تکبیر تحریمہ سے سلام تک نماز کا مختصر طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب ہدیۃ المسلمین نماز کے اہم مسائل مع مکمل نماز نبویﷺ سے ماخوذ ہے۔

تکبیر تحریمہ سے سلام تک

(1)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو قبلہ (خانہ کعبہ) کی طرف رخ کرتے، رفع الیدین کرتے اور فرماتے: الله اكبر (ابن ماجہ: ح 803 وسندہ صحیح، وصحہ الترمذی: ح 304 وابن حبان، الاحسان: 1862 وابن خزیمہ: 587 اس کا راوی عبدالحمید بن جعفر محدثین کے نزدیک ثقہ و صحیح الحدیث ہے، دیکھیے نور العینین فی مسئلہ رفع الیدین، طبع دوم ص 97-99۔ اس پر جرح مردود ہے۔ محمد بن عمرو بن عطاء ثقہ ہیں (تقریب التہذیب: 6187)۔ محمد بن عمرو بن عطاء کا ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی مجلس میں شامل ہونا ثابت ہے، دیکھیے صحیح البخاری ( 828) لہٰذا یہ روایت متصل ہے۔)
اور فرماتے: ”جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ“۔ البخاری: 757، مسلم: 45/397
(2)آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔ البخاری: 736، مسلم: 390
یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے تھے۔ مسلم: 26، 25/391
لہٰذا دونوں طرح جائز ہے، لیکن زیادہ حدیثوں میں کندھوں تک رفع الیدین کرنے کا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ رفع الیدین کرتے وقت ہاتھوں کے ساتھ کانوں کا پکڑنا یا چھونا کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔ مردوں کا ہمیشہ کانوں تک اور عورتوں کا کندھوں تک رفع الیدین کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
(3)آپ صلی اللہ علیہ وسلم (انگلیاں) پھیلا کر رفع الیدین کرتے تھے۔ ابو داود: ح 753 وسندہ صحیح، وصحہ ابن خزیمہ: ح 459 وابن حبان، الاحسان: ح 774 والحاکم: 1/234 ووافقہ الذہبی۔
(4)آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر، سینے پر رکھتے تھے۔ احمد فی مسندہ 5/226، ح 22313 وسندہ حسن، وعنہ ابن الجوزی فی الحقیق: 1/283، ح 477۔ دوسرا نسخہ: 338/1 ح 434
لوگوں کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) یہ حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر رکھیں۔البخاری: 740 و موطا امام مالک: 1/159، ح 377
ذراع: کہنی کے سرے سے درمیانی انگلی کے سرے تک ہوتا ہے۔ (القاموس الوحید ص 568)۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی، کلائی اور ساعد پر رکھا“۔(ابو داود: ح 727 وسندہ صحیح، النسائی: ح 890، صحہ ابن خزیمہ: ح 480 وابن حبان: ح 1857۔ تنبیہ: مردوں کا ناف سے نیچے اور صرف عورتوں کا سینے پر ہاتھ باندھنا، (یہ تخصیص) کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔)
ساعد: کہنی سے ہتھیلی تک کا حصہ ہے۔ دیکھیے القاموس الوحید (ص 769)۔ اگر ہاتھ پوری ذراع (ہتھیلی، کلائی اور ہتھیلی سے کہنی تک) پر رکھا جائے تو خود بخود ناف سے اوپر اور سینے پر آ جاتا ہے۔
(5)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر( تحریمہ) اور قراءت کے درمیان درج ذیل دعا (سراً یعنی بغیر جہر کے) پڑھتے تھے:
اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ، كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ وَالْبَرَدِ البخاری : 744، مسلم : 147/598
درج بالا دعا کا ترجمہ: اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان ایسی دوری بنا دے جیسی کہ مشرق و مغرب کے درمیان دوری ہے، اے اللہ! مجھے خطاؤں سے اس طرح( پاک )صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑا میل سے (پاک و) صاف ہو جاتا ہے، اے اللہ! میری خطاؤں کو پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھو ڈال (یعنی معاف کر دے)۔
درج ذیل دعا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے:
سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ ابو داود: 775 وسندہ حسن، النسائی: 900-901، ابن ماجہ: ح 804، الترمذی: ح 242، وأعل بما لا یقدح والحاکم: 1/235 ووافقہ الذہبی۔
ترجمہ: اے اللہ! تو پاک ہے، اور تیری تعریف کے ساتھ، تیرا نام برکتوں والا ہے اور تیری شان بلند ہے، تیرے سوا دوسرا کوئی الہ (معبود برحق) نہیں ہے۔
ثابت شدہ دعاؤں میں سے جو دعا بھی پڑھ لی جائے بہتر ہے۔
(6)آپ صلی اللہ علیہ وسلم أعوذ بالله من الشيطان الرجيم پڑھتے ۔عبدالرزاق فی المصنف: 85/2 ح 2589 وسندہ حسن
درج ذیل دعا بھی ثابت ہے:
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ ابو داود: ح 775 وسندہ حسن، نیز دیکھیے فقرہ: 5، حاشیہ 2
(7)آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسم الله الرحمن الرحيم پڑھتے تھے۔(النسائی: 906، وسندہ صحیح، وصحہ ابن خزیمہ: ح 499 وابن حبان، الاحسان: 1794، والحاکم علی شرط الشیخین: 1/232 ووافقہ الذہبی۔ تنبیہ: اس روایت کے راوی سعید بن ابی ہلال نے یہ حدیث اختلاط سے پہلے بیان کی ہے، خالد بن یزید کی سعید بن ابی ہلال سے روایت صحیح بخاری (136) و صحیح مسلم (42/1977) میں موجود ہے۔)
بسم الله الرحمن الرحيم جہراً سے پڑھنا بھی صحیح ہے اور سراً بھی صحیح ہے، کثرت دلائل کی رو سے عام طور پر سراً پڑھنا بہتر ہے۔ (جہراً کے جواز کے لیے دیکھیے النسائی: 906،وسندہ صحیح۔ سراً کے جواز کے لیے دیکھیے صحیح ابن خزیمہ: 495 وسندہ حسن، صحیح ابن حبان، الاحسان: ح 792 وسندہ صحیح۔) اس مسئلے میں سختی کرنا بہتر نہیں ہے۔
(8)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔النسائی: 906، وسندہ صحیح، دیکھیے حاشیہ سابقہ 3
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ .‏ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ . ‏ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ . ‏ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ . ‏ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ . ‏ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ‎ .
❀ سورہ فاتحہ کا ترجمہ: سب تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، جو رحمن و رحیم ہے، یوم جزا کا مالک ہے۔ (اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا، ان لوگوں کے راستے سے بچانا جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور جو گمراہ ہیں۔
سورہ فاتحہ آہستہ یا تیز ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے اور ہر آیت پر وقف کرتے تھے۔ ابو داود: ح 4001، الترمذی: 2927 وقال: غریب، صحہ الحاکم علی شرط الشیخین (2/233) ووافقہ الذہبی وسندہ ضعیف و لہ شاهد قوی فی مسند احمد: 6/288، ح 27003 وسندہ حسن والحدیث بہ حسن
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: لا صلوٰة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ [صحیح البخاری: 756]
اور فرماتے: كل صلوٰة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب فهي خداج فهي خداج
ہر نماز جس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے، ناقص ہے۔ [ابن ماجہ: 84 وسندہ حسن]
(9)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہتے تھے۔ النسائی: 906، وسندہ صحیح، نیز دیکھیے فقرہ 7 حاشیہ:6، سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، پھر جب آپ نے ولا الضالين (جہراً) کہی ( ابن حبان الاحسان: ح 1802، وسندہ صحیح۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ فجهر بآمين ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین بالجہر کہا۔ ابو داود: 933 وسندہ حسن۔
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت میں آیا ہے: وخفض بها صوته ) تو آمين (جہراً) کہا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہری نماز میں (امام اور مقتدیوں کو) آمین جہراً کہنی چاہیے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (آمین) کے ساتھ اپنی آواز پست رکھی۔احمد: 4/316، ح 19048 ورجالہ ثقات واعلہ البخاری وغیرہ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سری نماز میں آمین سراً کہنی چاہیے۔ سری نمازوں میں آمین سراً کہنے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ والحمد للہ۔
(10)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورت سے پہلے بسم الله الرحمن الرحيم پڑھتے۔مسلم: 53/400۔
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : انزلت على آنفا سوره، فقر بسم الله الرحمن الرحيم إنا أعطيناك الكوثر فصل لربك وانحر إن شانئك هو الأبتر سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے ایک دفعہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ سے پہلے بسم الله الرحمن الرحيم نہ پڑھی تو مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم سخت ناراض ہوئے تھے۔ اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہما سورت سے پہلے بھی بسم الله الرحمن الرحيم پڑھتے تھے۔ رواہ الشافعی (الام: 1/108)مسحہ الحاکم علی شرط مسلم (2/233) ووافقہ الذہبی۔ اس کی سند حسن ہے۔)
(11)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سورہ فاتحہ پڑھو اور جو اللہ چاہے پڑھو“۔ابو داود: ح 859، وسندہ حسن
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورہ پڑھتے تھے۔ البخاری: 762 و مسلم: ح 451
اور آخری دو رکعتوں میں (صرف) سورہ فاتحہ پڑھتے تھے۔البخاری: 776، مسلم: 155/451
آپ صلی اللہ علیہ وسلم قراءت کے بعد رکوع سے پہلے سکتہ کرتے تھے۔(ابو داود: ح 777-778، ابن ماجہ: 845 وھو حدیث صحیح/ حسن بصری مدلس ہیں (طبقات المدلسین تحقیقی: 2/40) لیکن ان کی سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے حدیث صحیح ہوتی ہے اگرچہ تصریح سماع نہ بھی ہو، نیز دیکھیے نیل المقصود فی التعلیق علی سنن ابی داود: 354)
(12 )پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے لیے تکبیر (یعنی الله اكبر ) کہتے۔البخاری: 789، مسلم: 28/392
(13) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے۔البخاری: 738، مسلم: 22/390
آپ (عند الركوع وبعده) رفع الیدین کرتے پھر (اس کے بعد) تکبیر کہتے۔ مسلم: 22/390
اگر پہلے تکبیر اور بعد میں رفع الیدین کر لیا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔ ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہتے تو رفع الیدین کرتے۔ابو داود: 730 وسندہ صحیح، نیز دیکھیے فقرہ: 1 حاشیہ: 1
(14) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنے مضبوطی سے پکڑتے پھر اپنی کمر جھکاتے (اور برابر کرتے)۔ البخاری: 828 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر نہ تو (پیٹھ سے) اونچا ہوتا اور نہ نیچا (بلکہ برابر ہوتا تھا)۔مسلم: 240/498
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھتے تھے، پھر اعتدال (سے رکوع) کرتے، نہ تو سر (بہت) جھکاتے اور نہ اسے (بہت) بلند کرتے ابو داود: 730 وسندہ صحیح یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک آپ کی پیٹھ کی سیدھ میں بالکل برابر ہوتا تھا۔
(15)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے گویا کہ آپ نے انہیں مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے اور دونوں ہاتھ کمان کی ڈوری کی طرح تان کر اپنے پہلوؤں سے دور رکھے۔(ابو داود: 734، وسندہ حسن، وقال الترمذی: (260): حدیث حسن صحیح، صحہ ابن خزیمہ: 689 وابن حبان، الاحسان: 1868۔ تنبیہ: فلیح بن سلیمان صحیحین کا راوی اور حسن الحدیث ہے، جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہے، لہٰذا یہ روایت حسن لذاتہ ہے، فلیح مذکور پر جرح مردود ہے۔ والحمد للہ)
