سوال:
تقلید کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب:
تقلید ممنوع اور خلاف شرع ہے۔ وحی اور دین کے مقابلہ میں انسانوں کی آراء کو عقائد و اعمال میں دلیل بنانا اہل ایمان کا شیوہ نہیں۔ اہل علم و عقل کا اس بات پر اجماع ہے کہ تقلید حرام اور ممنوع ہے۔ قرآن وحدیث سے اس کی مذمت ثابت ہے، نیز ضلالت و جہالت کا دوسرا نام تقلید ہے۔ تقلید وہ برائی ہے، جو ہر وقت برائیاں جنم دیتی رہتی ہے۔ اس کے باعث انبیائے کرام علیہم السلام کو قتل کیا گیا، ان کی نبوت کا انکار کیا گیا اور ان کی دعوت کو جھٹلایا گیا۔ اسی تقلید نے انسانوں کو دین الٰہی کا باغی بنا دیا، ان کو اللہ کے دین کے مقابلہ میں دین ایجاد کرنے پر اکسایا، اجماع امت کا مخالف بنایا، حق کا دشمن بنایا اور سلف صالحین و ائمہ دین سے بیگانہ کیا۔ اسی تقلید نے انسانیت سے علم و عقل کا زیور چھین لیا اور وحدت امت کا شیرازہ بکھیرتے ہوئے مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق پارہ پارہ کرتے ہوئے ہر جگہ منافرت اور کدورتوں کے بیج بو دیے۔ تقلید کی بنا پر توحید باری تعالیٰ اور صفات باری تعالیٰ میں مجاز اور تاویل کا دروازہ کھولا گیا۔
❀ امام حکیم بن عتیبہ رحمہ اللہ (113ھ) فرماتے ہیں:
ليس أحد من خلق الله إلا يؤخذ من قوله ويترك إلا النبى صلى الله عليه وسلم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر شخص کا قول لیا بھی جا سکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے۔
(جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر: 1761، وسندہ صحیح)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) فرماتے ہیں:
كل إمام يؤخذ من قوله ويترك إلا إمام المتقين الصادق المصدوق الأمين المعصوم صلوات الله وسلامه عليه، فيا لله العجب من عالم يقلد دينه إماما بعينه فى كل ما قال مع علمه بما يرد على مذهب إمامه من النصوص النبوية فلا قوة إلا بالله
ہر امام کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور رد بھی کی جا سکتی ہے، سوائے امام المتقین کے، جو صادق و مصدوق، امین اور معصوم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی رحمت اور سلام ہو۔ اس عالم پر سخت تعجب ہے، جو دین میں کسی معین امام کے ہر قول کی تقلید کرتا ہے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے امام کے مذہب کے خلاف کئی نبوی نصوص وارد ہوئی ہیں، لا قوۃ الا باللہ۔
(تذكرة الحفاظ: 17/1)
❀ نیز فرماتے ہیں:
كان فى هذا الوقت خلق من أئمة أهل الر أى والفروع وعدد من أساطين المعتزلة والشيعة وأصحاب الكلام الذين مشوا وراء المعقول وأعرضوا عما عليه السلف من التمسك بالآثار النبوية وظهر فى الفقهاء التقليد وتناقص الإجتهاد
اس (خیر القرون کے بعد والے) زمانہ میں ائمہ اہل رائے، فقہا، معتزلہ، شیعہ اور ان اہل کلام کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جو عقل کے راستے پر چلے اور منہج سلف یعنی احادیث نبویہ سے تمسک اختیار کرنے سے اعراض کیا۔ فقہا میں تقلید ظاہر ہوئی اور اجتہاد ختم ہوتا گیا۔
(تذکرۃ الحفاظ: 159/2)
❀ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (1176ھ) فرماتے ہیں:
قد صح إجماع الصحابة كلهم أولهم عن آخرهم وإجماع التابعين أولهم عن آخرهم على الامتناع والمنع من أن يقصد منهم أحد إلى قول إنسان منهم أو ممن قبلهم، فيأخذه كله، فليعلم من أخذ بجميع أقوال أبى حنيفة، أو جميع أقوال مالك، أو جميع أقوال الشافعي، أو جميع أقوال أحمد رضي الله عنهم، ولم يترك قول من اتبع منهم أو من غيرهم إلى قول غيره، ولم يعتمد على ما جاء فى القرآن والسنة غير صارف ذلك إلى قول إنسان بعينه أنه قد خالف إجماع الأمة كلها أولها عن آخرها بيقين لا إشكال فيه وأنه لا يجد لنفسه سلفا، ولا إنسانا فى جميع الأعصار المحمودة الثلاثة، فقد اتبع غير سبيل المؤمنين، نعوذ بالله من هذه المنزلة، وأيضا فإن هؤلاء الفقهاء كلهم قد نهوا عن تقليد غيرهم، فقد خالفهم من قلدهم
اول تا آخر تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اور اول تا آخر تمام تابعین رحمہم اللہ کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص کسی خاص تابعی یا صحابی یا ان سے پہلے کسی معین شخص کے سارے کے سارے اقوال کو اختیار کرے، تو یہ ممنوع و ناجائز ہے۔ جان لیجئے کہ جس نے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی یا امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم کے تمام اقوال کو اختیار کیا اور اپنے متبوع امام کی کوئی بات ترک نہ کی، کسی دوسرے امام کی بات کی طرف نہ گیا اور قرآن وسنت کی تعلیمات، جن میں کسی معین انسان کی طرف رجوع کرنے کی نفی ہے، پر اعتماد نہ کیا، تو یقیناً اس نے اول تا آخر ساری امت کے اجماع کی مخالفت کی ہے۔ یہ یقینی بات ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں۔ وہ اس بارے میں اپنا کوئی سلف یا تین بہترین زمانوں میں اپنا ہم نوا کوئی انسان نہیں پائے گا۔ اس نے مؤمنوں کے علاوہ راستے کی پیروی کی ہے۔ ایسی حالت سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ مزید یہ کہ ان تمام فقہائے کرام نے دوسروں کی تقلید سے منع فرمایا ہے، لہذا جو ان کی تقلید کرتا ہے، وہ خود ان فقہا کی مخالفت کر رہا ہے۔
(حجۃ اللہ البالغہ: 263/1)