دین میں تقلید کا مسئلہ
الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:
اہل حدیث اور اہل تقلید کے درمیان ایک بنیادی اختلاف: مسئلہ تقلید ہے۔ اس مضمون (کتاب) میں مسئلہ تقلید کا جائزہ اور آخر میں ماسٹر محمد امین اوکاڑوی دیوبندی صاحب کے شبہات و مغالطات کا جواب پیش خدمت ہے۔
تقلید پر بحث کرنے سے پہلے اس کا مفہوم جاننا انتہائی ضروری ہے۔
تقلید کا لغوی معنی:
لغت کی ایک مشہور کتاب معجم الوسیط میں لکھا ہوا ہے:
و__(قلد) فلانا: اتبعه فيما يقول أو يفعل، من غير حجة ولا دليل
ترجمہ: اور فلاں کی تقلید کی بغیر حجت اور دلیل کے اس کے قول یا فعل کی اتباع کی۔
(ص 754، مطبوعہ دارالدعوة، مؤسسة ثقافیة استنبول ترکی)
دیوبندیوں کی لغت کی مستند کتاب "القاموس الوحید” میں لکھا ہوا ہے:
قلد.. فلانا: تقلید کرنا بلا دلیل پیروی کرنا، آنکھ بند کر کے کسی کے پیچھے چلنا
(ص 1346، مطبوعہ: ادارہ اسلامیات لاہور، کراچی)
والتقليد: بے سوچے سمجھے یا بے دلیل پیروی (2) نقل (3) سپردگی
(القاموس الوحید ص 1346)
مصباح اللغات میں لکھا ہوا ہے:
وقلده فى كذا: اس نے اس کی فلاں بات میں بغیر غور و فکر کے پیروی کی
(ص 701)
عیسائیوں کی المنجد میں ہے:
قلده فى كذا: کسی معاملے میں بلا غور و فکر کسی کی پیروی کرنا
(المسجد، عربی اردو ص 831، مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)
حسن اللغات (جامع) فارسی اردو میں لکھا ہوا ہے:
بے دلیل کسی کی پیروی کرنا (ص 216)
جامع اللغات اردو میں ہے:
تقلید:پیروی کرنا، قدم بقدم چلنا، بغیر تحقیق کے کسی کی پیروی کرنا۔
(ص 166، مطبوعہ: دارالاشاعت کراچی)
لغت کی ان تعریفات و تشریحات کا خلاصہ یہ ہے کہ (دین میں) بے سوچے سمجھے، آنکھیں بند کر کے، بغیر دلیل، بغیر حجت اور بغیر غور و فکر کسی شخص کی (جو نبی نہیں ہے) پیروی و اتباع کرنا تقلید کہلاتا ہے۔
تنبیہ: لغت میں تقلید کے اور بھی معانی ہیں، تاہم دین میں تقلید کا یہی مفہوم ہے جو اوپر بیان کر دیا گیا ہے۔
تقلید کا اصطلاحی معنی:
حنفیوں کی معتبر کتاب مسلم الثبوت میں لکھا ہوا ہے:
التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي والمجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبى عليه الصلوة والسلام أو إلى الإجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لا يجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد، قال الإمام: وعليه معظم الأصوليين إلخ
تقلید: (نبی عليه الصلوة والسلام کے علاوہ) غیر (یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام ہے)۔ جیسے عامی (جاہل) اپنے جیسے عامی اور مجتہد دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔ پس نبی عليه الصلوة والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید میں سے نہیں ہے) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔ امام (امام الحرمین: من الشافعية) نے کہا: اور اسی (تعریف) پر علم اصول کے عام علماء (متفق) ہیں۔ إلخ
(مسلم الثبوت ص 289، طبع 1316، در فواتح الرحموت ج 2 ص 400)
حنفیوں کی معتبر کتاب فواتح الرحموت میں لکھا ہوا ہے:
(فصل: التقليد العمل بقول الغير من غير حجة) متعلق بالعمل والمراد بالحجة حجة من الحجج الأربع وإلا فقول المجتهد دليله وحجته (كأخذ العامي) من المجتهد (و) أخذ المجتهد من مثله فالرجوع إلى النبى عليه وآله وأصحابه الصلوة والسلام أو إلى الإجماع ليس منه فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول (ليس هذا الرجوع نفسه تقليدا وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليدا (لا يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) بالرجوع إليه (قال الإمام) إمام الحرمين (وعليه معظم الأصوليين) وهو المشتهر المعتمد عليه إلخ
فصل: تقلید غیر (غیر نبی) کے قول پر بغیر حجت کے عمل کو کہتے ہیں۔ یہ عمل سے متعلق ہے اور حجت سے (شرعی) ادلہ اربعہ مراد ہیں ورنہ اس (عامی) کے لئے تو مجتہد کا قول دلیل اور حجت ہوتا ہے۔ (جیسے عامی مجتہد سے اور مجتہد دوسرے مجتہد سے لے کر عمل کرے) پس نبی عليه الصلوة والسلام اور اجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے کیونکہ یہ دلیل کی طرف رجوع ہے اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف اور قاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ تقلید نہیں ہے اگرچہ بعد والوں نے اس عمل کو تقلید قرار دیا ہے۔ لیکن اس (تقلید نہ ہونے والے عمل) کا وجوب دلیل سے ثابت ہے لہذا یہ دلیل پر عمل ہے، غیر نبی کے قول پر عمل نہیں ہے لیکن (عوام کا) یہ عرف ہے کہ عامی مجتہد کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے اس کا مقلد ہے۔ امام الحرمین نے کہا: عام علمائے اصول اس پر ہیں (کہ یہ تقلید نہیں ہے) اور یہ بات قابل اعتماد (و) مشہور ہے۔
(فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت فی اصول الفقه ج 2 ص 400)
ابن ہمام حنفی (متوفی 861ھ) نے لکھا ہے:
مسألة: التقليد العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج بلا حجة منها فليس الرجوع إلى النبى عليه الصلوة والسلام والإجماع منه
مسئله: تقلید اس شخص کے قول پر بغیر دلیل کے عمل کو کہتے ہیں جس کا قول (چار) دلائل میں سے نہیں ہے، پس نبی عليه الصلوة والسلام اور اجماع کی طرف رجوع تقلید میں سے نہیں ہے۔
(تحریر ابن ہمام فی علم الاصول ج 3 ص 453)
اس کی تشریح کرتے ہوئے ابن امیر الحاج (حنفی، متوفی 879ھ) نے لکھا ہے:
مسألة: التقليد العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج) الأربع الشرعية (بلا حجة منها فليس الرجوع إلى النبى والإجماع منه) أى من التقليد، على هذا لأن كلا منهما حجة شرعية من الحجج الأربع، وكذا ليس منه على هذا عمل العامي بقول المفتي وعمل القاضي بقول العدول لأن كلا منهما وإن لم يكن إحدى الحجج فليس العمل به بلا حجة شرعية لا يجاب النص أخذ العامي بقول المفتي، وأخذ القاضي بقول العدول
(کتاب التقرير والتحمير في علم الاصول ج 3 ص 453، 454)
تنبیہ: اس کلام کے ترجمے کا خلاصہ بھی وہی ہے جو سابقہ عبارت کا ہے (دیکھئے ص 109) یعنی نبی عليه الصلوة والسلام کی طرف رجوع تقلید نہیں ہے۔
قاضی محمد اعلی تھانوی حنفی (متوفی 1191ھ) نے لکھا ہے:
التقليد… الثاني العمل بقول الغير من غير حجة وأريد بالقول ما يعم الفعل والتقرير تغليبا ولذا قيل فى بعض شروح الحسامي التقليد اتباع الإنسان غيره فيما يقول أو يفعل معتقدا للحقية من غير نظر إلى الدليل كان هذا المتبع جعل قول الغير أو فعله قلادة فى عنقه من غير مطالبة دليل كأخذ العامي والمجتهد بقول مثله أى كأخذ العامي بقول العامي وأخذ المجتهد بقول المجتهد وعلى هذا فلا يكون الرجوع إلى الرسول عليه الصلوة والسلام تقليدا له وكذا إلى الإجماع وكذا رجوع العامي إلى المفتي أى إلى المجتهد وكذا رجوع القاضي إلى العدول فى شهادتهم لقيام الحجة فيها فقول الرسول بالمعجزة والإجماع بما تقرر من حجته وقول الشاهد والمفتي بالإجماع إلخ
(کشاف اصطلاحات الفنون ج 2 ص 1178)
تنبیہ: اس قول کا بھی یہی خلاصہ ہے کہ رسول اللہ عليه الصلوة والسلام اور اجماع کی طرف رجوع تقلید نہیں ہے اور اسی طرح عامی کا مجتہد کی طرف اور قاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے۔
علی بن محمد بن علی الجرجانی حنفی (متوفی 816ھ) نے کہا:
التقليد عبارة عن قبول قول الغير بلا حجة ولا دليل
ترجمہ: تقلید عبارت ہے (رسول اللہ عليه الصلوة والسلام کے علاوہ) غیر کے قول کو بغیر حجت و بغیر دلیل کے قبول کرنا۔
(کتاب التعريفات ص 29)
محمد بن عبد الرحمن عید المحلاوی اشتفی نے کہا:
التقليد… وفي الإصطلاح هو العمل بقول الغير من غير حجة من الحجج الأربع فيخرج العمل بقول الرسول عليه الصلوة والسلام والعمل بالإجماع لأن كلا منهما حجة وخرج أيضا رجوع القاضي إلى شهادة العدول لأن الدليل عليه ما فى الكتاب والسنة من الأمر بالشهادة والعمل بها وقد وقع الإجماع على ذلك
(تسهيل الوصول إلى علم الاصول ص 325)
تنبیہ: اس عبارت کا بھی یہی مفہوم ہے کہ رسول اللہ عليه الصلوة والسلام، اہل علم اور اجماع کی طرف رجوع اور قاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ تقلید نہیں ہے۔
محمد عبید اللہ الاسعدی نے کہا:
تقلید (الف) تعریف :
لغوی : گلے میں کسی چیز کا ڈالنا
اصطلاحی: کسی کی بات کو بے دلیل مان لینا
تقلید کی اصل حقیقت یہی ہے لیکن فقہاء کے نزدیک اس کا مفہوم ہے کسی مجتہد کے تمام یا اکثر اصول و قواعد یا تمام یا اکثر جزئیات کا اپنے آپ کو پابند بنالینا۔
(اصول الفقه ص 26، اس کتاب پر محدث تقی عثمانی دیوبندی صاحب نے تقریظ لکھی ہے)
قاری چین محمد دیوبندی نے لکھا ہے:
اور تسلیم القول بلا دلیل یہی تقلید ہے یعنی کسی قول کو بلا دلیل تسلیم کرنا، مان لینا ہی تقلید ہے۔
(غیر مقلدین سے چند معروضات، معروضہ نمبر از مطبوعہ: جمعیت اشاعت التوحید والسنة، موضع حمید انزو، حضرو، ضلع اٹک)
مفتی سعید احمد پالن پوری دیوبندی نے لکھا ہے:
”کیونکہ تقلید کسی کا قول اس کی دلیل جانے بغیر لینے کا نام ہے۔ علماء نے فرمایا: کہ اس تعریف کی رو سے امام کے قول کو دلیل جان کر لینا تقلید سے خارج ہو گیا۔ کیونکہ وہ تقلید نہیں ہے بلکہ دلیل سے مسئلہ اخذ کرنا ہے۔ مجتہد سے مسئلہ اخذ کرنا نہیں ہے۔ “
(آپ فتویٰ کیسے دیں؟ ص 76، مطبوعہ: مکتبہ نعمانیہ 36 جی لانڈھی، کراچی نمبر 3)
اشرف علی تھانوی دیوبندی کے ملفوظات میں لکھا ہوا ہے:
ایک صاحب نے عرض کیا کہ تقلید کی حقیقت کیا ہے اور تقلید کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا: تقلید کہتے ہیں امتی کا قول ماننا بلا دلیل، عرض کیا کہ کیا اللہ اور رسول کے قول کو ماننا بھی تقلید کہلائے گا؟ فرمایا: اللہ اور رسول کا حکم ماننا تقلید نہ کہلائے گا وہ اتباع کہلاتا ہے۔
(الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ ملفوظات حکیم الامت ج 3 ص 159، الملفوظ: 228)
