سوال
➊ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء یعنی "سبحانک اللھم” کا پڑھنا فرض ہے، واجب ہے، سنت ہے یا مستحب ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں۔
➋ کیا ہر رکعت کے آغاز میں ثناء پڑھنی چاہیے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں اہلِ علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔
بعض علماء کا موقف: وجوب کا قول
کچھ علما تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء کے واجب ہونے کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل حدیث مسیئ الصلوۃ کے یہ الفاظ ہیں:
((فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّهُ لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ، فَیحسن الْوُضُوءَ – يَعْنِي مَوَاضِعَهُ – ثُمَّ يُكَبِّرُ، وَيَحْمَدُ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ، وَيُثْنِي عَلَيْهِ، الحدیث)) (عون المعبود: باب صلاة من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود ج۱ ص۳۲۰)
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی شخص کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ شرعی وضو نہ کرے، پھر تکبیر کہے اور اللہ عزوجل کی حمد و ثناء نہ کرے۔‘‘
شارح ابو داؤد حضرت مولانا شمس الحق محدث دہلوی اور شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی حمد و ثناء واجب ہے۔
چنانچہ عون المعبود میں ہے:
((وفیه وجوب الحمد والثناء بعد تکبیر التحریمة)) (ج۱ ص۳۲۰)
’’یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلے حمد و ثناء واجب ہے۔‘‘
اسی طرح علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صفۃ صلاۃ النبی (ص۷۲) میں بھی اس کو واجب قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک "لا تتم صلاۃ” کا مطلب ہے صحتِ نماز کی نفی۔
اکثر علماء کا موقف: سنت ہونا
اکثر علمائے اسلام کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے بعد کی حمد و ثناء سنت ہے، واجب نہیں۔ وہ "لا” کو نفیِ کمال قرار دیتے ہیں۔
امام ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
((وجملة ذلك أن الاستفتاح (سبحانك اللھم وغیرہ) من سنن الصلوة فی قول اکثر أھل العلم وکان مالك لا یراہ)) (کتاب المغنی مع شرح الکبیر، فصل الاستفتاح ج۱، ص۵۱۵)
خلاصہ یہ کہ:
◄ اکثر علماء کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے بعد حمد و ثناء سنت ہے۔
◄ امام مالک رحمہ اللہ اس کے قائل ہی نہیں ہیں۔
محدثین اور فقہاء کے اقوال
امام شوکانی، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی احادیثِ ثناء کے بارے میں لکھتے ہیں:
((وَالْحَدِيثَانِ وَمَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ مِنْ الْآثَارِ تَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ الِاسْتِفْتَاحِ بِهَذِهِ الْكَلِمَاتِ)) (نیل الاوطار: باب ذکر الاستفتاح بین التکبیر والقراۃ ج۲ ص۱۹۲، ۲۹۶)
’’یہ دونوں حدیثیں اور دیگر آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ثناء سنت اور مشروع عمل ہے۔‘‘
محمد سابق مصری بھی ثناء کو مندوب یعنی مشروع عمل قرار دیتے ہیں:
((يندب للمصلي أن يأتي بأي دعاء من الادعية التي كان يدعو بها النبي صلى الله عليه وسلم ويستفتح بها الصلاة)) (فقه السنة: باب سنن الصلوة ج۱ ص۱۲۱، ۱۲۴)
راجح قول
اس عاجز کے نزدیک بھی اکثر علماء ہی کا قول راجح ہے کہ ثناء پڑھنا سنت ہے۔
لہٰذا:
◄ اگر کوئی ثناء پڑھنا بھول جائے،
◄ یا امام کی اقتدا میں سورۃ فاتحہ کے چھوٹنے کے خوف سے جان بوجھ کر ثناء اور تعوذ چھوڑ دے،
تو اس کی رکعت بالکل درست ہوگی۔
امام ابن قدامہ المقدسی فرماتے ہیں:
((واذا نسی الاستفتاح أو ترکه عمدا حتی شرع فی الإستفادة لم بعد إلیھا لانه سنة فات محلھا وکذلك إن نسی التعذ حتی شرع فی القراءة لم یعد الیہ لذلك)) (المغنی مع شرح الکبیر: ج۱ ص۵۱۸)
مفتی اہل حدیث مولانا ابو البرکات المدراسی کا فتویٰ
اگر امام صاحب جہری قراءت کر رہے ہوں تو "سبحانک اللھم” پڑھنا درست نہیں۔ صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اس کی تصدیق محدث زماں حضرت حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے۔ (فتاویٰ برکاتیہ: ص۵۶، ۵۸)
نتیجہ
◄ تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء پڑھنا اکثر علماء کے نزدیک سنت ہے۔
◄ واجب ہونے کا قول بعض محدثین کا ہے، مگر راجح قول سنت ہونا ہے۔
◄ ہر رکعت کے آغاز میں ثناء نہیں پڑھی جاتی، بلکہ صرف پہلی رکعت کے آغاز میں مشروع ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب