زیرِ نظر مضمون میں ایک نہایت سنگین اخلاقی اور ایمانی بیماری تکبر کا قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیلی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ تکبر کیا ہے، اس کی حقیقت اور اقسام کیا ہیں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی قباحت کس درجے کی ہے، اور تاریخِ انسانی میں اس کے تباہ کن نتائج کس طرح ظاہر ہوئے۔ نیز یہ بھی بیان کیا جائے گا کہ تکبر کن لوگوں کا شیوہ رہا ہے اور ایک مومن کو اس سے کس طرح مکمل طور پر بچنا چاہیے۔ مضمون کے آخر میں تواضع، عاجزی اور انکساری کی فضیلت اور ان کا انجام بھی ذکر کیا جائے گا۔
تکبر کا مفہوم اور اللہ تعالیٰ کی کبریائی
لفظ تکبر، عربی لفظ کِبر سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: بڑائی اور عظمت۔ حقیقت یہ ہے کہ مطلق بڑائی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے چند عظیم نام یہ ہیں:
❀ المتکبر: یعنی حقیقی بڑائی والا
❀ الکبیر: یعنی سب سے بڑا
❀ المتعال: یعنی بلند و بالا اور عالی شان
ان اسمائے مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔ ہر طرح کی بڑائی، کبریائی اور عظمت صرف اسی کے لیے مخصوص ہے۔
قرآنی دلیل
اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
﴿وَلَہُ الْکِبْرِیَآءُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾
(الجاثیۃ: 45، آیت 37)
ترجمہ:
“اور آسمانوں اور زمین میں کبریائی (بڑائی) اسی کے لیے ہے، اور وہ زبردست، بہت حکمت والا ہے۔”
تکبر: اللہ تعالیٰ کی چادر میں دست درازی
رسول اکرم ﷺ نے تکبر کی سنگینی کو ایک نہایت بلیغ مثال کے ذریعے واضح فرمایا۔ حدیثِ قدسی میں آتا ہے:
((یَقُولُ اللّٰہُ تَعَالٰی: اَلْکِبْرِیَاءُ رِدَائِیْ، وَالْعَظَمَۃُ إِزَارِیْ، فَمَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِّنْہُمَا قَذَفْتُہُ فِی النَّارِ))
سنن ابی داود: 4090، سنن ابن ماجہ: 4174، وصححہ الألبانی
ترجمہ:
“اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے، جو شخص ان میں سے کسی ایک میں مجھ سے جھگڑا کرے گا (یعنی بڑائی کا دعویٰ کرے گا) میں اسے آگ میں پھینک دوں گا۔”
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ تکبر اللہ تعالیٰ کے خاص وصف میں شریک ہونے کی جسارت ہے، اور یہی وجہ ہے کہ یہ گناہ اللہ کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ اور قابلِ سزا ہے۔
تکبر: بدبختی کی ابتدا
تکبر دراصل بدبختی کی کنجی ہے۔ تاریخِ انسانیت میں سب سے پہلی بدبختی کی بنیاد تکبر پر ہی رکھی گئی، اور اس کی واضح مثال ابلیس ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں اس نے اپنے آپ کو حضرت آدم علیہ السلام سے بہتر سمجھا اور سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔
قرآنی واقعہ: ابلیس کا تکبر
﴿وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِکَۃِ اسْجُدُوا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیْسَ أَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ﴾
(البقرۃ: 2، آیت 34)
ترجمہ:
“اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا، تکبر کیا اور کافروں میں شامل ہو گیا۔”
جب اللہ تعالیٰ نے اس کے انکار کی وجہ پوچھی تو اس نے اپنی بڑائی جتاتے ہوئے کہا:
﴿أَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہُ مِنْ طِیْنٍ﴾
(الاعراف: 7، آیت 12)
ترجمہ:
“میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔”
اس تکبر کا انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ کے لیے اپنی رحمت سے محروم کر دیا:
﴿فَاخْرُجْ إِنَّکَ مِنَ الصَّاغِرِیْنَ﴾
(الاعراف: 7، آیت 13)
ترجمہ:
“پس تو یہاں سے نکل جا، تو ذلیل لوگوں میں سے ہے۔”
حاصلِ سبق (ابتدائی)
ان آیات و احادیث سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ:
◈ تکبر اللہ تعالیٰ کی کبریائی میں مداخلت ہے
◈ تکبر ایمان کے لیے زہرِ قاتل ہے
◈ تکبر انسان کو اللہ کی رحمت سے محروم کر دیتا ہے
یہی وجہ ہے کہ تکبر ہمیشہ ہلاکت، ذلت اور عذاب کا پیش خیمہ بنتا رہا ہے۔
سابقہ اقوام میں تکبر اور ان کا انجام
قرآنِ مجید کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ سابقہ امتوں میں جن لوگوں نے تکبر اختیار کیا، وہی سب سے پہلے اپنے زمانے کے انبیاء علیہم السلام کی دعوت کے منکر بنے۔ یہ متکبر لوگ نہ صرف خود حق قبول کرنے سے رکے رہے بلکہ کمزور اور سادہ دل لوگوں کو بھی ایمان لانے سے روکتے تھے۔
قومِ نوح علیہ السلام اور تکبر
جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور فرمایا:
﴿اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ﴾
(ہود: 11، آیت 26)
ترجمہ:
“یہ کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، مجھے تم پر ایک دردناک دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔”
تو قوم کے سرداروں، وڈیروں اور متکبر طبقے نے حقارت سے جواب دیا:
﴿مَا نَرٰکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا…﴾
(ہود: 11، آیت 27)
ترجمہ:
“ہم تو تمہیں اپنے جیسا ایک انسان ہی سمجھتے ہیں، اور تمہارے پیروکار بھی ہمیں گھٹیا لوگ نظر آتے ہیں، اور ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔”
یہی تکبر بالآخر ان کی ہلاکت کا سبب بنا اور پوری قوم طوفان میں غرق کر دی گئی۔
قومِ عاد کا تکبر
قومِ عاد اپنی جسمانی قوت اور طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً﴾
(حم السجدۃ: 41، آیت 15)
ترجمہ:
“قومِ عاد نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا: ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟”
اللہ تعالیٰ نے ان کے غرور کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
﴿اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَہُمْ ہُوَ اَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّۃً﴾
(حم السجدۃ: 41، آیت 15)
ترجمہ:
“کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے کہیں زیادہ طاقتور ہے؟”
نتیجتاً ایک شدید آندھی کے ذریعے اس سرکش قوم کو نیست و نابود کر دیا گیا۔
قومِ ثمود اور متکبر سردار
حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ثمود میں بھی تکبر کا یہی رویہ غالب تھا۔ قرآن کہتا ہے:
﴿قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ…﴾
(الاعراف: 7، آیت 75)
ترجمہ:
“قوم کے متکبر سرداروں نے کمزور ایمان والوں سے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ صالح واقعی اپنے رب کے رسول ہیں؟”
جب کمزور لوگ ایمان پر ثابت قدم رہے تو متکبر سرداروں نے صاف انکار کر دیا:
﴿اِنَّا بِالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ﴾
(الاعراف: 7، آیت 76)
ترجمہ:
“جس چیز پر تم ایمان لائے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔”
انکار اور تکبر کا انجام یہ ہوا کہ ایک ہولناک چیخ کے ذریعے پوری قوم ہلاک کر دی گئی۔
قومِ مدین اور تکبر
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے بھی تکبر کا مظاہرہ کیا:
﴿لَنُخْرِجَنَّکَ یٰشُعَیْبُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَکَ…﴾
(الاعراف: 7، آیت 88)
ترجمہ:
“اے شعیب! ہم تمہیں اور تم پر ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے، یا تمہیں ہمارے دین میں لوٹنا ہوگا۔”
یہ دھمکیاں اور غرور بالآخر ان کے لیے تباہی کا باعث بنے۔
بنو اسرائیل کا تکبر
اللہ تعالیٰ بنو اسرائیل کے بارے میں فرماتا ہے:
﴿اَفَکُلَّمَا جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لَا تَھْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ﴾
(البقرۃ: 2، آیت 87)
ترجمہ:
“جب بھی تمہارے پاس کوئی رسول تمہاری خواہش کے خلاف بات لے کر آیا تو تم نے تکبر کیا، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر دیا۔”
قارون، فرعون اور ہامان
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَقَارُوْنَ وَفِرْعَوْنَ وَھَامٰنَ… فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ﴾
(العنکبوت: 29، آیت 39)
ترجمہ:
“قارون، فرعون اور ہامان نے زمین میں تکبر کیا، حالانکہ وہ ہم سے بچ نکلنے والے نہ تھے۔”
قارون کو اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا، اور فرعون کو اس کے لشکر سمیت سمندر میں غرق کر دیا گیا۔
کفارِ مکہ کا تکبر اور انجام
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مکہ کے سامنے دعوتِ توحید پیش کی تو انہوں نے بھی سابقہ اقوام کی طرح تکبر کا راستہ اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس رویے کو قرآنِ مجید میں یوں بیان فرمایا:
﴿اِنَّهُمْ كَانُوْا اِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ يَسْتَكْبِرُوْنَ وَيَقُوْلُوْنَ اَئِنَّا لَتَارِكُوْٓا اٰلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ﴾
(الصافات: 37، آیات 35–36)
ترجمہ:
“جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو یہ تکبر کرتے تھے، اور کہتے تھے: کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں؟”
اللہ تعالیٰ نے ان کے اس تکبر اور انکار کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
﴿بَلْ جَآءَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِيْنَ اِنَّكُمْ لَذَآئِقُو الْعَذَابِ الْاَلِيْمِ﴾
(الصافات: 37، آیات 37–38)
ترجمہ:
“بلکہ وہ حق لے کر آئے ہیں اور رسولوں کی تصدیق کرنے والے ہیں، اور تم ہی دردناک عذاب چکھنے والے ہو۔”
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيْرًا﴾
(الفرقان: 25، آیت 21)
ترجمہ:
“اور جو لوگ ہم سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے، وہ کہتے ہیں: ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے یا ہم اپنے رب کو کیوں نہ دیکھ لیں؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے دلوں میں بہت بڑے بن بیٹھے ہیں اور بڑی سرکشی اختیار کر چکے ہیں۔”
مدینہ میں منافقین کا تکبر
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہاں آپ کو منافقین کا سامنا کرنا پڑا، جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے تھے مگر دلوں میں کفر چھپائے ہوئے تھے۔ ان کا تکبر اس قدر تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی استغفار کی درخواست قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے:
﴿وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ لَوَّوْا رُءُوْسَهُمْ وَرَاَيْتَهُمْ يَصُدُّوْنَ وَهُمْ مُّسْتَكْبِرُوْنَ﴾
(المنافقون: 63، آیت 5)
ترجمہ:
“اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے لیے مغفرت طلب کریں تو وہ اپنے سر موڑ لیتے ہیں، اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ تکبر کرتے ہوئے رک جاتے ہیں۔”
تکبر کن لوگوں کا شیوہ ہے؟
اب تک کی گفتگو سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ:
◈ تکبر سب سے پہلے ابلیس نے کیا
◈ تکبر سابقہ اقوام کے کافروں کا شیوہ رہا
◈ تکبر کفارِ مکہ کا جرم تھا
◈ تکبر منافقین کی نمایاں علامت تھا
لہٰذا یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ تکبر کافروں، مشرکوں اور منافقوں کا وصف ہے، جبکہ مومن کی پہچان عاجزی اور انکساری ہے۔
مخلوقِ خدا اور فرشتوں کی عاجزی
اللہ تعالیٰ نے جہاں متکبرین کا ذکر کیا، وہیں ان بندوں کی بھی تعریف فرمائی جو تکبر سے پاک ہیں۔ فرمایا:
﴿وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّةٍ وَّالْمَلٰٓئِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ﴾
(النحل: 16، آیات 49–50)
ترجمہ:
“آسمانوں اور زمین کی تمام جاندار مخلوق اور فرشتے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے، وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اسی کا حکم بجا لاتے ہیں۔”
اسی طرح فرشتوں کے بارے میں فرمایا:
﴿وَمَنْ عِنْدَهٗ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَلَا يَسْتَحْسِرُوْنَ يُسَبِّحُوْنَ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُوْنَ﴾
(الانبیاء: 21، آیات 19–20)
ترجمہ:
“جو اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ اکڑتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں، دن رات اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔”
اہلِ ایمان کی صفات
اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کی علامت یہ بیان کرتا ہے:
﴿اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ﴾
(السجدۃ: 32، آیت 15)
ترجمہ:
“ہماری آیات پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو سجدے میں گر جاتے ہیں، اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔”
تکبر کی اقسام
محترم قارئین! قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تکبر صرف ایک ہی شکل میں نہیں پایا جاتا، بلکہ اس کی مختلف اقسام اور صورتیں ہیں۔ علما نے دلائل کی بنیاد پر تکبر کی بنیادی طور پر تین اقسام بیان کی ہیں:
① اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا
اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بڑا سمجھے، اس کے احکامات ماننے سے انکار کرے اور اپنی عقل، طاقت یا اختیار کو اللہ کی شریعت پر ترجیح دے۔
یہ سب سے بدترین قسم کا تکبر ہے، جیسا کہ:
❀ فرعون نے کہا:
﴿اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى﴾
(النازعات: 79، آیت 24)
ترجمہ:
“میں ہی تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔”
❀ نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے اللہ کی ربوبیت کا انکار کیا۔
یہی وہ تکبر ہے جو انسان کو کھلے کفر تک پہنچا دیتا ہے اور ہمیشہ کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔
② رسول اکرم ﷺ پر تکبر کرنا
یہ تکبر کی دوسری نہایت خطرناک قسم ہے، جس میں انسان رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو اپنے لیے کمتر سمجھتا ہے، آپ ﷺ کی سنت کو قبول کرنے میں عار محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو نبی ﷺ سے بہتر سمجھنے لگتا ہے۔
یہی رویہ کفارِ مکہ کا تھا، جنہوں نے کہا:
﴿اَئِنَّا لَتَارِكُوْٓا اٰلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ﴾
(الصافات: 37، آیت 36)
ترجمہ:
“کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں؟”
حدیث سے مثال
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ایک شخص رسول اکرم ﷺ کے پاس بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
((كُلْ بِيَمِيْنِكَ))
“دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔”
اس نے کہا:
((لَا اَسْتَطِيْعُ))
“میں نہیں کر سکتا۔”
تو آپ ﷺ نے فرمایا:
((لَا اسْتَطَعْتَ، مَا مَنَعَهُ إِلَّا الْكِبْرُ))
صحیح مسلم: 2021
ترجمہ:
“تو کبھی نہ کر سکے، اسے صرف تکبر نے ہی میری بات ماننے سے روکا ہے۔”
چنانچہ وہ شخص زندگی بھر اپنا دایاں ہاتھ منہ تک نہ اٹھا سکا۔
③ اللہ کے بندوں پر تکبر کرنا
یہ سب سے عام اور معاشرے میں پھیلی ہوئی قسم ہے، جس میں انسان:
◈ خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے
◈ لوگوں کو حقیر جانتا ہے
◈ ان کی تحقیر اور تذلیل کرتا ہے
یہ تکبر مختلف بنیادوں پر ہوتا ہے، مثلاً:
❀ رنگ اور نسل
❀ خاندان اور نسب
❀ جاہ و منصب
❀ مال و دولت
❀ حسن و جمال
❀ طاقت و قوت
❀ ذہانت و فطانت
❀ علم، ڈگری یا خطابت
❀ اچھی آواز یا قراءت
حالانکہ اللہ کے نزدیک عزت کا معیار صرف تقویٰ ہے، نہ کہ دنیاوی برتری۔
حدیث نبوی میں تکبر کی جامع تعریف
تکبر کی اصل حقیقت نبی کریم ﷺ نے نہایت مختصر مگر جامع الفاظ میں بیان فرمائی۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
((لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِّنْ كِبْرٍ))
صحیح مسلم: 91
ترجمہ:
“جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔”
یہ سن کر ایک صحابی نے عرض کیا:
((اِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ اَنْ يَّكُوْنَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنًا))
“اے اللہ کے رسول! آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور جوتا اچھا ہو، تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ اللّٰهَ جَمِيْلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، اَلْكِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ))
صحیح مسلم: 91
ترجمہ:
“بے شک اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، تکبر حق کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔”
تکبر کی حقیقت دو امور پر مشتمل ہے
ان احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ تکبر دراصل دو چیزوں کا نام ہے:
① حق کو ٹھکرانا
② لوگوں کو حقیر سمجھنا
جو شخص قرآن و سنت سے ثابت حق بات جان لینے کے بعد اسے رد کر دے، وہ متکبر ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم یا داعی کیوں نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ اٰيَاتُنَا وَلَّىٰ مُسْتَكْبِرًا﴾
(لقمان: 31، آیت 7)
ترجمہ:
“جب اس کے سامنے ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ تکبر کے ساتھ منہ موڑ لیتا ہے۔”
تکبر کی دوسری حقیقت: لوگوں کو حقیر سمجھنا
تکبر کی دوسری اور نہایت خطرناک صورت لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔ یعنی انسان اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھے اور اللہ کے بندوں کو ذلیل جانے۔ یہ رویہ ایمان کی روح کے سراسر خلاف ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ﴾
(الحجرات: 49، آیت 11)
ترجمہ:
“اے ایمان والو! نہ کوئی قوم کسی قوم کا مذاق اڑائے، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں عورتوں کا (مذاق اڑائیں)، ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ برے القاب سے پکارو۔”
حدیث نبوی ﷺ میں لوگوں کو حقیر سمجھنے کی مذمت
رسول اکرم ﷺ نے نہایت واضح الفاظ میں اس رویے کی قباحت بیان فرمائی:
((اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ وَلَا يَحْقِرُهُ، اَلتَّقْوٰى هٰهُنَا))
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے، اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا۔
((بِحَسْبِ امْرِئٍ مِّنَ الشَّرِّ اَنْ يَّحْقِرَ اَخَاهُ الْمُسْلِمَ))
صحیح مسلم: 2564
ترجمہ:
“مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اسے حقیر سمجھتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہوتا ہے (سینے کی طرف اشارہ کیا)۔ کسی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔”
تکبر کی عملی صورتیں
قرآن و حدیث کی روشنی میں تکبر کی کئی عملی صورتیں سامنے آتی ہیں، جن سے ہر مسلمان کو سختی کے ساتھ بچنا چاہیے۔
① اکڑ کر چلنا
زمین پر اکڑ کر چلنا، سینہ پھلا کر اور گردن اونچی کر کے چلنا تکبر کی واضح علامت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ﴾
(لقمان: 31، آیت 18)
ترجمہ:
“لوگوں سے (حقارت کے ساتھ) منہ نہ موڑو اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو، بے شک اللہ کسی اکڑنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔”
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((بَيْنَمَا رَجُلٌ يَتَبَخْتَرُ يَمْشِي فِي بُرْدَيْهِ، قَدْ اَعْجَبَتْهُ نَفْسُهُ، فَخَسَفَ اللّٰهُ بِهِ الْاَرْضَ))
صحیح مسلم: 2088
ترجمہ:
“ایک آدمی اکڑ کر چل رہا تھا، خود پسندی میں مبتلا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا، اور وہ قیامت تک دھنستا رہے گا۔”
② کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا
کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا بھی تکبر کی ایک سنگین صورت ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((مَا اَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ مِنَ الْاِزَارِ فَفِي النَّارِ))
صحیح البخاری: 5787
ترجمہ:
“جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم میں ہوگا۔”
اسی طرح فرمایا:
((ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ… اَلْمُسْبِلُ اِزَارَهُ))
صحیح مسلم: 106
ترجمہ:
“تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ قیامت کے دن نہ بات کرے گا… ان میں ایک کپڑا نیچے لٹکانے والا ہے۔”
③ خود پسندی میں مبتلا ہونا
اپنے حسن، لباس، مال یا صلاحیتوں پر فخر کرنا بھی تکبر ہے۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
((بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي حُلَّةٍ تُعْجِبُهُ نَفْسُهُ… فَخَسَفَ اللّٰهُ بِهِ))
صحیح البخاری: 5789، صحیح مسلم: 2088
ترجمہ:
“ایک آدمی خوبصورت لباس میں خود پسندی کے ساتھ چل رہا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا۔”
④ یہ پسند کرنا کہ لوگ تعظیماً کھڑے ہوں
یہ بھی تکبر کی ایک خطرناک علامت ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ سَرَّهُ اَنْ يَّتَمَثَّلَ لَهُ الرِّجَالُ قِيَامًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ))
جامع الترمذی: 2755، وصححہ الالبانی
ترجمہ:
“جس شخص کو یہ پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔”
تکبر کا انجام اور قیامت کے دن کی رسوائی
محترم قارئین! اب تک ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں تکبر کی حقیقت، اس کی اقسام اور عملی صورتوں کو تفصیل سے بیان کر چکے ہیں۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ تکبر کرنے والوں کا انجام دنیا اور آخرت میں کیا ہے، خصوصاً قیامت کے دن ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔
① متکبر شخص کی طرف اللہ تعالیٰ نظر بھی نہیں فرمائے گا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيْهِمْ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ: شَيْخٌ زَانٍ، وَمَلِكٌ كَذَّابٌ، وَعَائِلٌ مُسْتَكْبِرٌ))
صحیح مسلم: 107
ترجمہ:
“تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر فرمائے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور متکبر فقیر۔”
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ فقر و محتاجی کے باوجود تکبر کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ جرم ہے۔
② قیامت کے دن انتہائی ذلت کے ساتھ اٹھایا جانا
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((يُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَمْثَالَ الذَّرِّ فِي صُوَرِ الرِّجَالِ، يَغْشَاهُمُ الذُّلُّ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ…))
جامع الترمذی: 2492، حسن صحیح، وصححہ الالبانی
ترجمہ:
“قیامت کے دن متکبر لوگوں کو انسانوں کی صورت میں مگر چیونٹیوں کی طرح اٹھایا جائے گا، ہر طرف سے ذلت ان پر چھائی ہوگی، پھر انہیں جہنم کی ایک جیل کی طرف لے جایا جائے گا جس کا نام بولس ہے، اور انہیں جہنمیوں کے جسموں سے نکلنے والی پیپ پلائی جائے گی۔”
یہ انجام اس غرور کا بدلہ ہوگا جو انہوں نے دنیا میں اختیار کیا تھا۔
③ اوندھے منہ جہنم میں پھینک دیا جانا
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ایک حدیث سن کر رونے لگے۔ اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ مِّنْ كِبْرٍ كَبَّهُ اللّٰهُ لِوَجْهِهِ فِي النَّارِ))
صحیح الترغیب والترہیب للألبانی: 2909
ترجمہ:
“جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، اللہ تعالیٰ اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا۔”
یہ حدیث اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ معمولی سا تکبر بھی انسان کو ہلاکت میں ڈال سکتا ہے۔
تکبر سے نجات کا واحد راستہ: تواضع
تکبر کے برعکس تواضع، عاجزی اور انکساری وہ اوصاف ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بے حد پسند فرماتا ہے۔ جو شخص اللہ کی رضا کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں بلندی عطا فرماتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((وَمَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ لِلّٰهِ اِلَّا رَفَعَهُ اللّٰهُ))
صحیح مسلم: 2588
ترجمہ:
“جو شخص اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے ضرور بلند کرتا ہے۔”
ایک اور حدیث میں ہے:
((يَقُولُ اللّٰهُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى: مَنْ تَوَاضَعَ لِي هٰكَذَا… رَفَعْتُهُ هٰكَذَا))
مسند احمد: 309، وصححہ الارناؤط
ترجمہ:
“اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جو شخص میرے لیے اس طرح عاجزی اختیار کرتا ہے (زمین کی طرف ہاتھ جھکایا)، میں اسے اس طرح بلند کرتا ہوں (آسمان کی طرف ہاتھ بلند کیا)۔”
رسول اکرم ﷺ کی عملی زندگی: تواضع کا اعلیٰ نمونہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی تواضع، سادگی اور انکساری کا عملی نمونہ تھی:
❀ غریب صحابہؓ کی دعوت قبول فرماتے
❀ چٹائی پر سوتے، حتیٰ کہ بدن پر نشانات پڑ جاتے
❀ گھریلو کاموں میں اہلِ خانہ کا ہاتھ بٹاتے
❀ اپنے کپڑے خود سی لیتے
❀ تعریف میں غلو سے منع فرماتے
❀ صحابہؓ کے ساتھ عام آدمی کی طرح بیٹھتے
❀ مریضوں کی عیادت اور جنازوں میں شرکت کرتے
❀ زمین پر بیٹھ کر کھاتے اور فرماتے: “میں غلام کی طرح بیٹھتا اور کھاتا ہوں”
یہ سب اسوۂ حسنہ اس بات کی دلیل ہیں کہ عظمت کا راستہ عاجزی سے ہو کر گزرتا ہے۔
اہلِ جنت اور اہلِ جہنم کی علامات
محترم قارئین! مضمون کے اختتام سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چند ایسی احادیث ملاحظہ فرمائیں جن میں اہلِ جنت اور اہلِ جہنم کی نمایاں صفات بیان کی گئی ہیں، تاکہ ایک مسلمان اپنے انجام پر غور کر سکے۔
اہلِ جنت کی صفات
حضرت حارثہ بن وہب الخزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلَا اُخْبِرُكُمْ بِاَهْلِ الْجَنَّةِ؟ كُلُّ ضَعِيْفٍ مُتَضَعِّفٍ لَوْ اَقْسَمَ عَلَى اللّٰهِ لَاَبَرَّهُ))
صحیح البخاری: 4918، صحیح مسلم: 2853
ترجمہ:
“کیا میں تمہیں اہلِ جنت کی خبر نہ دوں؟ ہر وہ شخص جو کمزور سمجھا جاتا ہے، عاجزی اختیار کرنے والا ہو، اگر وہ اللہ پر قسم کھا لے تو اللہ اس کی قسم پوری فرما دے۔”
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل عظمت طاقت، دولت یا منصب میں نہیں بلکہ عاجزی اور اخلاص میں ہے۔
اہلِ جہنم کی صفات
اسی حدیث کے آخر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَلَا اُخْبِرُكُمْ بِاَهْلِ النَّارِ؟ كُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ))
صحیح البخاری: 4918، صحیح مسلم: 2853
ترجمہ:
“کیا میں تمہیں اہلِ جہنم کی خبر نہ دوں؟ ہر سخت مزاج، اکڑ باز، اور تکبر کرنے والا۔”
یہاں صاف الفاظ میں تکبر کو جہنم میں لے جانے والا وصف قرار دیا گیا ہے۔
جنت میں داخلے کی شرط: تکبر سے پاک ہونا
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ فَارَقَتِ الرُّوْحُ جَسَدَهُ وَهُوَ بَرِيءٌ مِّنْ ثَلَاثٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ: اَلْكِبْرُ، وَالدَّيْنُ، وَالْغُلُوْلُ))
صحیح الجامع للألبانی: 6411، سنن ابن ماجہ: 2412
ترجمہ:
“جس شخص کی روح اس حال میں جسم سے جدا ہو کہ وہ تین چیزوں سے پاک ہو: تکبر، قرض، اور خیانت، وہ جنت میں داخل ہوگا۔”
یہ حدیث تکبر کی سنگینی کو انتہائی واضح انداز میں بیان کرتی ہے کہ جنت میں داخلے کے لیے دل کا اس مرض سے پاک ہونا ضروری ہے۔
نتیجہ
تکبر ایک ایسا مہلک روحانی مرض ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور، اور جہنم کے قریب کر دیتا ہے۔ یہ گناہ ایمان کی جڑ کاٹ دیتا ہے اور بندے کو شیطان کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ اس کے برعکس تواضع، عاجزی اور انکساری وہ اوصاف ہیں جو بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب اور جنت کے راستے پر لے جاتے ہیں۔
ایک سچا مسلمان وہی ہے جو:
◈ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کے سامنے سرِ تسلیم خم کرے
◈ خود کو اللہ کا محتاج بندہ سمجھے
◈ اللہ کے بندوں کو حقیر نہ جانے
◈ ہر حال میں عاجزی اختیار کرے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تکبر کی تمام صورتوں سے محفوظ فرمائے، ہمیں عاجزی اور انکساری اپنانے کی توفیق دے، اور ہمیں اہلِ جنت میں شامل فرمائے۔ آمین۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