سوال:
تلقین کس وقت کی جائے؟
جواب:
امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ یہ تلقین اس وقت کی جائے گی، جب انسان موت کے قریب ہو، نہ کہ بعد المرگ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک عمل اسی پر دال ہے۔
❀ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کی تیمارداری کے لیے گئے، فرمایا: ماموں جان! لا إله إلا الله پڑھ لیجیے، کہا: ماموں یا چچا؟ فرمایا: ماموں! کہا: كيا لا إله إلا الله کہنا میرے لیے خیر کا پیغام لائے گا؟ فرمایا: جی ہاں۔
(مسند الإمام أحمد: 3/268، وسندہ صحیح)
❀ امام ترمذی رحمہ اللہ (279ھ) باب قائم کرتے ہیں:
باب ما جاء فى تلقين المريض عند الموت، والدعاء له عنده
موت کے وقت مریض کو تلقین اور اس کے لیے دعا کا بیان۔
❀ نیز لکھتے ہیں:
موت کے وقت مریض کو لا إله إلا الله کی تلقین مستحب ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ایک دفعہ تلقین کے بعد جب تک قریب المرگ دوبارہ کلام نہ کرے، اسے تلقین نہیں کرنی چاہیے، تلقین میں زیادتی بھی نہیں کرنی چاہیے۔
(سنن الترمذی، تحت الحدیث: 977)
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ (354ھ) نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے:
ذكر الأمر بتلقين الشهادة من حضرته المنية
قریب المرگ کو لا إله إلا الله کی تلقین کا حکم ہے۔
(صحیح ابن حبان، قبل الحدیث: 3003)
❀ علامہ ابوالعباس قرطبی رحمہ اللہ (656ھ) لکھتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: مرنے والوں کو لا إله إلا الله کی تلقین کریں، کا مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت انہیں یاد دلائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب المرگ کو مردہ کہہ دیا ہے، کیونکہ موت اس کے پاس حاضر ہو چکی ہوتی ہے، مرنے والوں کو اس کلمہ کی تلقین کرنا سنت ماثورہ ہے، اس پر امت مسلمہ کا عمل رہا ہے، تلقین کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والے کا آخری کلام لا إله إلا الله ہو جائے، یوں اسی کلمہ پر اس کا خوش بختی کے ساتھ خاتمہ ہو اور فوت ہونے والا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی فرمان میں داخل ہو جائے کہ جس (موحد، صالح) کی آخری کلام لا إله إلا الله ہوگی، وہ جنت میں داخل ہوگا۔
(المفهم: 2/569-570، وانظر: زهر الربى للسيوطي: 514)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) لکھتے ہیں:
مطلب یہ کہ قریب المرگ انسان کو لا إله إلا الله یاد کروائیں، تا کہ یہ اس کا آخری کلام ہو، حدیث میں آتا ہے: جس کا آخری کلام لا إله إلا الله ہو گا، وہ جنتی ہے۔
(سنن أبی داود: 3112، وسندہ حسن، اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (405ھ) (1/351) نے صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) نے ان کی موافقت کی ہے، حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ (804ھ) (البدر المنير: 5/189) بھی اسے صحیح قرار دیتے ہیں)
تلقین کرنے کا حکم استحبابی ہے، اس طریقہ تلقین پر علما کا اجماع ہے۔
❀ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
المراد الذى قرب من الموت
مراد قریب المرگ انسان ہے۔
(الهداية، ص 136، كتاب الجنائز)
❀ ہدایہ کے مخشی لکھتے ہیں:
دفع لوهم من يتوهم أن المراد به قراءة التلقين على القبر
جو سمجھتا ہے کہ تلقین قبر پر ہوگی، صاحب ہدایہ اس کا وہم دور کرنا چاہتے ہیں۔
(شرح صحیح مسلم: 1/300)
❀ علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ (1138ھ) لکھتے ہیں:
مراد قریب المرگ ہے، نہ کہ وہ جو فوت ہو چکا ہے، تلقین کا طریقہ یہ ہے کہ اسے کلمہ کا حکم نہ کیا جائے، بلکہ اس کے پاس بیٹھ کر کلمہ کا ذکر کیا جائے، بہت سے علما نے قبر پر تلقین کو بدعت قرار دیا ہے، تلقین سے مقصود ہے کہ مرنے والے کا خاتمہ کلمہ توحید پر ہو، اسی لیے جب وہ ایک مرتبہ لا إله إلا الله کہہ دے، تو دوبارہ تلقین نہ کی جائے، جب تک کہ وہ کوئی دوسری بات نہ کر لے۔
(حاشية السندي على النسائي: 4/5، تحت الحديث: 1827)
اہل علم کی تصریحات سے معلوم ہوا کہ لا إله إلا الله کی تلقین قریب المرگ کو کی جائے گی، نہ کہ مدفون میت کو۔ اس بات کو سمجھیے اور التباس کا شکار نہ ہو جائیے۔