تواتر عملی اور حدیث و سنت کا تجزیہ

مولانا امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی کا نقطۂ نظر

مولانا امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی کے نزدیک حدیث و سنت کے بارے میں ایک منفرد نقطۂ نظر پیش کیا گیا ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ:

سنت کی تعریف

سنت حضور نبی اکرم ﷺ کی عملی زندگی کی وہ تفصیل ہے جو امت کے تواتر عملی سے ثابت ہوتی ہے، اس لیے یہ قطعی الثبوت ہے اور قرآن کی طرح اہم ہے۔ ان کے نزدیک سنت کو قرآن کے لیے روح کی مانند سمجھا گیا ہے، اور اس کا انکار قرآن کے انکار کے مترادف ہے۔

حدیث کا مقام

حدیث کو وہ سنت کا تحریری ریکارڈ قرار دیتے ہیں جو تواتر سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے خبر واحد کے درجے میں آتی ہے۔ ان کے مطابق یہ ظنی الثبوت، غیر مستند، اور صحت کے اعتبار سے ناقابل اعتماد ہے، اس لیے فہم قرآن کے لیے اس پر کلی انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
(مولانا امین احسن اصلاحی، مبادیٴ تدبر حدیث، باب اول و دوم، ص 19، 28، 38، 41، فاران فاؤنڈیشن لاہور، 2000ء؛ مبادیٴ تدبر قرآن، ص 52، 169، دارالاشاعت الاسلامیہ لاہور، 1971ء؛ تدبر قرآن، جلد اوّل، مقدمہ، ص ب، مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور، 1976ء)۔

تواتر عملی: ایک نظریہ یا حقیقت

مولانا اصلاحی کا مؤقف

مولانا اصلاحی کے نزدیک سنت کا واحد ذریعہ امت کا تواتر عملی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

"جس طرح قرآن قولی تواتر سے ثابت ہے، اسی طرح سنت امت کے عملی تواتر سے ثابت ہے، مثلاً نماز اور حج کے احکام۔ یہ اعمال نبی اکرم ﷺ سے صحابہ نے، صحابہ سے تابعین، اور پھر تبع تابعین نے منتقل کیے۔”

(مبادیٴ تدبر حدیث، ص 28)۔

سوالات اور اعتراضات

  • تفصیلی احکام کا سوال: نماز اور حج کے بنیادی احکام تو قرآن میں موجود ہیں، لیکن کیا مولانا یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سے تفصیلی احکام ہیں جو صرف تواتر عملی سے ثابت ہوئے؟
  • بدعات کا معاملہ: اگر تواتر عملی نسل در نسل منتقل ہوا ہے، تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کی موجودہ بدعات سنت کا حصہ نہیں ہیں؟
  • سنت اور بدعت میں فرق: اگر کوئی عمل نسلوں سے چلا آ رہا ہے، تو اس کے سنت یا بدعت ہونے میں تفریق کا معیار کیا ہوگا؟

مولانا اصلاحی کا تناقض

مولانا اصلاحی نے تواتر عملی کی تعریف دی، لیکن بعد میں خود ہی تسلیم کیا کہ تواتر عملی خلفائے راشدین کے عمل تک محدود ہے، اور اس کی دلیل میں خبر واحد (فعليکم بسنتی…) پیش کی۔
(مبادیٴ تدبر حدیث، ص 29)۔

اہم سوالات

  • اگر تواتر عملی صرف ایک نسل یا چند افراد تک محدود ہو تو اسے قرآن کے تواتر کی طرح حجت کیسے کہا جا سکتا ہے؟
  • کیا تواتر عملی کی سند آج بھی موجود ہے؟

سنت، حدیث، اور تعامل امت کا موازنہ

تواتر عملی اور تاریخ کا انحصار

مولانا اصلاحی کے نزدیک سنت کا تواتر عملی سے ثابت ہونا ضروری ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ تواتر عملی کی تصدیق بغیر خبر یا روایت کے ممکن نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حدیث کی خبر سے ہٹ کر سنت کا تعین ممکن نہیں۔

سنت کا حدیث پر برتری

اصلاحی صاحب کے مطابق اگر حدیث کسی سنت کے خلاف ہو تو اس حدیث کو رد کر دیا جائے گا، کیونکہ سنت قطعی ہے اور حدیث ظنی۔
(مبادیٴ تدبر حدیث، ص 28)۔

بدعات کے اثرات

تعامل امت اور تواتر عملی کو سنت کا واحد ذریعہ ماننے کی صورت میں بدعات کو شرعی جواز مل سکتا ہے، کیونکہ امت میں بدعات کا تعامل بھی موجود ہے۔ حدیث کو حجت شرعی ماننے والوں کے پاس بدعات کو رد کرنے کا معیار موجود ہے، لیکن تواتر عملی کے فلسفے میں یہ امکان ختم ہو جاتا ہے۔

خلاصہ

  • احادیث و سنن کی حیثیت: صحیح احادیث، جو ثقہ راویوں سے مروی ہوں اور صحت کے اصولوں پر پورا اتریں، سنت رسول ﷺ کی حقیقی شکل ہیں اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔
  • تواتر عملی کا محدود دائرہ: تواتر عملی کو سنت کا واحد ذریعہ کہنا عملی طور پر ناقابل قبول ہے، کیونکہ یہ ایک نظری تخیل ہے اور امت کا اس پر کبھی اجماع نہیں ہوا۔
  • جمہور امت کا موقف: جمہور امت ثقہ راویوں کی روایت کردہ صحیح احادیث کو سنت کا مظہر مانتی ہے اور اسماء الرجال، جرح و تعدیل، اور تدوین حدیث کے اصولوں کو سنت کے تعین کا قابل اعتماد ذریعہ سمجھتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے