أو يجب من الشرع؛ فليس بواجب ولا مستحب، فمن اتخذ عملا من الأعمال عبادة ودينا، وليس ذلك فى الشريعة واجبا ولا مستحبا، فهو ضال باتفاق المسلمين.
”یہ بات واضح ہے کہ جو طریقہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے نہ رائج کیا، نہ پسند کیا اور نہ ہی اسلاف نے پسند کیا، وہ ناپسندیدہ بدعت ہے، مسلمان اسلاف کے عمل کے پیرو ہیں۔ جو لوگ بدعت کی حسنہ وسيئة تقسیم کرتے ہیں، وہ بھی کہتے ہیں کہ حسنہ اس کو کہا جائے گا، جس کو ائمہ ہدی نے مستحب قرار دیا ہو اور اس پر دلیل شرعی قائم ہو، ائمہ ہدی جن کی پیروی کی جاتی ہے۔ بعض لوگ بدعت کو لغوی اور شرعی میں تقسیم کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جس پر بھی بدعت کی شرعی تقسیم لاگو ہوگی ، وہ مذموم ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ”ہر بدعت گمراہی ہے۔“
لغوی بدعت کی مثال وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے لاتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ تراویح کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ تجدید نو اچھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شرعی بدعت اسے کہا جائے گا، جس پر کوئی دلیل قائم نہ ہو۔ ان دونوں باتوں کا معنی ایک ہی ہے، یعنی دو گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ جسے شریعت نے مستحب یا واجب قرار نہ دیا، وہ مستحب اور واجب نہیں ہے۔ اسی طرح دو گروہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسا شخص بالاتفاق کافر ہے، جو اس عمل کو دین یا عبادت سمجھ کر سر انجام دے، جسے شریعت نے مستحب یا واجب قرار نہ دیا ہو۔“
(مجموع الفتاوى: 152/27)
معلوم ہوا کہ دین اللہ اور رسول صلى الله عليه وسلم کے فرامین کا نام ہے۔ اعمال کی قبولیت کے لیے بنیادی شرط قرآن وسنت کی پیروی ہے۔
❀ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
عطس رجل إلى جنب ابن عمر، فقال: الحمد لله والسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابن عمر: وأنا أقول: الحمد لله والسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولكن ليس هكذا أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نقول إذا عطسنا، أمرنا أن نقول: الحمد لله على كل حال.
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں بیٹھے ایک آدمی نے چھینک لی اور کہا:
الحمد لله والسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم.
”تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور رسول اللہ کی یہ تم پر سلام ہو“اس پر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں بھی اللہ کی حمد کرتا ہوں اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم پر سلام بھیجتا ہوں، لیکن ہمیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس موقع پر ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں نہیں سکھایا، بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ہمیں چھینک کے وقت یہ دعا سکھائی: الحمد لله على كل حال۔” ہمہ وقت تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں“ ۔
(سنن الترمذی: 2738، مسند الحارث: 1853، المستدرک للحاکم: 265/4-266، شعب الإيمان للبيهقی: 8884، وسندہ حسن)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح الاسناد“ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ”صحیح“ کہا ہے۔
مستدرک حاکم میں حضرمی بن لاحق چھپ گیا ہے، جو کہ وہم ہے۔ امام طبرانی رحمہ اللہ کی مسند الشامیین (323) میں حسن سند کے ساتھ اس کا ایک شاہد بھی ہے۔
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
جاء ثلاثة رهط إلى بيوت أزواج النبى صلى الله عليه وسلم، يسألون عن عبادة النبى صلى الله عليه وسلم، فلما أخبروا كأنهم تقالوها، فقالوا: وأين نحن من النبى صلى الله عليه وسلم؟ قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، قال أحدهم: أما أنا؛ فإني أصلي الليل أبدا، وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر، وقال آخر: أنا أعتزل النساء، فلا أتزوج أبدا، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم، فقال: أنتم الذين قلتم كذا وكذا؟ أما والله، إني لأخشاكم لله وأتقاكم له، لكني أصوم وأفطر، وأصلي وأرقد، وأتزوج النساء، فمن رغب عن سنتي؛ فليس مني.
”نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس تین شخص آئے اور آپ صلى الله عليه وسلم کی عبادت کا احوال معلوم کیا۔ جب بتایا گیا، تو ان کے ردعمل سے یوں محسوس ہوا کہ وہ اس عبادت کو کم سمجھ رہے ہیں، چنانچہ کہنے لگے: ہم کہاں نبی کریم صلى الله عليه وسلم جیسے ہیں؟ آپ کی تو اگلی پچھلی تمام لغزشیں اللہ نے معاف کر دی ہیں۔ ایک نے کہا: میں ہمیشہ ساری رات جاگ کر نماز ادا معمول بناؤں گا۔ دوسرا بولا: میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا، کبھی چھوڑوں گا نہیں۔ تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے دور رہوں گا اور شادی نہیں کروں گا۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم تشریف لائے، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے فلاں فلاں بات کہی؟ اللہ کی قسم! میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرتا ہوں اور سب سے زیادہ متقی ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں، رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، میں نے شادی بھی کی ہے، لہذا جو شخص میری سنت سے اعراض کرے، وہ میرے طریقے پر نہیں۔“
(صحیح البخاری: 5053، صحیح مسلم: 1401)
یہ حدیث صحیح بخاری (7084) اور صحیح مسلم (1847) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ سنت کی پیروی ضروری ہے، اس میں کمی بیشی غلط ہے، ورنہ نیک کام بدعت بن جاتا ہے۔
❀ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يستقيم قول إلا بعمل، ولا يستقيم قول وعمل إلا بنية، ولا يستقيم قول وعمل ونية، إلا بموافقة السنة.
”عمل کے بغیر زبانی دعویٰ کی کوئی حیثیت نہیں، اور نیت کے بغیر قول و عمل درست نہیں ہو سکتے، اور کوئی قول، عمل اور نیت تب تک معتبر نہیں، جب تک سنت کے موافق نہ ہو۔“
(حلية الأولياء لأبي نعيم: 32/7، وسندہ حسن)
❀ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارے پہلے علمائے کرام کہا کرتے تھے:
الاعتصام بالسنة نجاة.
”سنت کو مضبوطی سے تھامنا باعث نجات ہے۔“
(سنن الدارمي: 97، وسندہ صحيح)
❀ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من رغب عن سنتي فليس مني.
”میری سنت سے منہ موڑنے والا میرے طریقے پر نہیں۔“
(صحيح ابن خزيمة: 197، وسندہ صحيح)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
إن الله حجب التوبة عن صاحب كل بدعة.
”اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی کے لیے توبہ کا دروازہ بند کر دیا ہے۔“
(المعجم الأوسط للطبراني: 4202، طبقات المحدثين بأصبهان لأبي الشيخ الأصبهاني: 609/3، المختارة للحافظ الضياء المقدسي: 2054، وسندہ حسن)
حافظ منذری رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”حسن“ کہا ہے۔
(الترغيب والترهيب: 86/1)
❀ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رجاله رجال الصحيح، غير هارون بن موسى الفروي، وهو ثقة.
”اس کے تمام راوی صحیح بخاری والے ہیں، سوائے ہارون بن موسیٰ فروی کے، اور وہ بھی ثقہ ہیں۔“
(مجمع الزوائد: 189/10)
❀ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
البدعة أحب إلى إبليس من المعصية، المعصية يتاب منها، والبدعة لا يتاب منها.
”بدعت شیطان کو معصیت الہی سے زیادہ محبوب ہے، گناہ سے تو توبہ کر لی جاتی ہے، لیکن بدعت سے توبہ نہیں کی جاتی۔“
(مسند علي بن الجعد: 1809، وسندہ حسن)
❀ شیخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ (م: 728ھ) فرماتے ہیں:
معنى قولهم: إن البدعة لا يتاب منها أن المبتدع الذى يتخذ دينا لم يشرعه الله ولا رسوله، قد زين له سوء عمله فرآه حسنا، فهو لا يتوب ما دام يراه حسنا، لأن أول التوبة العلم بأن فعله سيء ليتوب منه، أو بأنه ترك حسنا مأمورا به أمر إيجاب أو استحباب ليتوب ويفعله، فما دام يرى فعله حسنا وهو سيء فى نفس الأمر، فإنه لا يتوب، ولكن التوبة منه ممكنة وواقعة بأن يهديه الله ويرشده، حتى يتبين له الحق، كما هدى سبحانه وتعالى من هدى من الكفار والمنافقين وطوائف من أهل البدع والضلال.
”اہل علم کہتے ہیں کہ ”بدعت سے توبہ نہیں ہوتی۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ بدعتی شریعت محمدیہ کے علاوہ کسی اور دین کا پیروکار ہوتا ہے، اس کے لیے برا عمل مزین کر دیا جاتا ہے اور وہ اسے اچھا سمجھتا رہتا ہے۔ چنانچہ وہ اس عمل سے توبہ نہیں کر سکتا، کیونکہ توبہ کے لیے اپنے عمل کو برا جاننا ضروری ہے، یا اس بات کا احساس ہونا ضروری ہے کہ واجب یا مستحب عمل ترک کر دیا گیا ہے۔ لہذا جب تک وہ کسی برے کام کو اچھا سمجھتا رہے گا، تب تک توبہ نہیں کرے گا، البتہ یہ ممکن ہے کہ اللہ اس پر حق واضح کر کے رشد و ہدایت سے نواز دے، جیسا کہ اللہ نے کفار، منافقین اور بہت سے بدعتیوں اور گمراہوں کو ہدایت دی ہے۔“
(مجموع الفتاوى: 9/10)
❀ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
خط لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم خطا، ثم قال: هذا سبيل الله، ثم خط خطوطا عن يمينه وعن شماله، ثم قال: هذه سبل متفرقة على كل سبيل منها شيطان يدعو إليه، ثم قرأ: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ
ایک دفعہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا: یہ اللہ کا راستہ ہے، پھر اس کے دائیں بائیں مزید لکیریں کھینچیں اور فرمایا: یہ دوسرے راستے ہیں، ان سب پر شیطان کا ڈیرہ ہے، وہ ان کی طرف بلا رہا ہے۔ اس کے بعد نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ”یہ میرا سیدھا راستہ ہے، اس کی پیروی کرو، دوسرے راستوں کی طرف مت جاؤ، ورنہ اللہ تعالیٰ کے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔“
(مسند الإمام أحمد: 435/1، مسند الطيالسي: 241، سنن الدارمي: 202، السنن الكبرى للنسائي: 11109، وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ”صحیح“ اور امام حاکم رحمہ اللہ (318/2) نے ”صحیح الاسناد“ کہا ہے، نیز حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ”صحیح“ کہا ہے۔
❀ علامہ طیبی(م: 743ھ) ایک حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: قوله: الزائد فى كتاب الله، يجوز أن يراد به من يدخل فى كتاب الله ما ليس منه، أو أن يأول بما يأبى عنه اللفظ ويخالف المحكم، كما فعلت اليهود بالتوراة من التبديل والتحريف، والزيادة فى كتاب الله كفر، وتأويله بما يخالف الكتاب والسنة بدعة.
”کتاب اللہ میں زیادتی سے مراد ان چیزوں کا اضافہ ہے جو کتاب اللہ میں نہیں تھیں، یا اس سے مراد یہود و نصاریٰ کی طرح تحریف و تبدیلی پر مبنی ایسی تاویل ہے جو ظاہر نص اور محکم کے مخالف ہو، کتاب اللہ میں زیادتی کفر ہے اور اس کی قرآن وسنت کے مخالف تاویل کرنا بدعت ہے۔“
(شرح المشكاة: 572/2)
❀ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لكل عمل شرة ولكل شرة فترة فمن كانت فترته إلى سنتي فقد اهتدى ومن كانت فترته إلى غير ذلك فقد هلك.
”ہر عمل میں شدت ہوتی ہے، بعد میں سستی آ جاتی ہے، جو شخص سستی کے ایام میں بھی سنت کا پیروکار رہا وہ ہدایت پر رہا، اور جو سستی کے ایام میں کسی اور طرف نکل گیا، وہ ہلاک ہو گیا۔“
(مسند الإمام أحمد: 158/2، السنة لابن أبي عاصم: 51، وسندہ صحيح)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (11)نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
❀ خالد بن سعد مولیٰ ابی مسعود انصاری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
دخل أبو مسعود على حذيفة، فقال: اعهد إلي، فقال له: ألم يأتك اليقين، فقال: بلى وعزة ربي، قال: فاعلم أن الضلالة حق الضلالة أن تعرف ما كنت تنكر وأن تنكر ما كنت تعرف، وإياك والتلون، فإن دين الله تعالى واحد.
”ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے وصیت طلب کی، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ کے پاس یقینی خبر (وحی) نہیں پہنچی؟ عرض کیا: کیوں نہیں، میرے رب کی عزت کی قسم! فرمایا: جان لیجیے کہ حقیقی گمراہی یہ ہے کہ نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی سمجھا جائے، دو رنگی چھوڑ دیں، یک رنگ ہو جائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا دین یک رنگ ہے۔
(مسند علي بن الجعد: 3083، وسندہ حسن)