سرفراز خان صفدر دیوبندی لگھڑوی لکھتے ہیں: اس عبارت سے واضح ہوا کہ اصطلاحی طور پر تقلید کا یہ مطلب ہے کہ جس کا قول حجت نہیں اس کے قول پر عمل کرنا مثلاً عامی کا عامی کے قول اور مجتہد کا مجتہد کے قول کو لینا جو حجت نہیں ہے۔ بخلاف اس کے کہ آنحضرت عليه الصلوة والسلام کے فرمان کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے کیونکہ آپ کا فرمان تو حجت ہے اور اسی طرح اجماع بھی حجت ہے اور اسی طرح عام آدمی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا «فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ» (16-النحل:43) کے تحت واجب ہے اور اسی طرح قاضی کا «مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ» اور «يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ» کی نصوص کے تحت عدول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں ہے کیونکہ شرعاً ان کا قول حجت ہے۔
(الکلام المفید فی اثبات التقلید ص 35، 36، طبع صفر المظفر 1413ھ)
مفتی احمد یار نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:
و مسلم الثبوت میں ہے: التقليد العمل بقول الغير من غير حجة ترجمہ وہی جو اوپر بیان ہوا اس تعریف سے معلوم ہوا کہ حضور عليه الصلوة والسلام کی اطاعت کرنے کو تقلید نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ ان کا ہر قول و فعل دلیل شرعی ہے تقلید میں ہوتا ہے۔ دلیل شرعی کو نہ دیکھنا لہذا ہم حضور عليه الصلوة والسلام کے امتی کہلائیں گے نہ کہ مقلد۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و ائمہ دین حضور عليه الصلوة والسلام کے امتی ہیں نہ کہ مقلد اسی طرح عالم کی اطاعت جو عام مسلمان کرتے ہیں اس کو بھی تقلید نہ کہا جائے گا کیونکہ کوئی بھی ان عالموں کی بات یا ان کے کام کو اپنے لئے حجت نہیں بناتا، بلکہ یہ سمجھ کر ان کی بات مانتا ہے کہ مولوی آدمی ہیں کتاب سے دیکھ کر کہہ رہے ہوں گے۔
(جاء الحق ج ا ص 6، طبع قدیم)
غلام رسول سعیدی بریلوی نے لکھا ہے:
تقلید کے معنی ہیں دلائل سے قطع نظر کر کے کسی امام کے قول پر عمل کرنا اور اتباع سے یہ مراد ہے کہ کسی امام کے قول کو کتاب و سنت کے موافق پا کر اور دلائل شرعیہ سے ثابت جان کر اس قول کو اختیار کر لینا۔
(شرح صحیح مسلم ج 5 ص 63، مطبوعہ: فرید بک سٹال لاہور)
سعیدی صاحب نے مزید لکھا ہے:
شیخ ابو اسحاق نے کہا: بلا دلیل قول کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا تقلید ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ عليه وآله وسلم کے قول کی طرف رجوع کرنا یا مجتہدین کے اجماع کی طرف رجوع کرنا یا عام آدمی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا یا قاضی کا گواہوں کے قول پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے۔
(شرح صحیح مسلم ج 3 ص 329)
سعیدی صاحب مزید لکھتے ہیں:
امام غزالی نے لکھا ہے کہ«التقليد هو قبول قول بلا حجة»: تقلید کسی قول کو بلا دلیل قبول کرنا ہے۔
(شرح صحیح مسلم ج 3 ص 330)
سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
تقلید کی جس قدر تعریفات ذکر کی گئی ہیں ان سب میں یہ بات مشترک ہے کہ دلیل جانے بغیر کسی کے قول پر عمل کرنا تقلید ہے۔
(ایضا ص 330)
سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:
اور یہ طے شدہ بات ہے کہ اقتداء و اتباع اور چیز ہے اور تقلید اور چیز ہے۔
(المنهاج الواضح یعنی راہ سنت ص 35، طبع نہم جمادی الثانی 1395ھ، جون 1975ء)
تنبیہ: اس طے شدہ بات کے خلاف سرفراز خان صاحب نے خود ہی لکھا ہے کہ: تقلید اور اتباع ایک ہی چیز ہے۔
(الکلام المفید فی اثبات التقلید ص 32)
معلوم ہوا کہ وادی تناقض و تعارض میں سرفراز خان صاحب غوطہ زن ہیں۔
خلاصہ:
حنفیوں و دیوبندیوں و بریلویوں کی ان تعریفات و تشریحات سے ثابت ہوا:
① آنکھیں بند کر کے، بے سوچے سمجھے بغیر دلیل اور بغیر حجت کے کسی غیر نبی کی بات ماننا تقلید ہے۔ قرآن، حدیث اور اجماع پر عمل کرنا تقلید نہیں ہے۔
② جاہل کا عالم سے مسئلہ پوچھنا اور قاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے۔ تقلید اور اتباع بالدلیل میں فرق ہے۔
③ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (متوفی 463ھ) فرماتے ہیں:
«وجملته أن التقليد هو قبول القول من غير دليل»
ترجمہ: بغیر دلیل کے قول کو قبول کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔
(الفقيه والمتفقه ج 2 ص 66)
حافظ ابن عبدالبر (متوفی 463ھ) لکھتے ہیں:
وقال أبو عبد الله بن خويز منداد البصري المالكي: التقليد معناه فى الشرع الرجوع إلى قول لا حجة لقائله عليه وذلك ممنوع منه فى الشريعة، والإتباع ما ثبت عليه حجة
شریعت میں تقلید کا معنی یہ ہے کہ ایسے قول کی طرف رجوع کرنا جس کے قائل کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ شریعت میں ممنوع ہے۔ جو (بات) دلیل سے ثابت ہو اسے اتباع کہتے ہیں۔
(جامع بیان العلم وفضله ج 2 ص 17، دوسرا نسخہ ج 2 ص 143 و اعلام الموقعین لابن القیم ج 2 ص 197، الرد علی من اخلد الی الارض و جعل ان الاجتهاد فی کل عصر فرض للسیوطی ص 123)
تنبیہ: سرفراز خان صفدر دیوبندی نے الديباج المذهب سے ابن خويز منداد (محمد بن احمد بن عبد الله، متوفی 390ھ تقریباً) پر جرح نقل کی ہے۔ (الکلام المفید ص 346، 33) عرض ہے کہ ابن خويز منداد اس قول میں منفرد نہیں ہے بلکہ حافظ ابن عبدالبر، حافظ ابن القیم اور علامہ سیوطی اس کے موافق ہیں۔ وہ اس کے قول کو بغیر کسی جرح سے نقل کرتے ہیں بلکہ سرفراز خان صفدر اپنے ایک قول میں ابن خويز منداد کے موافق ہیں، دیکھئے راہ سنت (ص 35)۔ دوسرے یہ کہ ابن خویز مذکور پر شدید جرح نہیں ہے بلکہ «ولم يكن بالجيد النظر ولا قوي الفقه» وغیرہ الفاظ ہیں۔ دیکھئے الدیباج المذہب (ص 363، ت 491) و لسان المیزان (291/5)۔ ابو الولید الباجی اور ابن عبد البر کا طعن بھی صریح نہیں ہے، دیکھئے تاریخ الاسلام للذہبی (ج 27 ص 217) والوافی بالوفیات للصفدی (39/2، ت 339)۔
ابن خويز منداد کے حالات درج ذیل کتابوں میں بھی ہیں: طبقات الفقهاء للشیرازی (ص 168)، ترتیب المدارك للقاضی عیاض (606/4)، معجم المؤلفين (75/3)۔
حنفی و بریلوی و دیوبندی حضرات ایسے لوگوں کے اقوال پیش کرتے ہیں جن کی عدالت و قوت پر بعض محدثین کرام کی شدید جرحیں ہیں
مثلاً:
(1) قاضی ابو یوسف (2) محمد بن الحسن الشیبانی (3) حسن بن زیاد اللؤلؤی (4) عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی وغیرہم دیکھئے میزان الاعتدال و لسان المیزان وغیرہا۔
جلال الدین محمد بن احمد احلی الشافعی (متوفی 864ھ) نے کہا:
والتقليد: قبول قول القائل بلا حجة، فعلى هذا قبول قول النبى (لا) يسمى تقليدا
اور تقلید یہ ہے کہ کسی قائل (غیر نبی) کے قول کو بغیر حجت کے تسلیم کیا جائے، پس اس طرح نبی (عليه الصلوة والسلام) کا قول تقلید نہیں کہلاتا۔
(شرح الورقات فی علم اصول الفقه ص 14)
ابن الحاجب النحوی المالکی (متوفی 646ھ) نے کہا:
فالتقليد العمل بقول غيرك من غير حجة وليس الرجوع إلى قوله صلى الله عليه وسلم وإلى الإجماع والعامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول بتقليد لقيام الحجة ولا مشاحة فى التسمية
