ہماری دعوت !
اس پر تو تمام مسلمان مطلع ہیں کہ قابل عمل وعقیدہ صرف دو چیزیں ہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصل مستقل دلیلیں اور احکام شرعی کی روح صرف قرآن و صحیح حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت امت کو یہی وصیت کی کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامو گے گمراہ نہیں ہو گے ایک اللہ کی کتاب دوسری سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (موطا امام مالک)
مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے ہر کام کو ان دو چیزوں کی ماتحتی میں بجالائیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ(سورۃ الحشر : 7)
جو کچھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں دے لے لو اور جس چیز سے تمہیں روک دے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنْتُمْ تَسْمَعُونَ(سورۃ الانفال : 20)
اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور بات سن لینے کے بعد اس سے منہ نہ موڑو۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا :
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ(سورۃ النور : 56)
نماز قائم کرو زکوۃ دو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحمت کی جائے۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ (سورۃ النساء : 64)
ہم نے جو بھی رسول علیہ السلام بھیجا وہ اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔
ایک جگہ یوں فرمایا :
مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَنْ تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا(سورۃ النساء : 80)
جس نے رسول علیہ السلام کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے رسول علیہ السلام کی اطاعت سے منہ موڑا (اس کا وبال اسی پر ہوگا) ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر پاسبان بنا کر نہیں بھیجا۔
کہیں فرمایا :
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ(سورۃ آل عمران : 132)
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔
ایک جگہ فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا(سورۃ النساء : 59)
اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب امر ہوں پھر اگر تمہارے درمیان کبھی معاملہ میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ اگر تم واقعی اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریقہ ہے اور ثواب کے لحاظ سے بھی اچھا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانے کا مطلب قرآن پاک کی طرف رجوع کرنا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے کا مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حدیث مبارکہ ہے۔
اللہ کا فرمان ہے :
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا(سورۃ النساء:65)
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے رب کی قسم لوگ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے تمام باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو بھی فیصلہ تم کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سرخم تسلیم کریں۔
ایک جگہ فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ(سورۃ محمد : 33)
اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال ضائع نہ کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع ہی کامیابی کی ضمانت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے :
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ(سورۃ النور : 52)
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اللہ سے ڈریں اور اس کی نافرمانی سے بچیں وہی کامیاب ہیں۔
ایک مقام پر فرمایا :
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ(سورۃ النور : 51)
ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلائے جائیں تا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے معاملات کا فیصلہ کرے تو وہ کہہ دیں ہم نے بات سن لی اور اطاعت اختیار کی اور ایسے لوگ ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔
پھر فرمایا :
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا(سورۃ الاحزاب : 71)
جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔
چنانچہ رب تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورۃ النساء:13)
جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے اللہ اسے ایسی جنت میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق کیے گئے اعمال کا ہی بھر پور اجر ملے گا۔
ارشاد ہے :
وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ(سورۃ الحجرات:14)
اگر تم لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو گے تو تمہارے اعمال کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں کرے گا اللہ یقینا بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع گناہوں کی بخشش کا باعث ہے۔
ارشاد ربانی :
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْلَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ(سورۃ آل عمران : 31)
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو معاف کرے گا اور وہ بڑا معاف کرنے والا رحیم ہے۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے قیامت کے دن انبیاء علیہم السلام اور صدیقین شہدا رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہوں گے۔
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا(سورۃ النساء : 69)
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے انبیاء علیہم السلام صدیقین شہدا اور صالحین اور ان لوگوں کی رفاقت کتنی اچھی ہے۔
ایک جگہ یوں فرمایا :
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ(سورۃ آل عمران : 32)
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اگر لوگ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے منہ موڑیں اللہ یقیناً کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کرنا باعث انتشار ولڑائی ہے۔
ارشاد فرمایا :
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (سورۃ الانفال : 46)
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی صبر سے کام لو اللہ یقینا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے سامنے کسی مسلمان مرد اور عورت کو فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں چنا نچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا(سورۃ الاحزاب : 36)
کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر اسے اپنے معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نافرمان اپنے انجام کے خود ذمہ دار ہوں گے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا ۚ فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ(سورۃ المائدہ : 92)
اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے باز آجاؤ لیکن اگر تم نے حکم نہ مانا تو جان لو کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے علاوہ کوئی ذمہ نہیں۔
پھر فرمایا :
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۚ فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ(سورۃ التغابن : 12)
اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانو اور اگر نہ مانو گے تو یاد رکھو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر صاف صاف حق بات پہنچادینے کی ذمہ داری ہے۔
پھر فرمایا :
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ(سورۃ النور : 54)
کہہ دیجئے کہ اللہ کی اطاعت کرو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اگر نہیں کرتے تو خوب سمجھ لو کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جس کا بوجھ ڈالا گیا ہے وہ صرف اسی کا ذمہ دار ہے اور تم پر جس کا بوجھ ڈالا گیا ہے اس کے ذمہ دار تم ہو اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے ورنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ صاف صاف حکم پہنچادے۔
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والوں کی سزا جہنم کا عذاب ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَمَنْ يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا(سورۃ الفتح : 17)
جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے منہ پھیرے گا وہ اسے دردناک عذاب دے گا۔
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ(سورۃ النور : 63)
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہئے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر درد ناک عذاب نہ آجائے۔
ایک مقام پر فرمایا :
يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُولُونَ يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا ﴿٦٦﴾ وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا ﴿٦٧﴾ رَبَّنَا آتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيرًا(سورۃ الاحزاب : 66-68)
جب ان کے چہرے آگ میں الٹ پلٹ کئے جائیں گے اور وہ کہیں گے کاش ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا اے ہمارے رب تو انہیں دگنے عذاب میں مبتلا فرما اور ان پر بہت بڑی لعنت نازل فرما۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا(سورۃ النساء : 115)
اور جو شخص راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے مومنوں کے علاوہ راستے کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی طرف متوجہ کر دیں گے جس طرف وہ متوجہ ہوا اور ہم اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس چیز پر تھے اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :
فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ(سورۃ الزخرف : 43)
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کیا گیا ہے تو یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے راستے پر ہیں۔
شریعت سازی کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
چنانچہ ارشاد ربانی ہے :
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ(سورۃ الشورى : 21)
کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کیا جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔
پھر فرمایا :
اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (سورۃ الاعراف : 3)
اس کے پیچھے چلو جو تمہاری طرف رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اور اولیاء کے پیچھے مت چلو تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی سے بات نہیں کرتے وہی بات کرتے ہیں جو وحی کی جاتی ہے۔
چنانچہ ارشاد ہے :
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ(سورۃ النجم : 3-4)
اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کیا جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے چنانچہ فرمان ربانی ہے :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ(سورۃ الاحزاب : 21)
بلا شبہ تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔
جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبى قالوا يا رسول الله ومن يأبى قال من أطاعني دخل الجنة ومن عصاني فقد أبى(صحیح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة حديث : 7280)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری ساری امت جنت میں جائے گی۔ سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکار کون کرے گا فرمایا جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقے پر چلنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ(سنن ابو دائود کتاب السنة باب في لزوم السنة حديث : 4607)
تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھیں گے ایسے حالات میں میری سنت پر عمل کرنے کو لازم بنا لینا اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقے کو تھامے رکھنا اور اس پر مضبوطی سے جمے رہنا نیز دین میں پیدا کی گئی نئی نئی باتوں سے بچنا کیوں کہ دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اللہ نے دین کو مکمل کر دیا تھا اللہ کے کلام میں ہے کہ :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا(سورۃ المائدہ : 3)
آج میں نے تمہارے لیے دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا۔
حضرات گرامی اللہ تعالیٰ نے اسلام کی تکمیل دو چیزوں پر فرمائی کیوں کہ جب اللہ نے دین کی تکمیل کا اعلان فرمایا اس وقت مسلمانوں کے پاس دین خالص کتاب وسنت تھا ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک تھا پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کا ایک نکتہ اپنے ماننے والوں کو دے دیا اسلام ایک آفاقی دین ہے یہ اپنے ماننے والوں کی ہر موڑ پر رہنمائی کرتا ہے یہی ہماری دعوت ہے کہ قرآن وحدیث پر عمل کرو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اسی پر چلنا باعث نجات ہے اور دین میں نہ کمی کرو نہ اضافہ دونوں کام باعث ہلاکت ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن وسنت ہی پر چل کر کامیاب ہوئے اللہ نے ان سے راضی ہونے کا اعلان کیا آج بھی اگر کوئی خالص دین کتاب وسنت پر چلے گا تو وہ ناکام نہیں کامیاب ہوگا۔ ان شاء الله تعاليٰ
جنتی گروہ فرقہ ناجیہ کونسا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالشان ہے بنی اسرائیل بہتر گروہوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی :
كلهم فى النار الا ملة واحدة قالوا من هم يا رسول الله قال ما انا عليه واصحابي
سارے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک گروہ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا وہ کون ہے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اس چیز پر قائم ہوں جس پر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم۔
یہ بات یاد رکھیں کہ جنت فرقہ ناجیہ کو ہی ملے گی اور فرقہ ناجیہ وہ ہے جو اس چیز پر قائم ہو جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قائم تھے اللہ تعالی سارے مسلمانوں کو قرآن و سنت و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔آمين
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمدﷺ کا تمہیں پاس نہیں
میں حیران ہوتا ہوں!!
کچھ لوگ بدعات کی ترویج کے لیے مال و متاع خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ بدعات کے لیے دوسرے لوگوں سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں جو بدعات کا ارتکاب نہیں کرتے ان پر بے ادب و گستاخ ہونے کے فتوے داغے جاتے ہیں اور ان کے خلاف ہر طرح کا پروپیگنڈا کرنا اپنی کامیابی و کامرانی کا باعث خیال کرتے ہیں مگر جو بات قرآن وسنت کے صریحی نصوص سے صحیح احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے اس کو نہیں مانتے ایک ایک مسئلہ سینکڑوں احادیث مبارکہ موجود ہونے کہ باوجود نہیں مانتے کچھ لوگ تو اپنی کم علمی اور جہالت کی وجہ سے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے ہیں اور کچھ جان بوجھ کر مسلکی تعصب اور ضد میں آکر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہیں مثلا :
رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أن رسول الله كان يرفع يديه حذو منكبيه إذا افتتح الصلوة وإذا كبر للركوع وإذا رفع رأسه من الركوع رفعهما كذلك(صحیح بخاری کتاب الاذان باب رفع اليدين حديث : 735، مسلم : 390)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے تھے۔
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ماہ رجب سن 9 ہجری میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور علم دین سیکھا اور جب واپس جانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ جاو انہیں دین سکھاؤ اور انہیں اسلامی احکام پر عمل کرنے کا حکم دو اور اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (بخاری کتاب الادب باب رحمة الناس والبهائم حديث : 6008)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انہیں اپنے قبیلہ کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نماز سکھانے اور پڑھانے کا حکم دیا تھا چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
أن رسول الله كان إذا كبر رفع يديه حتى يحاذي بهما أذنيه وإذا ركع رفع يديه حتى يحاذي بهما أذنيه وإذا رفع رأسه من الركوع فقال سمع الله لمن حمده فعل مثل ذلك(صحیح مسلم شریف کتاب الصلوة، باب استحباب رفع اليدين حديث: 391)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ کے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھاتے تھے اور جب رکوع جاتے تو بھی کانوں تک ہاتھ اٹھاتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع الله لمن حمده کہتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے۔
پاس انہیں گر اپنا ذرا ہو جان اپنی ان پہ فدا ہو
کرتے ہیں نافرمانیاں اور کہتے ہیں نافرماں ہمیں
سیدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
صليت خلف أبى بكر الصديق فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلوة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع وقال أبو بكر صليت خلف رسول الله فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلوة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع(السنن الكبرى بيهقى : 73/2)
میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ رفع الیدین کرتے تھے جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین کرتے تھے جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے۔
اس کے راوی ثقہ ہیں۔ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا ورجالہ ثقات اس کے روائی ثقہ ہیں۔ التلخيص الخبير ج 1 ص 219 حدیث 328
عن أبى قلابة أنه رأى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه وإذا أراد أن يركع رفع يديه وإذا رفع رأسه من الركوع رفع يديه وحدث أن رسول الله صنع هكذا(صحیح بخاری شریف ج 1 باب رفع الیدین حدیث : 737)
حضرت ابو قلابہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ صحابی کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع الیدین کرتے پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت بھی رفع الیدین کرتے پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی رفع الیدین کرتے اور انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
