تقلید کا حکم احادیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

تقلید کا کیا حکم ہے؟

جواب:

اسلام میں تقلید کا کوئی جواز نہیں۔ انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے کتابیں اتاریں اور ان کتابوں کی تعلیم و تفہیم کے لیے انبیا و رسل بھیجے۔ جن کا اتباع ان کے صحابہ نے کیا۔ صحابہ سے ان کے متبعین نے سیکھا، یوں حق کا تسلسل جاری ہے اور تاقیامت جاری و ساری رہے گا۔ اسلاف امت تقلید کو جائز نہیں سمجھتے تھے، تو ہمارے لیے جائز کیسے؟
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أما المنافق والكافر فيقال له: ما كنت تقول فى هذا الرجل؟ فيقول: لا أدري كنت أقول ما يقول الناس، فيقال: لا دريت ولا تليت، ويضرب بمطارق من حديد ضربة، فيصيح صيحة يسمعها من يليه غير الثقلين
منافق اور کافر سے پوچھا جائے گا، اس شخص کے متعلق تیرا کیا خیال تھا؟ کہے گا: معلوم نہیں، بس لوگوں سے سنتا تھا، جو کہتے تھے، کہہ دیتا تھا، کہا جائے گا: تو نے نہ تو سمجھا اور نہ پڑھا، اس کو لوہے کے ہتھوڑے کی ضرب ماری جائے گی، وہ چیخ مارے گا، جو اس کے اردگرد ہر چیز سنے گی، سوائے جن و انس کے۔
(صحيح البخاري: 1374)
❀ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (597ھ) فرماتے ہیں:
فيه دليل على تحريم التقليد فى أصول الدين، وأنه ينبغي للعاقل أن يكون عارفا بما يعتقده، على يقين من ذلك لا يقلد فيه أحدا؛ فإن المقلد كالأعمى يتبع القائد
یہ حدیث دلیل ہے کہ اصول الدین (عقیدہ) میں تقلید حرام ہے، نیز ہر صاحب عقل کو چاہیے کہ اسے اپنے عقیدہ کی یقین کے ساتھ معرفت ہو، عقیدہ میں کسی کی تقلید نہ کرے، کیونکہ مقلد اندھے کی طرح ہوتا ہے، جو قائد (اندھے کو پکڑ کر لے جانے والا) کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔
(كشف المشكل: 243/3)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے