سوال:
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو، آؤ۔ کا کیا مفہوم ہے؟
جواب:
❀ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ
(البقرة: 223)
تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتیوں کو جیسے چاہو، آؤ۔
❀ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
قالت اليهود انما يكون الحول اذا اتى الرجل امراته من خلفها فانزل الله نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم من قدامها ومن خلفها ولا ياتيها الا في الماتى
یہود کا خیال تھا کہ بیوی کی پچھلی جانب سے وطی کرنے سے بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے، اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی:نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ مرد، عورت سے اگلی اور پچھلی دونوں جانب سے جماع کر سکتا ہے لیکن جماع ہو گا صرف اگلی شرمگاہ میں۔
(صحیح مسلم: 1435)
(صحیح ابن حبان: 4197، وسنده صحيح)
❀ عکرمہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
انما هو الفرج
اس سے مراد اگلی شرمگاہ ہی ہے۔
(سنن الدارمي: 1164، وسنده صحيح)
ياتيها كيف شاء قائم وقاعد وعلى كل حال ياتيها ما لم يكن في دبرها
مرد اپنی عورت سے کھڑے، بیٹھے اور ہر حالت میں جماع کرسکتا ہے، لیکن پچھلی شرمگاہ میں نہیں۔
(مصنف ابن ابي شيبة: 228/4، وسنده صحيح)
❀ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كانت اليهود لا تالو ما شدت على المسلمين كانوا يقولون يا اصحاب محمد انه والله ما يحل لكم ان تاتوا نساءكم الا من وجه واحد قال فانزل الله نساؤكم حرث لكم فاتوا حرثكم انى شئتم
یہودی مسلمانوں کو ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، کہتے کہ اے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم تمہارے لئے عورتوں سے جماع کی صرف ایک صورت جائز ہے۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمادی:نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ۔ اللہ تعالی نے مومنوں اور ان کی ضرورت کے درمیان آڑ ختم کر دی۔
(سنن الدارمي: 1165، وسنده صحيح)
یہودیوں کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص اپنی عورت کے پیچھے سے اس کا اگلا حصہ استعمال کرے، تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنے نظریے کے مطابق صحابہ کرام کو طعنے دیتے، تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرما کر یہودیوں کا رد کر دیا کہ جیسے چاہو اپنی بیویوں کے پاس آؤ، لیکن اس حصہ کو استعمال کرنا ہے، جس سے بچے کی ولادت ہوتی ہے۔
اس آیت کی یہی تفسیر مرہ بن شراحیل ہمدانی رحمہ اللہ نے بیان کی ہے۔
(مصنف ابن ابي شيبة: 230/4، وسنده صحيح)
محمد بن کعب قرظی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
انتهاء مضطجعة وقائمة ومنحرفة ومقبلة ومدبرة كيف شئت اذا كان في قبولها
اپنی بیوی سے جیسے چاہے جماع کریں، لیٹی ہو، کھڑی ہو، ٹیڑھی ہو، منہ آپ کی طرف کیے ہوئے ہو یا پیٹھ، ہاں جماع اس کی اگلی شرمگاہ میں کریں۔
(تفسير الطبري: 747/3، وسنده حسن)
❀ اسماعیل بن عبد الرحمن سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
انت حرثك كيف شئت من قبولها ولا تاتيها في دبرها انى شئتم قال كيف شئتم
آپ اپنی کھیتی کو جیسے چاہیں، آئیے، اگلی شرمگاہ میں جماع کیجئے، پچھلی شرمگاہ میں جماع نہ کریں، فرمان باری تعالی انى شئتم سے مراد ہے کہ جیسے چاہو اگلی شرمگاہ میں جماع کرو۔
(تفسير الطبري: 747/3، وسنده حسن)
❀ امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يعني تعالى ذكره بذلك نساؤكم مزدرع اولادكم فاتوا مزدرعكم كيف شئتم واي شئتم
اس سے اللہ تعالی کی مراد یہ ہے کہ عورتیں تمہارے بچوں کی پیدا ہونے کی کھیتیاں ہیں، تم اپنی کھیتیوں اگلی شرمگاہ میں کو جیسے چاہو، جہاں چاہو جماع کرو۔
اما الحرث فهي مزرعة يحرث فيها
کھیتی سے مراد اس کی بیج بونے کی جگہ ہے، جس میں وہ کھیتی کرتا ہے۔
(تفسير الطبري: 745/3، وسنده حسن)
اللہ تعالی کا فرمان گرامی ہے:
فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللهُ
(البقرة: 222)
جب عورتیں حیض سے پاک ہو جائیں تو ان سے اس طرح جماع کرو، جس طرح اللہ تعالی نے تمہیں حکم دیا ہے۔
اس آیت کریمہ کا مفہوم واضح کرتے ہوئے اور اس فعل بد کی بیس کے قریب قباحتیں بیان کرتے ہوئے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں:
یہ آیت دو طرح عورتوں سے وطی کی حرمت بیان کرتی ہے، ایک یہ کہ اللہ تعالی نے عورت کی کھیتی میں جماع کو جائز قرار دیا ہے اور کھیتی بچہ پیدا ہونے کی جگہ ہے، نہ کہ گندگی والی جگہ، فرمان باری مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللهُ جہاں سے اللہ تعالی نے حکم دیا ہے سے مراد یہی کھیتی والی جگہ ہی ہے، نیز فرمایا فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْتم اپنی کھیتی کو جہاں سے چاہو، آؤ، اس آیت سے عورت کی پچھلی جانب سے اس کی اگلی شرمگاہ میں جماع کی دلیل بھی نکلتی ہے، اللہ تعالی نے فرمایا کہ تم جہاں سے چاہو، جماع کرو، یعنی آگے سے یا پیچھے سے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کھیتی سے مراد اگلی شرمگاہ ہے۔ جب اللہ تعالی نے عارضی طور پر لاحق ہونے والی گندگی حیض کی وجہ سے اگلی شرمگاہ میں جماع کو حرام قرار دیا ہے تو اس سوراخ کے بارے میں کیا خیال ہے، جو مستقل طور پر گندگی کی جگہ ہے، ساتھ ہی اس میں جماع کے اور بھی مفاسد ہیں، ان میں ایک انقطاع نسل ہے اور دوسرا یہ کہ عورتوں کی پشتوں میں جماع کرنا بچوں کی پشتوں میں جماع لواطت کا بڑا سبب ہے۔ اسی طرح جماع میں عورت کا بھی مرد پر حق ہوتا ہے، جو کہ دبر میں جماع کرنے سے ادا نہیں ہوتا بعورت کی خواہش پوری نہیں ہوتی اور اس کا مقصود حاصل نہیں ہوتا۔ اسی طرح دبر اس مقصد کے لئے نہیں بنائی گئی، بلکہ اس کے لئے فرج بنائی گئی ہے، چنانچہ اس کو چھوڑ کر دبر کی طرف جانے والے اللہ تعالی کی حکمت اور شریعت سے بغاوت کرنے والے ہیں۔ یہ مرد کے لئے بھی نقصان دہ ہے، اسی لئے عقل مند اطباء اور فلاسفہ وغیرہ اس سے منع کرتے ہیں، کیونکہ فرج میں بہنے والے پانی کو جذب کرنے اور مرد کو راحت دینے کی صلاحیت ہوتی ہے، جبکہ دبر میں جماع کرنا پانی کو جذب کرنے پر مدد نہیں دیتا اور طبعی امر کی مخالفت کی وجہ سے پانی مکمل طور پر خارج نہیں ہوتا۔ یہ ایک اور طرح سے بھی نقصان دہ ہے کہ اس میں خلاف طبع حرکات کرنا پڑتی ہیں، جو کہ تھکا دینے والی ہوتی ہیں۔ اسی طرح دبر گندگی اور نجاست کی جگہ ہوتی ہے، اس کی طرف آدمی متوجہ ہوتا اور اس کو استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح یہ عورت کے لئے بھی سخت نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ طبع کے بہت خلاف اور منافرت والا کام ہے۔ اسی طرح یہ کام غم و دکھ اور فاعل و مفعول سے نفرت کا باعث بنتا ہے۔ یہ کام چہرے کو سیاہ کرتا ہے، سینے میں اندھیرا اور دل کا نور ختم کرتا ہے۔ اس سے چہرے پر سراسیمگی چھا جاتی ہے اور وہ واضح نشانی بن جاتی ہے، جسے ادنی سی فراست والا شخص بھی پہچان سکتا ہے۔ اسی طرح یہ کام ضروری طور پر فاعل ومفعول کے درمیان نفرت، عداوت اور قطع تعلقی کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح یہ فاعل اور مفعول کی حالت اتنی خراب کر دیتا ہے کہ اس کی اصلاح ممکن نہیں رہتی، الا یہ کہ سچی توبہ کے ذریعے اللہ تعالی کی توفیق شامل حال ہو جائے۔ یہ فعل فاعل ومفعول دونوں سے خوبصورتی کو ختم کر دیتا ہے اور انہیں بدصورت بنا دیتا ہے، جیسا کہ ان کی باہم محبت نفرت وعداوت میں بدل جاتی ہے۔ اسی طرح یہ کام نعمتوں کے چھن جانے اور مصیبتوں کے چھا جانے کا بڑا سبب ہے۔ یہ اللہ تعالی کی لعنت، اس کی ناراضی، اس کے اعراض اور بنظر رحمت نہ دیکھنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے بعد ایسا شخص کس خیر کی امید کرے گا اور کس شر سے محفوظ ہو سکے گا، جس شخص پر اللہ تعالی کا غضب اور اس کی لعنت ہو، وہ اس سے اعراض کر لے اور اس کو بنظر رحمت نہ دیکھے، اس کی زندگی کیسی ہوگی؟ اسی طرح یہ کرتوت حیا کو مکمل طور پر خاتمہ کر دیتا ہے اور حیا ہی دلوں کی حیات ہے، جب دل اسے گم کر بیٹھے تو غلط کو درست اور درست کو غلط سمجھنے لگتا ہے، اس وقت خرابی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح یہ کام طبیعتوں کو اس طریقے سے پھیر دیتا ہے، جس پر اللہ تعالی نے ان کی تخلیق کی ہے۔ یہ الٹی طبع ہے طبع الٹ جائے تو دل اور طور طریقہ بھی الٹ جاتا ہے۔ تب وہ برے اعمال و حالات کو اچھا خیال کرتا ہے اور اس کی حالت عمل اور کلام بلا اختیار خراب ہو جاتی ہے۔ فعل بد ایسی بے غیرتی اور جرات پیدا کرتا ہے، جو کسی اور کام سے پیدا نہیں ہوتی۔ نیز اس سے وہ رسوائی، ذلت اور حقارت پیدا ہوتی ہے، جو کسی اور کام سے نہیں ہوتی۔ یہ بندے کو غصے اور کینے کا لباس پہنا دیتی ہے اور لوگ اس کو ذلیل وحقیر سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ مشاہدات ہیں۔ اللہ تعالی اس نبی پر درود وسلام کرے، جس کی اتباع و پیروی میں دنیا و آخرت کی سعادت ہے اور جس کی مخالفت و نافرمانی میں دنیا و آخرت کی بربادی ہے۔
(زاد المعاد: 257/4)
❀ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
تؤتى مقبلة ومدبرة في الفرج
اگلی اور پچھلی دونوں جانب سے اگلی شرمگاہ میں ہی جماع کیا جائے گا۔
(السنن الكبرى للبيهقي: 197/7، وسنده صحيح)