پس تقلید، تیرے غیر کے قول پر بغیر حجت کے عمل (کا نام) ہے، اور آپ صلى الله عليه وسلم کے قول اور اجماع کی طرف رجوع تقلید نہیں ہے (اور اسی طرح) عامی کا مفتی کی طرف اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے کیونکہ اس پر دلیل قائم ہے اور تسمیہ (نام رکھنے) میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
(منتہی الوصول والامل فی علمی الاصول والجدل ص 218، 219)
علی بن محمد الآمدی الشافعی (متوفی 631ھ) نے کہا:
أما (التقليد) فعبارة عن العمل بقول الغير من غير حجة ملزمة.. فالرجوع إلى قول النبى عليه السلام وإلى ما أجمع عليه أهل العصر من المجتهدين ورجوع العامي إلى قول المفتي وكذلك عمل القاضي بقول العدول لا يكون تقليدا
تقلید عبارت ہے غیر کے قول پر بغیر حجت لازمہ کے عمل کرنا۔ پس نبی عليه السلام اور مجتہدین عصر کے اجماع کی طرف رجوع، عامی کا مفتی سے مسئلہ پوچھنا اور قاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے۔
(الاحکام فی اصول الاحکام ج 3 ص 227)
ابو حامد محمد بن محمد الغزالی (متوفی 505ھ) نے کہا:
التقليد هو قبول قول بلا حجة
تقلید، بلا دلیل کسی قول کو قبول کرنے کو کہتے ہیں۔
(المستصفى من علم الاصول ج 2 ص 387)
حافظ ابن القیم نے کہا:
«وأما بدون الدليل فإنما هو تقليد»
اور جو بغیر دلیل کے ہو وہ تقلید (کہلاتا) ہے۔
(اعلام الموقعین ج 1 ص 7)
عبد اللہ بن احمد بن قدامہ احنبلی نے کہا:
وهو فى عرف الفقهاء قبول قول الغير من غير حجة أخذا من هذا المعنى فلا يسمى الأخذ بقول النبى صلى الله عليه وسلم والإجماع تقليدا
اور یہ (تقلید) عرف فقہاء میں غیر کا قول بغیر حجت کے قبول کرنا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے نبی صلى الله عليه وسلم کا قول اور اجماع تسلیم کرنا تقلید نہیں کہلاتا۔
(روضة الناظر وجنة المناظر ج 2 ص 450)
ابن حزم الاندلسی الظاہری (متوفی 456ھ) نے کہا:
لأن التقليد على الحقيقة إنما هو قبول ما قاله قائل دون النبى صلى الله عليه وسلم بغير برهان، فهذا هو الذى أجمعت الأمة على تسميته تقليدا وقام البرهان على بطلانه
حقیقت میں تقلید، نبی صلى الله عليه وسلم کے علاوہ کسی شخص کی بات کو بغیر دلیل کے قبول کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ وہ تعریف ہے جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہوا ہے کہ تقلید سے کہتے ہیں۔ اور اس کے باطل ہونے پر دلیل قائم ہے۔
(الاحکام فی اصول الاحکام ج 6 ص 269)
حافظ ابن حجر العسقلانی (متوفی 852ھ) نے کہا:
وقد انفصل بعض الأئمة عن ذلك بأن المراد بالتقليد أخذ قول الغير بغير حجة، ومن قامت عليه حجة بثبوت النبوة حتى حصل له القطع بها، فمهما سمعه من النبى صلى الله عليه وسلم كان مقطوعا عنده بصدقه فإذا اعتقده لم يكن مقلدا لأنه لم يأخذ بقول غيره بغير حجة وهذا مستند السلف قاطبة فى الأخذ بما ثبت عندهم من آيات القرآن وأحاديث النبى صلى الله عليه وسلم فيما يتعلق بهذا الباب فآمنوا بالمحكم من ذلك وفوضوا أمر المتشابه منه إلى ربهم
ترجمہ: بعض اماموں نے اس سے (اس مسئلے کو) الگ کیا ہے کیونکہ تقلید سے مراد یہ ہے کہ غیر کے قول کو بغیر حجت (و دلیل) کے لیا جائے۔ اور اس پر نبوت کے ثبوت کے ساتھ حجت قائم ہو حتی کہ اسے یقین حاصل ہو جائے، پس اس نے نبی صلى الله عليه وسلم سے جو سنا وہ اس کے نزد یقیناً سچا ہے، پس اگر وہ یہ عقیدہ رکھے تو مقلد نہیں ہے کیونکہ اس نے غیر کے قول کو بغیر دلیل کے تسلیم نہیں کیا اور تمام سلف صالحین کا یہی پر اعتماد طریقہ کار ہے کہ اس باب میں قرآن و حدیث میں سے جو معلوم ہے اسے لیا جائے۔ پس وہ محکمات پر ایمان لائے اور متشابہات کا معاملہ اپنے رب کے سپرد کیا (کہ وہی بہتر جانتا ہے)۔
(فتح الباری ج 13 ص 351 تحت ح 7372)
حافظ ابن القیم لکھتے ہیں:
والتقليد ليس بعلم باتفاق أهل العلم
اہل علم کا اتفاق ہے کہ تقلید علم نہیں ہے۔
(اعلام الموقعین ج 2 ص 188)
خلاصہ:
حنفیوں و دیوبندیوں و بریلویوں و شافعیوں و مالکیوں و حنبلیوں و ظاہریوں اور شارحین حدیث کی ان تعریفات سے معلوم ہوا: تقلید کا مطلب یہ ہے کہ بغیر حجت و بغیر دلیل والی بات کو (بغیر سوچے سمجھے، اندھا دھند) تسلیم کرنا۔
(مقلدین کی) ایک چالاکی:
جدید دور میں دیوبندی و بریلوی حضرات یہ چالاکی کرتے ہیں کہ تقلید کا معنی ہی بدل دیتے ہیں تا کہ عوام الناس کو تقلید کا اصل مفہوم معلوم نہ ہو جائے۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں:
محمد اسماعیل سنبھلی نے کہا: کسی شخص کا کسی ذی علم بزرگ اور مقتدائے دین کے قول و فعل کو محض حسن ظن اور اعتماد کی بنا پر شریعت کا حکم سمجھ کر اس پر عمل کرنا اور عمل کرنے کے لئے اس مجتہد پر اعتماد کی بنیاد پر دلیل کا انتظار نہ کرنا اور دلیل معلوم ہونے تک عمل کو ملتوی نہ کرنا اصلاح میں تقلید کہلاتا ہے۔
(تقلید ائمہ اور مقام ابو حنیفہ ص 24، 25)
محمد زکریا کاندہلوی تبلیغی دیوبندی نے کہا: کیونکہ تقلید کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ فروعی مسائل فقہیہ میں غیر مجتہد کا مجتہد کے قول کو تسلیم کر لینا اور اس سے دلیل کا مطالبہ نہ کرنا اس اعتماد پر کہ اس مجتہد کے پاس دلیل ہے۔
(شریعت و طریقت کا تلازم ص 65)
محمد تقی عثمانی دیوبندی نے کہا: چنانچہ علامہ ابن ہمام اور علامہ ابن نجیم تقلید کی تعریف ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
التقليد العمل بقول من ليس قوله إحدى الحجج بلا حجة منها
(تیسیر التحریر لامیر بادشاہ البخاری ج 2 ص 246، مطبوعہ مصر 1355، وفتح الغفار شرح المنار لابن نجیم ج 2 ص 37، مطبوعہ مصر 1355ھ)
ترجمہ: تقلید کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کا قول تآخذ شریعت میں سے نہیں ہے اس کے قول پر دلیل کا مطالبہ کئے بغیر عمل کر لینا۔
(تقلید کی شرعی حیثیت ص 143، طبع ششم رجب 1413ھ)
اس ترجمہ اور حوالے میں دو چالاکیاں کی گئی ہیں:
اول:بلا حجة (بغیر دلیل) کا ترجمہ دلیل کا مطالبہ کئے بغیر کر دیا گیا ہے۔ اصل عبارت میں مطالبے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
دوم: باقی عبارت چھپائی گئی ہے جس میں یہ صراحت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم اور اجماع کی طرف رجوع، عامی کا مفتی (عالم) سے مسئلہ پوچھنا اور قاضی کا گواہوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا تقلید نہیں ہے۔
ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی نے کہا:
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ تقلید کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تقلید کہتے ہیں کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل کے موافق بتلا دے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔
(الاقتصاد ص 5)
تقلید کی اس تعریف کے مطابق راوی کی روایت کو قبول کرنا تقلید فی الروایة ہے۔
(تحقیق مسئلہ تقلید ص 3 و مجموعہ رسائل ج ا ص 19، طبع اکتوبر 1991ء)
محمد ناظم علی خان قادری بریلوی نے کہا:
قرآن کی آیات مجمل و مشکل بھی ہیں، اس میں کچھ آیات قضیہ ہیں۔ بعض آیات بعض سے متعارض بھی ہیں۔ صورت تطبیق اور طریقہ اندفاع اسے معلوم نہیں، اسے تردد و اشتباه پیدا ہو رہا ہے تو ایسی صورت میں انسان محض اپنے ذہن و فکر اور عقل خالص ہی سے کام نہ لے، بلکہ کسی تبحر عالم و مجتہد کی اقتداء اور پیروی کرے، اس کی طرف راہ و سبیل تلاش کرے کسی غیر کی طرف رجوع نہ کرے۔ یہ ہے تقلید شخصی جو عہد رسالت اور دور صحابہ سے ہے۔
(تحفظ عقائد اہل سنت ص 806، مطبوعہ فرید بک سٹال لاہور)
سعید احمد پالن پوری دیوبندی لکھتے ہیں:
علماء سے مسائل پوچھنا، پھر اس کی پیروی کرنا ہی تقلید ہے۔
(تسہیل ادلہ کاملہ ص 82، مطبوعہ: قدیمی کتب خانہ کراچی)
تقلید کی اس من گھڑت اور بے حوالہ تعریف سے معلوم ہوا کہ دیوبندی و بریلوی عوام جب اپنے عالم (مولوی صاحب) سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرتے ہیں تو وہ اس عالم کے مقلد بن جاتے ہیں۔ سعید احمد صاحب سے مسئلہ پوچھنے والے حنفی نہیں رہتے بلکہ سعید احمدی (یعنی سعید احمد صاحب کے مقلدین) بن جاتے ہیں؟!
یہ سب تعریفات خانہ ساز ہیں جن کا ثبوت علمائے متقدمین سے نہیں ملتا۔ ان تعریفات کو تحریفات کہنا صحیح ہے۔
تقلید کا صرف یہی مفہوم ہے کہ نبی صلى الله عليه وآله وسلم کے علاوہ کسی غیر کی بے دلیل بات کو، جو ادلہ اربعہ میں سے نہیں ہے، حجت مان لینا، اس تعریف پر جمہور علماء کا اتفاق ہے۔
تنبیہ:
لغت میں تقلید کے دیگر معنی بھی ہیں، بعض علماء نے ان لغوی معنوں کو بعض اوقات استعمال کیا ہے مثلاً:
ابو جعفر الطحاوی، حدیث ماننے کو تقلید کہتے ہیں، مثلاً وہ فرماتے ہیں:
فذهب قوم إلى هذا الحديث فقلدوا
پس ایک قوم اس (مرفوع) حدیث کی طرف گئی ہے، پس انھوں نے اس (حدیث) کی تقلید کی ہے۔
(شرح معانی الآثار 3/4، کتاب البیوع، باب بيع الشعير بالحنطة متفاضلاً)
گزشتہ صفحات پر حنفیوں و مالکیوں و شافعیوں و حنبلیوں کی کتابوں سے مفصل نقل کیا گیا ہے کہ نبی عليه الصلوة والسلام کی بات (یعنی حدیث) ماننا تقلید نہیں ہے۔ لہذا امام طحاوی کا حدیث پر تقلید کا لفظ استعمال کرنا غلط ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ وہ حدیثیں مانتے تھے تو کیا اب یہ کہنا صحیح ہوگا کہ امام ابوحنیفہ مجتہد نہیں بلکہ مقلد تھے؟ جب وہ حدیثیں مان کر مقلد نہیں بنتے تو دوسرا آدمی حدیث مان کر کس طرح مقلد ہو سکتا ہے؟
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولا يقلد أحد دون رسول الله صلى الله عليه وسلم
اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سوا کسی کی تقلید نہیں کرنی چاہئے۔
(مختصر المزنی، باب القضاء بحوالہ الرد على من اخلد الی الارض للسیوطی ص 138)
یہاں پر تقلید کا لفظ بطور مجاز استعمال کیا گیا ہے۔ امام شافعی کے قول کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے علاوہ کسی شخص کی بات بلا دلیل قبول نہیں کرنی چاہئے۔
تقلید کے مفہوم کا خلاصہ:
جیسا کہ سابقہ صفحات میں عرض کر دیا گیا ہے کہ غیر نبی کی بے دلیل بات کو آنکھ بند کر کے، بے سوچے سمجھے ماننا تقلید کہتے ہیں۔