(16)آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں سبحان ربي العظيم کہتے( رہتے) تھے۔مسلم: 772، ولفظہ: ثم ركع فجعل يقول: سبحان ربي العظيم، فكان ركوعه نحوا من قيامه
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم دیتے تھے کہ یہ (دعا) رکوع میں پڑھیں۔(ابو داود: 869 وسندہ صحیح، ابن ماجہ: 887 وصحہ ابن خزیمہ: 601، 670 وابن حبان، الاحسان: 895 والحاکم: (2/225، 477) واختلف قول الذهبي فيه
میمون بن مهران (تابعی) اور زہری (تابعی) فرماتے ہیں کہ رکوع و سجود میں تین تسبیحات سے کم نہیں پڑھنی چاہئیں۔ (ابن ابی شیبہ فی المصنف: 1/250، ح 2571 وسندہ حسن)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رکوع میں یہ دعائیں بھی ثابت ہیں:
سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي البخاری: 817، 794، مسلم: 484
یہ دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے پڑھتے تھے۔
سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ مسلم: 487
سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ،لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ مسلم: 485
اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ أَنْتَ رَبِّي خَشَعَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَدَمِي وَلَحْمِي وَعَظْمِي وَعَصَبِي مسلم: 771
ان دعاؤں میں سے کوئی دعا بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ ان دعاؤں کا ایک ہی رکوع یا سجدے میں جمع کرنا اور اکٹھا پڑھنا کسی صریح دلیل سے ثابت نہیں ہے۔
تاہم حالت تشہد ثم ليختر من الدعاء أعجبه إليه فيدعو (البخاری: 835، واللفظ لہ مسلم: ح 402) کی عام دلیل سے ان دعاؤں کا جمع کرنا بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم
(17)ایک شخص نماز صحیح نہیں پڑھتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز کا طریقہ سکھانے کے لیے فرمایا: ”جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو پورا وضو کر، پھر قبلہ کی طرف رخ کر کے تکبیر (اللہ اکبر) کہہ، پھر قرآن سے جو میسر ہو (یعنی سورہ فاتحہ) پڑھ، پھر اطمینان سے رکوع کر، پھر اٹھ کر (اطمینان سے) برابر کھڑا ہو جا، پھر اطمینان سے سجدہ کر، پھر اطمینان سے اٹھ کر بیٹھ جا، پھر اطمینان سے (دوسرا) سجدہ کر، پھر (دوسرے سجدے سے) اطمینان سے اٹھ کر بیٹھ جا، پھر اپنی ساری نماز (کی ساری رکعتوں) میں اسی طرح کر“۔ البخاری: 6251
(18)جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد کہتے تھے۔(البخاری: ح 735-736 راجح یہی ہے کہ امام، مقتدی اور منفرد سب سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد پڑھیں۔ ) ربنا لك الحمد کہنا بھی صحیح اور ثابت ہے۔البخاری: 789۔ بعض اوقات ربنا ولك الحمد جہراً کہنا بھی جائز ہے۔ عبدالرحمن بن ہرمز الاعرج سے روایت ہے کہ سمعت أبا هريره يرفع صوته باللهم ربنا ولك الحمد یعنی میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اونچی آواز کے ساتھ اللهم ربنا ولك الحمد پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: 1/248، 2556 وسندہ صحیح)
درج ذیل دعائیں بھی ثابت ہیں:
اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ البخاری: 796
اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، مِلْءَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ، وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ مسلم 476
أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ، أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ: وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ مسلم: 206/478
رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ البخاری: 799
(19)رکوع کے بعد قیام میں ہاتھ باندھنے چاہئیں یا نہیں، اس مسئلے میں صراحت سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے، لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے، مگر بہتر یہی ہے کہ قیام میں ہاتھ نہ باندھے جائیں۔ (امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے چاہئیں یا چھوڑ دینے چاہئیں تو انہوں نے فرمایا: أرجو أن لا يضيق ذلك إن شاء الله مجهے اميد هے كه ان شاء الله اس میں کوئی تنگی نہیں ہے۔ (مسائل احمد: روایتہ صالح بن احمد بن حنبل: ح 615))
(20)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر (الله اكبر) کہہ کر (یا کہتے ہوئے) سجدے کے لیے جھکتے۔ البخاری: 803، مسلم: 28/392
(21)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”إذا سجد أحدكم فلا يبرك كما يبرك البعير وليضع يديه قبل ركبتيه جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے (بلکہ) اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے (زمین پر) رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا۔(ابو داود: 840 وسند صحیح علی شرط مسلم، النسائی: 1092، وسندہ حسن/ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے گھٹنوں سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ (زمین پر) رکھتے تھے (البخاری قبل حدیث: 803) اور فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی ہی کرتے تھے (صحیح ابن خزیمہ: 627 وسندہ حسن، ومسحہ الحاکم علی شرط مسلم: 1/226 ووافقہ الذہبی) جس روایت میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے وقت پہلے گھٹنے اور پھر ہاتھ رکھتے تھے (ابو داود: ح 838 وغیرہ) شریک بن عبداللہ القاضی کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اس کے تمام شواہد بھی ضعیف ہیں۔ ابو قلابہ (تابعی) سجدہ کرتے وقت پہلے گھٹنے لگاتے تھے اور حسن بصری (تابعی) پہلے ہاتھ لگاتے تھے (ابن ابی شیبہ: 1/263، ح 2708 وسندہ صحیح)۔ محمد بن سیرین (تابعی) بھی پہلے گھٹنے لگاتے تھے (ابن ابی شیبہ: 1/263، ح 2709 وسندہ صحیح)۔ دلائل کی رو سے راجح اور بہتر یہی ہے کہ پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے لگائے جائیں۔)
(22)آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ناک اور پیشانی زمین پر (خوب) جما کر رکھتے، اپنے بازوؤں کو اپنے پہلو (بغلوں) سے دور کرتے اور دونوں ہتھیلیاں کندھوں کے برابر (زمین) پر رکھتے۔ابو داود: ح 734، وسندہ حسن، نیز دیکھیے فقرہ: 15، حاشیہ 12
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سجدہ کیا تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے کانوں کے برابر رکھا“۔ابو داود: 726 وسندہ صحیح، النسائی: ح 890، صححہ ابن خزیمہ: 480 وابن حبان، الاحسان: 1857، نیز دیکھیے فقرہ: 4، حاشیہ: 7
(23)سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بازوؤں کو اپنی بغلوں سے ہٹا کر رکھتے تھے۔ ابو داود: 730 وسندہ صحیح، دیکھیے فقرہ: 14، حاشیہ: 11
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں اپنے ہاتھ (زمین پر) رکھتے، نہ تو انہیں بچھاتے اور نہ (بہت) سمیٹتے، اپنے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھتے،البخاری: 828 آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آ جاتی تھی۔البخاری: 390، مسلم: 495
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ”سجدے میں اعتدال کرو، کتے کی طرح بازو نہ بچھاؤ“۔(البخاری: 822، مسلم: 493 اس حکم میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔ لہٰذا عورتوں کو بھی چاہیے کہ سجدے میں اپنے بازو نہ پھیلائیں۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پیشانی، ناک، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں قدموں کے پنجے“۔البخاری: 812، مسلم: 490
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جب بندہ سجدہ کرتا ہے تو سات اطراف (اعضا) اس کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں، چہرہ، ہتھیلیاں، دو گھٹنے اور دو پاؤں“۔مسلم: 491 معلوم ہوا کہ سجدے میں ناک، پیشانی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کا زمین پر لگانا ضروری (فرض) ہے۔ ایک روایت میں ہے: لا صلوٰة لمن لم يضع أنفه على الأرض جو شخص (نماز میں) اپنی ناک زمین پر نہ رکھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔الدارقطنی فی سننہ: 1/348، 1303 مرفوعاً وسندہ حسن
(24)آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اگر بکری کا بچہ آپ کے بازوؤں کے درمیان سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا تھا۔(مسلم: 496، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سینے اور پیٹ کو زمین سے بلند رکھتے تھے۔ عورتوں کے لیے بھی یہی حکم ہے: ”صلوا كما رأيتموني أصلي نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔)
(25)سجدے میں بندہ اپنے رب کے انتہائی قریب ہوتا ہے، لہٰذا سجدے میں خوب دعا کرنی چاہیے۔مسلم: 482 سجدے میں درج ذیل دعائیں پڑھنا ثابت ہے:
سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰى مسلم: 772
سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي البخاری: 817، 794، مسلم: 484
سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ مسلم: 487
سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ مسلم: 485
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي كُلَّهُ، دِقَّهُ، وَجِلَّهُ، وَأَوَّلَهُ، وَآخِرَهُ، وَعَلَانِيَتَهُ، وَسِرَّهُ مسلم 483
اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُورَتَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ مسلم 771، جو دعا با سند صحیح ثابت ہو جائے، سجدے میں اس کا پڑھنا افضل ہے۔ رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنا منع ہے، دیکھیے صحیح مسلم: 479-480
(26)آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کو جاتے وقت رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔البخاری: 738
(27)آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کی ایڑھیاں ملا دیتے تھے اور ان کا رخ قبلے کی طرف ہوتا تھا۔ البیہقی: 2/116 وسندہ صحیح، صححہ ابن خزیمہ: 654 وابن حبان، الاحسان: 1930، والحاکم (1/228-229) علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی
سجدے میں آپ اپنے دونوں قدم کھڑے رکھتے تھے۔مسلم: 486، مع شرح النووی
(28)آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر (الله اكبر) کہہ کر سجدے سے اٹھتے۔البخاری: 789، مسلم: 392 آپ صلی اللہ علیہ وسلم الله اكبر کہہ کر سجدے سے سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے۔ابو داود: 730، وسندہ صحیح
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین نہیں کرتے تھے (البخاری: ؤ 738، مسلم: 22/390)۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نماز میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) سنت یہ ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا کر کے بایاں پاؤں بچھا دیا جائے۔البخاری: 827
(29)آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے اٹھ کر (جلسے میں) تھوڑی دیر بیٹھے رہتےالبخاری: 818 حتیٰ کہ بعض کہنے والا کہہ دیتا کہ آپ بھول گئے ہیں۔البخاری: 821، مسلم: 472
(30)آپ جلسے میں یہ دعا پڑھتے تھے: رب اغفر لي رب اغفر لي (ابو داود: 874 و حدیث صحیح، النسائی: ح 1070، 1146، اس روایت میں رجل من بنی عبس سے مراد: صلہ بن زفر ہے، دیکھیے مسند الطیالسی (ح 416)۔ ابو حمزہ مولی الانصار سے مراد: طلحہ بن یزید ہے، دیکھیے تحفۃ الاشراف (3/58، ح 3395) و تقریب التہذیب (تحت رقم: 8063)۔ جلسہ میں تشہد کی طرح اشارہ، جس روایت میں آیا ہے (مسند احمد: 4/317، ح 19063) اس کی سند سفیان (الثوری) کی تدلیس (عنعنہ) کی وجہ سے ضعیف ہے۔ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وأما المدلسون الذين هم ثقات وعدول فإنا لا نحتج بأخبارهم إلا ما بينوا السماع فيما رووا مثل الثوري و الأعمش وأبي اسحاق وأضرابهم من الأئمة المتقين مدلسین جو ثقہ و عادل ہیں ہم ان کی صرف انہی روایات سے حجت پکڑتے ہیں جن میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے مثلاً (سفیان ثوری، اعمش، ابو اسحاق اور ان جیسے دوسرے صاحب تقوی ائمہ) (صحیح ابن حبان، الاحسان مع تحقیق شعیب لا رنا ووط (ج 1 ص 16)۔ سفیان الثوری کو حاکم نیسابوری نے (مدلسین کی )تیسری قسم (طبقہ ثانیہ) میں ذکر کیا ہے (دیکھیے معرفۃ علوم الحدیث ص 105-106)۔)
(31)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر (اللہ اکبر) کہہ کر (دوسرا) سجدہ کرتے۔البخاری: 789، مسلم: 28/392
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے وقت رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔البخاری: 738
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔( مسلم: 21/390 سجدہ کرتے وقت، سجدے سے سر اٹھاتے وقت اور سجدوں کے درمیان رفع الیدین کرنا ثابت نہیں ہے۔)
سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سبحان ربي الأعلي پڑھتے تھے۔ مسلم: 772
دیگر دعاؤں کے لیے دیکھیے فقرہ: 25
(32)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر (اللہ اکبر) کہہ کر (دوسرے) سجدے سے سر اٹھاتے۔البخاری: 789، مسلم: 28/392
سجدے سے اٹھتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔البخاری: 738، مسلم: 22/390
(33)آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب طاق (پہلی یا تیسری) رکعت میں دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے تو بیٹھ جاتے تھے۔البخاری: 823
دوسرے سجدے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اٹھتے تو بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھ جاتے حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر آ جاتی۔ (ابو داود: 730 وسندہ صحیح، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے سجدے کے بعد بیٹھنے کا حکم دیتے تھے (صحیح البخاری: ح 6251)۔ نیز دیکھیے فقرہ 17، اس سنت صحیحہ کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔)
(34)ایک رکعت مکمل ہو گئی، اب اگر آپ ایک وتر پڑھ رہے ہیں تو پھر تشہد، درود اور دعائیں (جن کا ذکر آگے آرہا ہے) پڑھ کر سلام پھیر لیں۔(دیکھیے تشہد فقرہ: 41، درود فقرہ: 42، دعائیں فقرہ: 49-50، سلام فقرہ: 50-51 ایک رکعت پر اگر سلام پھیرا جائے تو تورک کرنا بھی جائز ہے اور نہ کرنا بھی، مگر بہتر یہی ہے کہ تورک کیا جائے۔ ایک روایت میں ہے کہ حتي إذا كانت السجدة التى فيها التسليم أخر رجله اليسري وقعد متوركا على شقه الأيسر ابو داود: 730 وسندہ صحیح۔)
(35)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر (دونوں ہاتھ رکھ کر) اعتماد کرتے ہوئے( دوسری رکعت کے لیے) اٹھ کھڑے ہوتے۔البخاری: ح 824 و ابن خزیمہ فی صحیحہ: ح 687، ازرق بن قیس (ثقہ التقریب: 302) سے روایت ہے کہ میں نے (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو) دیکھا، آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھوں پر اعتماد کر کے کھڑے ہوئے (مصنف ابن ابی شیبہ: 3996 وسند صحیح)
(36)آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تو الحمد للٰه رب العالمين سے قراءت شروع کرتے وقت سکتہ نہ کرتے تھے۔مسلم: ح 599، خزیمہ: ح 1603 ابن حبان: ح 1933
سورہ فاتحہ سے پہلے بسم الله الرحمن الرحيم پڑھنے کا ذکر گزر چکا ہے۔دیکھیے فقرہ: 7 و حاشیہ 4
﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ﴾ سورہ النحل: 98 کی رو سے بسم الله سے پہلے أعوذ بالله من الشيطان الرجيم پڑھنا بھی جائز ہے بلکہ بہتر ہے۔
رکعت اولیٰ میں جو تفاصیل گزر چکی ہیںفقرہ:1 اسے لے کر فقرہ: 33 تک حدیث: ”پھر ساری نماز میں اسی طرح کر“البخاری: 6251، نیز دیکھیے فقرہ: 17 کی رو سے دوسری رکعت بھی اسی طرح پڑھنی چاہیے۔
(37)دوسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد (تشہد کے لیے) بیٹھ جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے تھے۔مسلم: 112/579 آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ترپن کا عدد (یعنی حلقہ) بناتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے مسلم: 115/580 یعنی اشارہ کرتے ہوئے دعا کرتے تھے۔ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھتے اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی سے ملاتے (یعنی حلقہ بناتے) اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔مسلم 113/579 لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے۔
(38)آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دائیں کہنی کو دائیں ران پر رکھتے تھے۔ابو داود: 726، 957 وسندہ صحیح، النسائی: 1266، ابن خزیمہ: 713، ابن حبان، الاحسان: 1857
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دونوں ذراعیں(ذراع کے مفہوم کے لیے دیکھیے فقرہ: 4) اپنی رانوں پر رکھتے تھے۔النسائی: 1265 وھو حدیث صحیح بالشواهد
(39)آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد کے لیے بیٹھتے تو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔مسلم: 115/580
آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی اٹھا دیتے، اس کے ساتھ تشہد میں دعا کرتے تھے۔ ابن ماجہ:912، وسندہ صحیح ، ابن حبان، الاحسان: 1942
آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت والی انگلی کو تھوڑا سا جھکا دیتے تھے۔ابو داود: 991 وسندہ حسن، ابن خزیمہ: ح 712، ابن حبان، الاحسان: 1943
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہادت والی انگلی کو حرکت دیتے (ہلاتے) رہتے تھے۔( النسائی: 1269 وسندہ صحیح، ابن خزیمہ: ح 714، ابن الجارود فی المنتقی: ح 208، ابن حبان، الاحسان: ح 1857
تنبیہ: بعض لوگوں نے غلط فہمی کی وجہ سے یہ اعتراض کیا ہے کہ يحركها کا لفظ شاذ ہے کیونکہ اسے زائدہ بن قدامہ کے علاوہ دوسرے کسی نے بھی بیان نہیں کیا، اس کا جواب یہ ہے کہ زائدہ بن قدامہ: ثقه ثبت، صاحب سنه ہیں (التقریب: 1982) لہٰذا ان کی زیادت مقبول ہے اور دوسرے راویوں کا یہ لفظ ذکر نہ کرنا شذوذ کی دلیل نہیں کیونکہ عدم ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ ولا يحركها والی روایت (ابو داود: ح 989، النسائی: ح 1271) محمد بن عجلان کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے، دیکھیے أنوار الصحیفة فی الأحادیث الضعیفة ص 28۔ محمد بن عجلان مدلس ہیں (طبقات المدلسین: 3/98 تحقیقی))
(40)آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تشہد کی انگلی کو قبلہ رخ کرتے اور اس کی طرف دیکھتے رہتے تھے۔(النسائی: 1161، وسندہ صحیح، ابن خزیمہ: ح 719، ابن حبان، الاحسان: ح 1944
تنبیہ: یہ روایت اس متن کے بغیر صحیح مسلم: 116/580 میں مختصر موجود ہے۔)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد والے (یعنی پہلے) تشہد، اور چار رکعتوں کے بعد والے (یعنی آخری تشہد) دونوں تشہدوں میں یہ اشارہ کرتے تھے۔ (النسائی: 1162، وسندہ حسن
تنبیہ: لا إله پر انگلی اٹھانا اور «إلا اللہ» پر رکھ دینا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، بلکہ احادیث کے عموم سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ شروع سے آخر تک، حلقہ بنا کر شہادت والی انگلی اٹھائی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو (تشہد میں) دو انگلیوں سے اشارہ کر رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”أحد أحد“ صرف ایک انگلی سے اشارہ کرو۔ (الترمذی: ح 3557))
(41)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشہد میں درج ذیل دعا (التحیات) سکھاتے تھے:
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ( عليك سے یہاں مراد حاضر نہیں بلکہ غائب ہے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو ہم: السلام يعني على النبي پڑھتے تھے“ (البخاری: ح 6265)۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عليك کی جگہ علي پڑھنا اس کی زبردست دلیل ہے کہ عليك سے مراد یہاں قطعاً حاضر نہیں ہے۔ یاد رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی روایات کو بعد والے لوگوں کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔) أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمْ ذَلِكَ أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَوْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ البخاری: ح 1202 (تنبیہ: اس مشہور التحيات کے علاوہ دوسرے جتنے صیغے صحیح حسن احادیث سے یہاں پڑھنے ثابت ہیں (اس کے بدلے) ان کا پڑھنا جائز اور موجب ثواب ہے۔)
(42)پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم درود پڑھنے کا حکم دیتے تھے:
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰي مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓي اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰٓي اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰٓي اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰي مُحَمَّدٍ وَّعَلٰٓي اٰلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰٓي اِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰٓي اٰلِ اِبْرَاهِيْمَ اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ البخاری: ح 3370، بیہقی فی السنن الکبری: 2/148، ح 2856
(43)دو رکعتیں مکمل ہو گئیں، اب اگر دو رکعتوں والی نماز (مثلاً صلوٰۃ الفجر) ہے تو دعا پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دیں اور اگر تین یا چار رکعتوں والی نماز ہے تو تکبیر کہہ کر کھڑے ہو جائیں۔پہلے تشہد میں درود پڑھنا انتہائی بہتر اور موجب ثواب ہے، عام دلائل میں قولوا کے ساتھ اس کا حکم آیا ہے کہ درود پڑھو، اس حکم میں آخری تشہد یا پہلے تشہد کی کوئی تخصیص نہیں ہے، تاہم اگر کوئی شخص پہلے تشہد میں درود نہ پڑھے اور صرف التحیات پڑھ کر ہی کھڑا ہو جائے تو یہ بھی جائز ہے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے التحیات (عبدہ ورسولہ تک) سکھا کر فرمایا: ”پھر اگر نماز کے درمیان (یعنی اول تشہد) میں ہو تو (اٹھ) کھڑا ہو جائے“ (مسند احمد: 1/459، ح 4382 وسندہ حسن)۔
(44)پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تو (اٹھتے وقت) تکبیر (اللہ اکبر) کہتے البخاری: ح 789، 803، مسلم: 28/392 اور رفع الیدین کرتے۔البخاری: ح 739 (تنبیہ: یہ روایت بالکل صحیح ہے، اس پر بعض محدثین کی جرح مردود ہے، سنن ابی داود (ح 730 وسندہ صحیح) وغیرہ میں اس کے صحیح شواہد بھی ہیں۔ والحمد للہ)
(45)تیسری رکعت بھی دوسری رکعت کی طرح پڑھنی چاہیے، الا یہ کہ تیسری اور چوتھی (آخری دونوں) رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے، اس کے ساتھ کوئی سورہ وغیرہ نہیں ملانی چاہیے جیسا کہ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے ثابت ہے۔دیکھیے فقرہ: 11، حاشیہ: 3
(46)اگر تین رکعتوں والی نماز (مثلاً صلوٰۃ المغرب) ہے تو تیسری رکعت مکمل کرنے کے بعد دوسری رکعت کی طرح تشہد اور درود پڑھ لیا جائے اور دعا (جس کا ذکر آگے آرہا ہے) پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دیا جائے۔دیکھیے البخاری: 1092
تیسری رکعت میں اگر سلام پھیرا جائے تو تورک کرنا چاہیے، دیکھیے فقرہ: 48
(47)اگر چار رکعتوں والی نماز ہے تو پھر دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ کر کھڑا ہو جائے۔دیکھیے فقرہ:33
(48)چوتھی رکعت بھی تیسری رکعت کی طرح پڑھے۔(یعنی صرف سورہ فاتحہ ہی پڑھے، تاہم تیسری اور چوتھی رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے علاوہ سورہ وغیرہ پڑھنا جائز ہے جیسا کہ صحیح مسلم (ح 452) کی حدیث سے ثابت ہے۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی رکعت میں تورک کرتے تھے (صحیح البخاری: ح 828)۔ تورک کا مطلب یہ ہے کہ ”نمازی کا دائیں کولہے کو دائیں پیر پر اس طرح رکھنا کہ وہ کھڑا ہو، اور انگلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو، نیز بائیں کولہے کو زمین پر ٹیکنا اور بائیں پیر کو پھیلا کر دائیں طرف نکالنا۔“ (القاموس الوحید ص 1841) نیز دیکھیے فقرہ: 49
چوتھی رکعت مکمل کرنے کے بعد التحیات اور درود پڑھے۔دیکھیے فقرہ: 41، وفقرہ: 42
اگر دوسری رکعت پر سلام پھیرا جا رہا ہے تو تورک کرنا بہتر ہے اور نہ کرنا بھی جائز ہے، دیکھیے فقرہ: 34، حاشیہ: 12
پھر اس کے بعد جو دعا پسند ہو (عربی زبان میں) پڑھ لےالبخاری: ح 835، مسلم: ح 402، اس پر امیر المؤمنین امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے: باب ما يتخير من الدعاء بعد التشهد و ليس بواجب (یعنی: تشہد کے بعد جو دعا اختیار کر لی جائے اس کا باب اور یہ (دعا) واجب نہیں ہے۔) چند دعائیں درج ذیل ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے یا حکم دیتے تھے۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، ومِنْ عَذَابِ النَّارِ، ومِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ ومِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ البخاری: 1377، مسلم: 131/588، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کا حکم دیتے تھے (مسلم: 130/588) (لہٰذا یہ دعا تشہد میں ساری دعاؤں سے بہتر ہے۔ طاوس (تابعی) سے مروی ہے کہ وہ اس دعا کے بغیر نماز کے اعادے کا حکم دیتے تھے ۔ )(مسلم: 134/590)
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا و فِتْنَةِ الْمَمَاتِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ البخاری: ح 832، مسلم: ح 589
اللَّهُمَّ إِنِّي اعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ مسلم: ح 590
اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّك أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ البخاری: ح 834، مسلم: ح 2705
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ مسلم : 771
(50)ان کے علاوہ جو دعائیں ثابت ہیں ان کا پڑھنا جائز اور موجب ثواب ہے، مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بکثرت پڑھتے تھے:
اللهم رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ البخاری: ح 4522
دعا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں طرف سلام پھیر دیتے تھے۔مسلم: 581-582
السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله ابو داود: ح 996، وھو حدیث صحیح، الترمذی: ح 295 وقال: حسن صحیح، النسائی: ح 1320، ابن ماجہ: ح 914، ابن حبان، الاحسان: ح 1987 تنبیہ: ابو اسحاق الہمدانی نے حدثني علقمة بن قيس والأسود بن يزيد وأبو الأحوص کہہ کر سماع کی تصریح کر دی ہے، دیکھیے السنن الکبری للبیہقی: 2/177، ح 2974، لہٰذا اس روایت پر جرح صحیح نہیں ہے۔ ابو اسحاق سے یہ روایت سفیان الثوری وغیرہ نے بیان کی ہے۔ والحمد للہ۔ اگر دائیں طرف السلام عليكم ورحمة الله وبركاته اور بائیں طرف السلام عليكم ورحمة الله کہیں تو بھی جائز ہے، دیکھیے سنن ابی داود (ح 997 وسندہ صحیح)
(51)اگر امام نماز پڑھا رہا ہو تو جب وہ سلام پھیر دے تو سلام پھیرنا چاہیے۔ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”صلينا مع النبى صلى الله عليه وسلم فسلمنا حين سلم“ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیرا۔ البخاری: ح 838 عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پسند کرتے تھے کہ جب امام سلام پھیر لے تو (پھر) مقتدی سلام پھیریں (البخاری قبل حدیث: ح 838 تعلیقاً) لہٰذا بہتر یہی ہے کہ امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد ہی مقتدی سلام پھیرے، اگر امام کے ساتھ ساتھ، پیچھے پیچھے بھی سلام پھیر لیا جائے تو جائز ہے، دیکھیے فتح الباری (2/323، باب 153، یسلم حین یسلم الإمام)

نماز کے بعد اذکار

(1)عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ كنت أعرف انقضاء صلوٰة النبى صلى الله عليه وسلم بالتكبير میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اختتام تکبیر (اللہ اکبر) سے پہچان لیتا تھا۔ البخاری: ح 842، مسلم: 120/853، ولفظہ: كنا نعرف انقضاء صلوٰة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالتكبير امام ابو داود نے اس حدیث پر باب التكبير بعد الصلوٰة کا باب باندھا ہے (قبل ح 1002) لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ (فرض) نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کو اونچی آواز سے «اللہ اکبر» کہنا چاہیے، یہی حکم منفرد کے لیے بھی ہے۔ رفع الصوت بالذكر میں الذکر سے مراد «التکبیر» ہی ہے جیسا کہ حدیث البخاری وغیرہ سے ثابت ہے، اصول میں یہ مسلم ہے کہ: الحديث يفسر بعضه بعضا یعنی ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر (بیان) کرتی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ ما كنا نعرف انقضاء صلوٰة رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا بالتكبير ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ختم ہونا معلوم نہیں ہوتا تھا مگر تکبیر (اللہ اکبر سننے) کے ساتھ۔مسلم: 121/583
(2)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز (پوری کر کے) ختم کرنے کے بعد تین دفعہ استغفار کرتے (استغفر اللہ، استغفر اللہ، استغفر اللہ) اور فرماتے:
اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالإِكْرَامِ مسلم: ح 591
(3)آپ صلی اللہ علیہ وسلم درج ذیل دعائیں بھی پڑھتے تھے:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ البخاری: ح 844، مسلم: ح 593
اللهم اعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك ابو داود: ح 1522 وسندہ صحیح، النسائی: ح 1304 وصحہ ابن خزیمہ: ح 751 وابن حبان، الاحسان: ح 2017، 2018 والحاکم علی شرط الشیخین (1/273) ووافقہ الذہبی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہر نماز کے بعد تینتیس (33) دفعہ تسبیح (سبحان اللہ)، تینتیس (33) دفعہ حمد (الحمد للہ) اور تینتیس (33) دفعہ تکبیر (اللہ اکبر) پڑھے اور آخری دفعہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ پڑھے تو اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اگرچہ وہ (گناہ) سمندر کے جھاگ کے برابر (یعنی بہت زیادہ) ہوں“۔ مسلم: ح 597 تینتیس (33) دفعہ سبحان اللہ، تینتیس (33) دفعہ الحمد للہ، اور چونتیس (34) دفعہ اللہ اکبر کہنا بھی صحیح ہے۔دیکھیے مسلم: ح 596
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ ہر نماز کے بعد معوذات (وہ سورتیں جو قل أعوذ سے شروع ہوتی ہیں) پڑھیں۔ابو داود: ح 1523 وسندہ حسن، النسائی: ح 1337 ولہ طرق آخر عند الترمذی: ح 2903 وقال: «غریب» وطریق ابی داود: صحہ ابن خزیمہ: ح 755 وابن حبان، الاحسان: ح 2001 والحاکم (1/253) علی شرط مسلم ووافقہ الذہبی
ان کے علاوہ جو دعائیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں ان کا پڑھنا افضل ہے، چونکہ نماز اب مکمل ہو چکی ہے لہٰذا اپنی زبان میں دعا مانگی جا سکتی ہے۔ نماز کے بعد اجتماعی دعا کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ دعا کرتے تھے اور اخر میں اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے (البخاری فی الادب المفرد: 609, وسندہ حسن) اس روایت عصر کے راویوں محمد بن فلیح اور فلیح بن سلیمان دونوں پر جرح مردود ہے ان کی حدیث حسن کے درجے سے نہیں گرتی ،نیز دیکھیے فقرہ 15،حاشیہ 12
(4)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من قرأ آية الكرسي فى دبر كل صلوٰة مكتوبة لم يمنعه من دخول الجنة إلا أن يموت النسائی فی الکبری: 9928 عمل الیوم واللیلۃ: 100 وسندہ حسن و کتاب صلاۃ لابن حبان (اتحاف المہرۃ الابن حجر:259/6 ح 6480)
جس نے ہر فرض نماز کے آخر میں (سلام کے بعد) آیت الکرسی پڑھی، وہ شخص مرتے ہی جنت میں داخل ہو جائے گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے