سوال:
جو شخص تنہا تراویح پڑھ رہا ہے، وہ قرآت بلند آواز سے کرے یا آہستہ؟
جواب:
دونوں طرح جائز ہے۔
❀ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں:
”نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی قرآت اس قدر بلند تھی کہ آپ صلى الله عليه وسلم گھر میں تلاوت کر رہے ہوتے اور صحن میں سنائی دیتی۔“
(سنن أبي داود: 1327، شمائل الترمذي: 322، وسنده حسن)
❀ سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں:
كانت قراءة النبى صلى الله عليه وسلم بالليل يرفع طورا، ويخفض طورا.
”نبی صلى الله عليه وسلم رات کو کبھی بلند اور کبھی آہستہ آواز سے قرآت کرتے تھے۔“
(سنن أبي داود: 1328، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (1159)، امام ابن حبان (2603) اور امام حاکم رحمة الله (310/1) نے ”صحیح “کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمة الله نے ان کی موافقت کی ہے۔
❀ سیدنا ابو قتادہ رضی الله عنه بیان کرتے ہیں:
”نبی کریم صلى الله عليه وسلم ایک رات باہر تشریف لائے اور ابو بکر رضی الله عنه کے پاس سے گزرے، وہ آہستہ آواز سے قرآت کر رہے تھے، سیدنا عمر رضی الله عنه کے پاس سے گزر ہوا تو وہ اونچی آواز سے تلاوت کر رہے تھے۔ جب وہ دونوں نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ابوبکر! میں آپ کے پاس سے گزرا، آپ آہستہ آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ عرض کیا: اللہ کے رسول! جس ذات سے سرگوشی کر رہا تھا، اسے میں نے اپنی بات سنا دی ہے۔ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے سیدنا عمر رضی الله عنه سے فرمایا: میرا آپ کے پاس سے گزر ہوا، آپ بلند آواز سے قرآت کر رہے تھے۔ عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس سے سوئے ہوؤں کو جگا رہا تھا اور شیطان کو بھگا رہا تھا۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ابوبکر! آپ اپنی آواز قدرے بلند کیجیے اور سیدنا عمر رضی الله عنه سے فرمایا: آپ اپنی آواز کو تھوڑا سا پست کیجیے۔“
(سنن أبي داود: 1329، سنن الترمذي: 447، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمة الله (161) اور امام ابن حبان رحمة الله (733) نے ”صحیح “کہا ہے۔ امام حاکم رحمة الله (310/1) نے مسلم کی شرط پر ”صحیح “قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمة الله نے ان کی موافقت کی ہے۔