رأيت رسول الله إذا قام فى الصلوة رفع يديه حتى تكونا حذو منكبيه وكان يفعل ذلك حين يكبر للركوع ويفعل ذلك إذا رفع رأسه من الركوع ويقول سمع الله لمن حمده ولا يفعل ذلك فى السجود(صحیح بخاری باب رفع اليدين ج 1 حديث : 736)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر تحریمہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھ اس وقت مونڈھوں تک اٹھے اور اس طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے لیے تکبیر کہتے اس وقت بھی رفع الیدین کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے اس وقت بھی رفع الیدین کرتے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے سمع الله لمن حمده البته سجدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
قارئین محترم خوف طوالت کی وجہ سے میں نے صرف چند ہی احادیث مبارکہ بطور نمونہ پیش کی ہیں وگرنہ احادیث رفع یدین آثار کی تعداد چارسو سے زائد ہے۔
کچھ لوگوں نے ایک جھوٹی بات اپنی طرف سے گھڑی ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لوگ بغلوں میں بت رکھ کر نماز پڑھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا تا کہ ان کے بت گر جائیں یہ کوئی حدیث نہیں بلکہ حدیث کی کسی کتاب میں اس بہتان عظیم کا ثبوت نہیں ملتا یہ جاہل قسم کے لوگوں کی گھڑی ہوئی ایک گپ ہے۔
میرے ہمراہ اک منزل پلٹ چلنا گوارہ کر
نزاع کفر و ایمان کے نتائج کا نظارہ کر
آخری گزارش!
قارئین محترم توحید کا عقیدہ ایک ایسا ضروری اور بنیادی عقیدہ ہے اس کے بغیر باقی تمام عقائد کا اور اعمال و عبادات کا کوئی فائدہ نہیں اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو شروع سے ہی عقیدہ توحید کا درس دیں تا کہ وہ شرک کی غلاظت سے بچ سکیں۔
تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا نقطہ آغاز توحید تھا سب نے توحید کی خاطر مشرکین سے ماریں کھائیں دین اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پورا ہو چکا۔ جو کوئی بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین یعنی کسی اور کا طریق پسند کرے گا تو ہرگز اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جائے گا اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل یہ ہے کہ اس کے بندے اسلام کے دائرہ عمل ہی میں رہیں اس سے باہر نکلیں نہ ہی کسی دوسرے دین کی محبت دل میں رکھیں اور نہ کسی اور کا راستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے کے سوا اختیار کریں۔ اس لیے کہ اللہ جس دین کو حق بتاتا ہے وہ دین اسلام ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے :
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ
یعنی اللہ کے نزدیک جو دین ہے وہ اسلام ہی ہے۔
اسلام وہ آسمانی قانون اور شریعت ہے جسے اللہ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی مخلوق کے لیے بنایا ہر نبی اور رسول علیہم السلام نے لوگوں کو اسلام ہی کی دعوت دی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ آج تمہارا دین مکمل کر دیا گیا اور تم پر اپنی نعمت مکمل کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا ہے۔ اب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل کریں اور ان کے مخالف ان باتوں کاموں اور رسوم ورواج اور تہوار نہ اپنائیں جن کا ثبوت قرآن وحدیث سے نہ ملتا ہو اس بات کو اسلام کے دائرہ عمل میں رہنا کہتے ہیں جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرے گا اس کا عمل اللہ کی بارگاہ میں مردود ہوگا لہذا وہ لوگ غور وفکر کریں جنہوں نے آج اللہ کے پسندیدہ دین میں اپنی من مانیاں شروع کر رکھی ہیں سینکڑوں امورا ایسے انجام دے رہے ہیں جن کی دلیل اللہ کے قرآن سے ملتی ہے نہ ہی سنت واحادیث مبارکہ میں ان کا ثبوت ملتا ہے کچھ مولوی حضرات نے اپنے ذاتی قیاسات کی بنا پر شکم پروری کے لیے خود ساختہ دلائل گھڑ رکھے ہیں جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد میں ان باتوں کا ثبوت ملتا ہے لوگوں کی کم علمی اور جہالت کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں کیا دین کے نام پر اپنائی جانے والی یہ بدعات دین میں اضافہ نہیں اگر نہیں ہیں تو قرآن وحدیث سے ان کا ثبوت پیش کیا جائے وگرنہ ان سے پوری طرح اجتناب کیا جائے۔ اس لیے کہ یہ بات کسی مسلمان کے شایان شان نہیں کہ وہ جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتا ہو اور پھر اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری بھی نہ کرتا ہو اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی بجائے اوروں کی راہوں پر چلتا ہو اس کی سنت سے محبت کی بجائے نفرت کرتا ہو۔
جیسے بعض متعصب قسم کے جاہل لوگ اگر کسی کو رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھتا دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ کیا مکھیاں اڑا رہے ہو کوئی کہتا ہے کان جھاڑ رہے ہو کوئی کہتا ہے تم اڑنے لگے ہو الغرض جی بھر کر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہیں اور دعوی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔
سنت کا مذاق اڑاتے ہیں اور بدعات پر عمل پیرا ہونے میں فخر و خوشی محسوس کرتے ہیں اور بدعات کا ارتکاب نہ کرنے والے مواحد مسلمانوں پر طعن کرتے ہوئے ان پر گستاخ و بے ادب ہونے کے فتوے لگاتے ہیں یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اللہ سے نہیں ڈرتے کچھ کہتے ہیں کہ چار امام برحق ہیں اور عوام پر ان کی تقلید کرنا واجب ہے۔ ان چاروں حضرات کا ہم ادب و احترام کرتے ہیں لیکن ان کے درجہ امامت پر فائز ہونے اور عوام پر ان کی تقلید کے واجب ہونے کی کوئی دلیل قرآن وحدیث سے نہیں ملتی ہے قرآن وحدیث ہی اصل دین اور دین کا منبع ہیں جب قرآن وحدیث سے ہم کسی بات کو پالیں تو پھر کسی تاویل کی گنجائش نہیں رہتی اور جب قرآن وحدیث میں ہمیں کسی بات کا ثبوت نہیں ملتا تو پھر اسے تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش ہمارے پاس نہیں اس لیے کہ ہم شریعت کے تابعدار ہیں شریعت ساز نہیں ہیں ان تمام بدعات کے ترک کر دینے ہی سے اسلام کی وہ اصلی شکل بحال ہو سکے گی جو اس کی دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد مبارک اور تابعین رحمہم اللہ کے دور میں تھی اسی نیک خواہش کو سینے میں رکھ کر میں نے یہ کتاب مرتب کی ہے تا کہ میرے بھولے بھالے مسلمان بھائی جو قلت تدبر کی وجہ سے قرآن وسنت سے دور اور بدعات میں گم ہو کر سنت کو بھول چکے ہیں۔ ان کو قرآن وسنت کے نصوص صریحہ دلائل پیش کر کے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر چلانا مقصود ہے ہمارا کسی پر زور نہیں مگر دعوت قرآن و سنت دینا ہر مسلمان کا حق ہے میں نے اس دعوت توحید وسنت کو اپنے فہم کے مطابق پیش کر دیا ہے اور توحید وسنت کا آئینہ دکھا دیا ہے تمام مسلمان بھائی ضد و تعصب کو چھوڑ کر خالی ذہن کر کے فہم قرآن سنت کے لیے اپنے دماغ میں جگہ بنائیں آخر میں یہی دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ میں نے مسائل کو کھول کر بیان کر دیا ہے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کی ہے جو اپنے نفس کی كما حقه قدر کرتا ہے وہ اللہ کو اپنا رب مانتا ہے اور اسلام کو اپنا دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی اور رسول تسلیم کرتا ہے۔
اے اللہ تو گواہ ہو رہنا۔
اللہ تعالٰی سے یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے، ہم سے اور ان سے مصائب و مشکلات دور فرمائے ہم سب کو مکارو چالبازوں کے شر سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے سامنے پیش ہونے تک اسلام پر ثابت قدم رکھے مجھے قول و عمل میں اخلاق میں درستی سے نوازے میرے والدین بیوی بچوں اور میرے مشائخ اور مسلک حق کے غیور دوستوں کو معاف فرمائے تمام زندہ اور فوت شدہ مسلمانوں کی بخشش فرمائے۔
ہمارے بچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے سچی محبت نصیب فرمائے۔ اور جنت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نصیب فرمائے۔ تمام مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلائے مکمل دین پر مکمل یقین نصیب فرمائے۔آمين ثم آمين يارب العالمين
مسلمانوں کے کمزور عقائد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا !
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرک نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ھرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد