سوال کی تفصیل:
تین سے چار سال قبل ایک لڑکا اور لڑکی کے درمیان تعلقات قائم ہو گئے۔ اس دوران لڑکی نے اپنی والدہ سے بات کی، تو والدہ نے ان کے رشتے پر رضا مندی ظاہر کی۔ بات طے پا گئی اور نکاح کی تاریخ مقرر ہو گئی۔ مگر عین نکاح کے دن، لڑکی کے سادہ لوح والد کو اس کے بھائیوں نے رشتہ دینے سے روک دیا اور پیغام بھجوا دیا کہ وہ لوگ نکاح کے لیے نہ آئیں۔ لڑکی کی والدہ بھی یہ پیغام دے کر واپس چلی گئیں۔
چند دن بعد لڑکی لڑکے کے پاس آ گئی اور دونوں نے عدالت میں نکاح کر لیا۔ اس نکاح سے پہلے دونوں زنا کے مرتکب ہو چکے تھے، اور لڑکے کے بقول نکاح کے وقت لڑکی حاملہ تھی۔ کچھ عرصے بعد لڑکی کی والدہ اسے واپس لے گئیں۔ بعد میں عدالت کا فیصلہ لڑکے کے حق میں آ گیا اور لڑکی دوبارہ اس کے ساتھ آ گئی۔
پھر لڑکے کو خیال آیا کہ چونکہ نکاح کے وقت حمل موجود تھا، اس لیے نکاح درست نہیں ہوا۔ اس پر اس نے ایک مولوی صاحب سے رابطہ کیا جنہوں نے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر کچھ حق مہر کے تحت نکاح پڑھا دیا، جبکہ گواہوں کی موجودگی کے معاملے سے مولوی صاحب لاعلم تھے۔ اب لڑکے کو اس پر افسوس ہے۔
لڑکی کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے اور لڑکی کا والد ولی بننے کے اہل نہیں (لائی لگ ہے)، لڑکی کے کوئی بھائی بھی نہیں ہیں۔ دونوں کے ہاں اولاد بھی ہو چکی ہے۔ دونوں کہتے ہیں کہ اب وہ سچے دل سے توبہ کر چکے ہیں۔
کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ اب انہیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!
موجودہ صورت میں نکاح درست نہیں
صورت مسئولہ میں جو نکاح ہوا وہ درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَۚ﴾
(النساء: 24)
"اور حلال کیا گیا تمہارے لیے وہ سب جو ان کے علاوہ ہیں، بشرطیکہ تم ان کو اپنے مال کے بدلے طلب کرو، قید میں رکھنے والے بن کر، نہ کہ بدکاری کرنے والے۔”
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کے جواز کے لیے مرد کا محصن (عفت شعار)، عفیف اور غیر زانی ہونا ضروری ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ… إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ﴾
(المائدہ: 5)
"آج کے دن تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئیں، اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے، اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے، اور پاکدامن عورتیں مومنوں میں سے اور اہل کتاب میں سے بھی، جب تم ان کو ان کا مہر دے دو، نکاح میں لانے والے بن کر، نہ کہ بدکاری کرنے والے اور نہ چھپے آشنا بنانے والے۔”
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا محصنہ (عفت شعار) اور غیر زانیہ ہونا بھی نکاح کی حلت کے لیے ضروری ہے۔
لہٰذا جب ان دونوں آیات کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ:
◈ اگر دونوں محصن اور عفیف ہوں تو نکاح جائز ہے؛
◈ اگر دونوں غیر محصن و غیر عفیف ہوں، یا
◈ صرف مرد یا صرف عورت غیر محصن ہو،
تو تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں ہوتا۔
نکاح ولی کی اجازت کے بغیر ہوا، جو شریعت میں باطل ہے
نکاح اذنِ ولی کے بغیر ہوا، اور اسلام میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا کرتے تھے، مگر اسلام نے ایسے تمام نکاح ختم کر دیے۔ صحیح بخاری میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے:
«فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ ﷺ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِکَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ إِلاَّ نِکَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ»
"جب نبی کریم ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا، تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاح ختم کر دیے، سوائے اس نکاح کے جو آج لوگ کرتے ہیں۔”
اسی حدیث میں "نکاح الناس اليوم” کی وضاحت یوں فرمائی:
«فَنِکَاحٌ مِنْهَا نِکَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوِ ابْنَتَهُ ، فَيُصْدِقُهَا ، ثُمَّ يَنْکِحُهَا»
(جلد دوم، کتاب النکاح، باب من قال لا نکاح الا بولی، ص 769 و 770)
"آج کے دور کا نکاح یہ ہے کہ مرد دوسرے مرد کے پاس اس کی زیرِ سرپرستی لڑکی یا بیٹی کا رشتہ طلب کرتا ہے، مہر طے کرتا ہے اور نکاح کرتا ہے۔”
عدالت کے فیصلے کی شرعی حیثیت
عدالت نے صرف لڑکی کے بیان پر کارروائی کی، جو کہ شرعی طور پر قابل اعتبار نہیں۔ کیونکہ شریعت نے فریقین کے بیانات کے بغیر فیصلہ دینے سے منع فرمایا ہے۔
إرواء الغلیل، حدیث نمبر: 2600
اصلاح کا واحد شرعی طریقہ
اگر واقعی دونوں نے سچے دل سے توبہ کر لی ہے، اور توبہ حقیقت پر مبنی ہے، تو پھر شریعت کی مکمل روشنی میں نکاح کرنا ضروری ہے:
◈ ولی کی اجازت ہو (اگر ولی نہ ہو تو شرعی طریقہ سے متبادل ولی کا انتظام ہو)،
◈ دو گواہوں کی موجودگی میں،
◈ حق مہر مقرر کر کے،
◈ اسلامی اصولوں کے مطابق نکاح کیا جائے۔
تبھی وہ آئندہ گناہ سے بچ سکیں گے اور ان کا رشتہ شرعی طور پر درست تصور ہوگا۔
نتیجہ
➊ پہلا نکاح زنا کی حالت میں ہوا، جب دونوں غیر محصن اور غیر عفیف تھے — یہ نکاح باطل ہے۔
➋ دوسرا نکاح ولی اور گواہوں کی غیر موجودگی میں ہوا — یہ بھی درست نہیں۔
➌ عدالت کا فیصلہ شریعت کے مطابق نہیں کیونکہ دونوں فریقین کو سنے بغیر دیا گیا۔
➍ اب جبکہ توبہ کر چکے ہیں، شرعی اصولوں کے مطابق، ولی اور گواہوں کی موجودگی میں نکاح کریں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب