تولد کی اذان یا تراویح پر اجرت لینا کیسا ہے؟ مکمل شرعی حکم
ماخوذ: قرآن و حدیث کی روشنی میں احکام و مسائل – جلد 01

تولد کے وقت اذان پر اجرت لینے کا شرعی حکم

سوال:

تولد (بچے کی پیدائش) کے وقت جو اذان دی جاتی ہے، اس پر اجرت لینا کیسا ہے؟

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد:

نکاح، اذانِ تولد پر اجرت کا حکم:

◈ نکاح یا تولد کے وقت اذان پر اجرت لینا درست معلوم نہیں ہوتا۔
◈ نکاح کی اصل حیثیت ایجاب و قبول پر ہے، جو ہر کوئی کروا سکتا ہے۔ اگر کسی کو خطبہ اور قرآن کی آیات یاد نہ ہوں، تو وہ دیکھ کر بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔
◈ اسی طرح اذان کے کلمات بھی عام طور پر لوگوں کو یاد ہوتے ہیں، لہٰذا اس پر اجرت لینا بلا وجہ کا خرچ ہے۔
◈ شریعت کا مقصد ایسی غیر ضروری رسومات کا سدباب ہے، نہ کہ ان کا فروغ۔ یہی وجہ ہے کہ خیرالقرون (بہترین زمانوں) میں ان کا کوئی وجود نہیں تھا، حالانکہ نکاح، جنازہ اور تولد جیسے امور کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔

صرف اذان، اقامت یا تراویح پر اجرت لینا:

◈ جیسے آج کل یہ رواج عام ہو گیا ہے، یہ بھی درست نہیں۔
◈ کیونکہ یہ اعمال کسی کو روزگار سے نہیں روکتے، اور ہر شخص کو جماعت کے ساتھ نماز کا حکم ہے، تو ویسے بھی وہ وقت پر مسجد میں حاضر ہوگا۔
◈ اذان، اقامت یا تراویح دینا ایک وقتی عمل ہے، اس پر اجرت لینا درست نہیں، خاص طور پر جب حدیث میں اس کی ممانعت موجود ہو۔

حدیث سے واضح ممانعت:

منتقی، باب النہی عن أخذ الأجرة علی الأذان میں ہے:

"عن عثمان بن ابی العاص قال: آخر ما عهد الی رسول الله صلی الله عليه وسلم ان اتخذ موذنا لا يأخذ علی اذانه اجرا”
رواہ الخمسة

یعنی حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آخری وصیت یہ کی کہ ایسا موذن مقرر نہ کرنا جو اذان پر اجرت لے۔”

امام شوکانی کی وضاحت – نیل الاوطار، جلد اول، ص 357:

◈ اس حدیث کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔
◈ ابن المنذر کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن ابی العاص کو فرمایا: "ایسا موذن مقرر کرو جو اذان پر اجرت نہ لے۔”
◈ ابن حبان سے روایت ہے: یحیی بکالی نے کہا، "میں نے ایک شخص کو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے سنا: ’میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں۔‘” ابن عمر نے جواب دیا: "میں تم سے اللہ کے لیے نفرت کرتا ہوں۔” اس شخص نے کہا: "سبحان اللہ! میں آپ سے اللہ کے لیے محبت کرتا ہوں، اور آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں؟” فرمایا: "ہاں، کیونکہ تم اذان پر اجرت لیتے ہو۔”
◈ حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

"چار چیزوں پر اجرت لینا درست نہیں: اذان، قرآن کی تلاوت، مالِ غنیمت کی تقسیم، اور قضاء۔”
(ذکرہ ابن سید الناس فی شرح الترمذی)

◈ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے: ضحاک نے اذان پر اجرت لینا ناپسند کیا اور کہا:

"اگر بغیر مانگے کچھ دے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔”

◈ معاویہ بن قرہ سے روایت ہے:

"صرف وہی شخص موذن بنے جو خالص نیت سے اذان دیتا ہو۔”

اجرت کے جواز کا موقف اور اس پر نقد:

ابن العربی نے لکھا:

"اذان، نماز، قضاء اور دیگر دینی کاموں پر اجرت لینا درست ہے کیونکہ خلیفہ اور اس کے نائب بھی ان پر اجرت لیتے ہیں۔”

◈ اس کی دلیل میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذکر کیا:

"ما تركت بعد نفقة نسائي ومؤنة عاملي فهو صدقة”

◈ لیکن امام شوکانی نے کہا:
➤ موذن کو عامل پر قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ یہ قیاس نص کے مقابلے میں ہے۔
➤ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے کی صحابہ میں کسی نے مخالفت نہیں کی، جیسا کہ یعمری نے تصریح کی ہے۔

ابو محذورہ کی حدیث اور اس پر تبصرہ:

◈ ابن حبان نے اذان پر اجرت کے جواز کے لیے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو دلیل بنایا:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اذان سکھائی، میں نے اذان دی، پھر آپ نے مجھے ایک تھیلی چاندی دی۔”

یعمری کہتے ہیں:
➤ یہ واقعہ حضرت عثمان بن ابی العاص کے اسلام لانے سے پہلے کا ہے۔
➤ یہ ممکن ہے کہ یہ عطیہ اذان پر اجرت نہ ہو بلکہ نو مسلم کی دلجوئی کے لیے ہو۔
➤ یہ دلیل اس شخص پر لاگو نہیں ہوتی جو کہتا ہے: "اگر اجرت مشروط ہو تو حرام ہے، لیکن بغیر سوال دی جائے تو جائز ہے۔”

امامت اور تراویح پر اجرت:

◈ جب اذان پر اجرت اتنی ناپسندیدہ ہے تو امامت، جو ایک بڑا عمل ہے، اس پر تنخواہ یا اجرت لینا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟
◈ خاص طور پر رمضان المبارک میں تراویح پڑھانے پر پیسے لینا یا اجرت مانگنا قطعاً درست نہیں۔
◈ حافظِ قرآن حضرات اس مہینے کو پیسے کمانے کا ذریعہ بناتے ہیں، جو کہ گناہ اور وعید کا سبب ہے۔

شدید وعید کی حدیث:

"من تعلم علماً مما يبتغی به وجه الله لا يتعلمه الا ليصيب به عرضاً من الدنيا لم يجد عرف الجنة يعنی ريجها۔”
رواہ احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ (مشکوٰۃ، کتاب العلم، فصل 2، ص 26)

یعنی: "جو شخص دین کا علم اس نیت سے حاصل کرے کہ اس سے دنیاوی فائدہ اٹھائے، تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔”

قیام اللیل کی روایات:

عبداللہ بن معقل نے رمضان میں لوگوں کو نماز پڑھائی۔ عید کے دن عبیداللہ بن زیاد نے انہیں 500 درہم بھیجے، جو انہوں نے یہ کہہ کر لوٹا دیے:

"ہم کتاب اللہ پر اجرت نہیں لیتے۔”

مصعب نے بھی انہیں پانچ درہم بھیجے، لیکن انہوں نے وہ بھی لوٹا دیے۔
مالک بن دینار فرماتے ہیں:
➤ ایک شخص کو دیکھا جس کے ساتھ سپاہی تھے اور وہ ہتھکڑی میں تھا۔
➤ اس نے بتایا کہ اسے تراویح کے لیے مقرر کیا گیا، رمضان کے بعد تنخواہ ملی، اور بعد میں وہی رقم حساب میں ظاہر ہونے پر گرفتار ہوا۔
➤ مالک بن دینار نے کہا: "تم گوشت اور چوری کی روٹی کھاتے تھے، اسی وجہ سے اس مصیبت میں گرفتار ہوئے ہو۔”

اکابر تابعین و محدثین کے اقوال:

حسن بصری: "اجرت پر نماز پڑھانے والے کی نہ نماز ہوتی ہے، نہ مقتدیوں کی۔”
ابن مبارک: "اجرت پر نماز پڑھانے کو ناپسند کرتا ہوں، اور ڈر ہے کہ ان پر نماز کا لوٹانا واجب ہو۔”
امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا: "ایک امام کہے کہ میں رمضان میں اتنے درہموں پر نماز پڑھاؤں گا؟” فرمایا: "ایسے امام سے اللہ پناہ دے، اس کے پیچھے کون نماز پڑھے گا؟”
(قیام اللیل، باب الأجر علی الإمامة فی رمضان، ص 103)

علماء دیوبند کا فتویٰ:

29 شعبان 1351ھ کو دیوبند سے رمضان المبارک کے متعلق ایک اشتہار شائع ہوا، جس میں لکھا تھا:

"جو حافظ روپیہ کی طمع میں قرآن مجید سناتا ہے، اس سے وہ امام بہتر ہے جو الم ترکیف سے پڑھائے۔ اگر اجرت مقرر کرکے قرآن سنایا جائے تو نہ امام کو ثواب ہوگا، نہ مقتدیوں کو۔
اتنی جلدی قرآن پڑھنا کہ حروف کٹ جائیں، سخت گناہ ہے۔”

تنبیہ:

◈ اجرت لینا دو طرح سے ہوتا ہے:
صراحت کے ساتھ شرط کرنا – یعنی پہلے سے کہنا کہ میں اتنے پیسے لوں گا۔
اشارہ یا ناراضگی کے ذریعے – یعنی اگر کچھ نہ دیا جائے تو ناراض ہو جائے یا شکایت کرے۔
◈ یہی طریقہ اکثر واعظوں اور حافظان قرآن کا ہوتا ہے۔

دعا:

"اللهم اجعل أعمالنا كلها صالحة، واجعلها لوجهك خالصة، ولا تجعل لأحد فيها شيئا”

وباللہ التوفیق

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے