تقلید شخصی کا رد آثار صحابہ اور سلف صالحین سے
یہ اقتباس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب دین میں تقلید کا مسئلہ سے ماخوذ ہے۔

تقلید کا رد آثار صحابہ سے رضي الله عنهم اجمعین:

1: امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اخبرنا ابو عبد الله الحافظ ثنا ابو العباس محمد بن يعقوب ثنا محمد بن خالد ثنا احمد بن خالد الوهبي ثنا اسرائيل عن ابي حصين عن يحيى بن وثاب عن مسروق عن عبد الله يعني ابن مسعود رضى الله عنه انه قال: لا تقلدوا دينكم الرجال فان ابيتم فبالاموات لا بالاحياء
مفہوم: سیدنا عبد الله بن مسعود رضي الله عنه نے فرمایا: دین میں لوگوں کی تقلید نہ کرو، پس اگر تم میری بات کا انکار کرتے یعنی منکر ہو تو مردوں کی اقتداء کر لو، زندوں کی نہ کرو۔
(السنن الكبرى ج 2 ص 80 وسندہ صحیح)

تنبیہ:

اس ترجمے میں اقتداء کا لفظ طبرانی کی روایت کے پیش نظر لکھا گیا ہے۔ (معجم الكبير ج 9 ص 661 ح 8764)
2: امام وکیع بن الجراح (متوفی 197ھ) فرماتے ہیں:
حدثنا شعبة عن عمرو بن مرة عن عبد الله بن سلمة عن معاذ قال: كيف انتم عند ثلاث دنيا تقطع رقابكم وزلة عالم وجدال منافق بالقرآن فسكتوا، فقال معاذ بن جبل رضي الله عنه: اما دنيا تقطع رقابكم فمن جعل الله غناه فى قلبه فقد هدى ومن لا فليس بنافعته دنياه واما زلة عالم فان اهتدى فلا تقلدوه دينكم وان فتن فلا تقطعوا منه امالكم فان المؤمن يفتن ثم يتوب الخ
سیدنا معاذ بن جبل رضي الله عنه نے فرمایا: جب تین باتیں رونما ہوں گی تو تمہارا کیا حال ہو گا؟ دنیا جب تمہاری گردنیں توڑ رہی ہو گی، اور عالم کی غلطی اور منافق کا قرآن لے کر جھگڑا اور مناظرہ کرنا؟ لوگ خاموش رہے تو معاذ بن جبل رضي الله عنه نے فرمایا: گردن توڑنے والی دنیا یعنی کثرت مال و دولت کے بارے میں سنو، اللہ نے جس کے دل کو بے نیاز کر دیا وہ ہدایت پا گیا اور جو بے نیاز نہ ہوا تو اسے دنیا فائدہ نہیں دے گی۔ رہا عالم کی غلطی کا مسئلہ تو سنو اگر وہ سیدھے راستے پر جا رہا ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو اور اگر وہ فتنے میں مبتلا ہو جائے تو اس سے ناامید نہ ہو جاؤ کیونکہ مومن بار بار فتنے میں مبتلا ہو جاتا ہے پھر آخر میں توبہ کر لیتا ہے۔ الخ (کتاب الزهد ص 299-300 ح 71 وسندہ حسن)
شعبة: ثقة حافظ متقن ہیں (التقریب 2790)۔ عمرو بن مرة کا ذکر گزر چکا ہے۔ عبد الله بن سلمة (المرادی): صدوق تغير حفظه ہیں (التقریب 3364)۔ عمرو بن مرة کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت عبد الله بن سلمة نے تغیر سے پہلے بیان کی ہے، دیکھئے مسند الحمیدی تحقیق (ج 1 ص 43-44 ح 57)۔
عمرو بن مرة عن عبد الله بن سلمة کی سند کو درج ذیل محدثین نے صحیح و حسن قرار دیا ہے:
(ابن خزیمة (208)، ابن حبان (موارد 796-797)، الترمذی (146)، الحاکم (ج 1 ص 152، ج 4 ص 107)، الذہبی، البغوی، ابن السکن، عبد الحق الاشبیلی رحمہم الله۔ )
حافظ ابن حجر اس سند کے بارے میں فرماتے ہیں:
والحق انه من قبيل الحسن يصلح للحجة
اور حق یہ ہے کہ یہ حسن کی قسم میں سے ہے اور حجت استدلال پکڑنے کے قابل ہے۔
(فتح الباری ج 1 ص 408 ح 305)

محققوہ:

معاذ بن جبل رضي الله عنه کا یہ قول درج ذیل کتابوں میں بھی ہے:
کتاب الزهد لابی داؤد (ح 193 وقال محققہ: اسناد حسن، دوسرا نسخہ ص 77 وقال محققه اسناده حسن)، حلیة الاولیاء لابی نعیم (ج 5 ص 97)، جامع بیان العلم وفضله لابن عبدالبر (ج 2 ص 136، دوسرا نسخہ ج 2 ص 11)، الاحکام لابن حزم (ج 6 ص 236)، اتحاف السادة المتقين (ص 377-378 بلا سند)، کنز العمال (ج 6 ص 48-49 ح 43881 بلا سند)، العلل للدارقطنی (ج 6 ص 938-992)۔ اسے دارقطنی اور ابونعیم الاصبہانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ حافظ ابن القیم نے فرمایا:
وقد صح عن معاذ
اور یہ معاذ سے صحیح ثابت ہے۔
(اعلام الموقعین ج 2 ص 239)

تنبیہ بلیغ:

صحابہ میں سے کوئی بھی اس مسئلے میں سیدنا ابن مسعود رضي الله عنه اور سیدنا معاذ بن جبل رضي الله عنه کا مخالف نہیں ہے لہذا اس پر صحابہ کا اجماع ہے کہ تقلید نہیں کرنی چاہئے۔ والحمد لله

تقلید کا رد سلف صالحین سے:

1: امام عامر بن شراحیل الشعبی (تابعی متوفی 104ھ) فرماتے ہیں:
ما حدثوك هؤلاء عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فخذ به وما قالوه برأيهم فالقه فى الحش
یہ لوگ تجھے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی جو حدیث بتائیں اسے مضبوطی سے پکڑ لو اور جو بات وہ اپنی رائے سے خلاف کتاب و سنت کہیں اسے کوڑے کرکٹ پر پھینک دو۔
(مسند الدارمی ص 206 ح 677 وسندہ صحیح)
2: امام حکم بن عتیبة رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس احد من الناس الا وانت اخذ من قوله او تارك الا النبى صلى الله عليه وسلم
لوگوں میں سے ہر آدمی کی بات آپ لے بھی سکتے ہیں اور رد بھی کر سکتے ہیں سوائے نبی صلى الله عليه وسلم کے آپ کی ہر بات لینا فرض ہے۔
(الاحکام لابن حزم ج 6 ص 293 وسندہ صحیح)
3: ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے سامنے کسی نے سعید بن جبیر (تابعی رحمہ اللہ) کا قول پیش کیا تو انھوں نے فرمایا:
ما تصنع بحديث سعيد بن جبير مع قول رسول الله صلى الله عليه وسلم
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حدیث کے مقابلے میں تم سعید بن جبیر کے قول کو کیا کرو گے؟
(الاحکام لابن حزم ج 6 ص 293 وسندہ صحیح)
4: امام المزنی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اختصرت هذا الكتاب من علم محمد بن ادريس الشافعي رحمة الله ومن معنى قوله لا قربه على من اراده مع اعلاميه نهيه عن تقليده وتقليد غيره لينظر فيه الحديث ويحتاط فيه لنفسه
میں نے یہ کتاب امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کے علم سے مختصر کی ہے تاکہ جو شخص اسے سمجھنا چاہے آسانی سے سمجھ لے، اس کے ساتھ میرا یہ اعلان ہے کہ امام شافعی نے اپنی تقلید اور دوسروں کی تقلید دونوں سے منع فرما دیا ہے تاکہ ہر شخص اپنے دین کو پیش نظر رکھے اور اپنے لئے احتیاط کرے۔
(الام مختصر المزنی ص 1)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كل ما قلت وكان عن النبى صلى الله عليه وسلم خلاف قولي مما يصح فحديث النبى صلى الله عليه وسلم اولى ولا تقلدوني
میری ہر بات جو نبی صلى الله عليه وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو چھوڑ دو پس نبی صلى الله عليه وسلم کی حدیث سب سے زیادہ بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو۔
(آداب الشافعی ومناقب لابن ابی حاتم ص 94 وسندہ حسن)
5: امام ابو داؤد السجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا: کیا امام اوزاعی، امام مالک سے زیادہ متبع سنت ہیں؟ انھوں نے فرمایا:
لا تقلد دينك احدا من هؤلاء الخ
اپنے دین میں ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کر۔ الخ
(مسائل ابی داؤد ص 277)
6: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایک دن قاضی ابو یوسف کو فرمایا:
ويحك يا يعقوب لا تكتب كل ما تسمع مني فاني قد ارى الر أى اليوم واتركه غدا وارى الر أى غدا واتركه بعد غد
اے یعقوب ابو یوسف تیری خرابی ہو، میری ہر بات نہ لکھا کر، میری آج ایک رائے ہوتی ہے اور کل بدل جاتی ہے۔ کل دوسری رائے ہوتی ہے تو پھر پرسوں وہ بھی بدل جاتی ہے۔
(تاریخ یحیى ابن معین ج 2 ص 607 ح 2461 وسندہ صحیح، وتاریخ بغداد ج 13 ص 424)
7: امام ابو محمد القاسم بن محمد بن القاسم القرطبی البیانی رحمہ اللہ (متوفی 276ھ) نے تقلید کے رد پر:
كتاب الايضاح فى الرد على المقلدين لکھی۔ (سیر اعلام النبلاء ج 13 ص 329 ح 150)
8: امام ابن حزم نے فرمایا:
والتقليد حرام
اور تقلید حرام ہے۔
(النبذة الكافية في احکام اصول الدین ص 70)
اور فرمایا:
والعامي والعالم فى ذلك سواء وعلى كل احد حظه الذى يقدر عليه من الاجتهاد
اور عامی و عالم دونوں اس حرمت تقلید میں برابر ہیں، ہر ایک اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق اجتہاد کرے گا۔
(النبذة الكافية ص 71)
حافظ ابن حزم الظاہری نے اپنی عقیدے والی کتاب میں لکھا ہے:
ولا يحل لاحد ان يقلد احدا لا حيا ولا ميتا
کسی شخص کے لئے تقلید کرنا حلال نہیں ہے، زندہ ہو یا مردہ کسی کی بھی تقلید نہیں کرے گا۔
(کتاب الدرة فيما يجب اعتقاده ص 427)
معلوم ہوا کہ تقلید نہ کرنے کا مسئلہ عقیدے کا مسئلہ ہے۔ والحمد لله
9: امام ابو جعفر الطحاوی (حنفی؟ ) سے مروی ہے:
وهل يقلد الا عصبي او غبي
تقلید تو صرف وہی کرتا ہے جو متعصب اور بے وقوف ہوتا ہے۔
(لسان المیزان ج 1 ص 280)
10: عینی حنفی نے کہا:
فالمقلد ذهل والمقلد جهل وافة كل شيء من التقليد
پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے اور ہر چیز کی مصیبت تقلید کی وجہ سے ہے۔
(البنایة شرح الهدایة ج 1 ص 317)
11:زیلعی حنفی نے کہا:
فالمقلد ذهل والمقلد جهل
پس مقلد غلطی کرتا ہے اور مقلد جہالت کا ارتکاب کرتا ہے۔
(نصب الرایة ج 1 ص 219)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تقلید کے خلاف زبردست بحث کرنے کے بعد فرمایا:
واما ان يقول قائل انه يجب على العامة تقليد فلان او فلان فهذا لا يقوله مسلم
اور اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ عوام پر فلاں یا فلاں کی تقلید واجب ہے تو یہ قول کسی مسلمان کا نہیں ہے۔
(مجموع فتاوی ابن تیمیة ج 22 ص 249)
امام ابن تیمیہ خود بھی تقلید نہیں کرتے تھے، دیکھئے اعلام الموقعین (ج 2 ص 241-242)۔ حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
ولا يجب على احد من المسلمين تقليد شخص بعينه من العلماء فى كل ما يقول ولا يجب على احد من المسلمين التزام مذهب شخص معين غير الرسول صلى الله عليه وسلم فى كل ما يوجبه ويخبر به
کسی ایک مسلمان پر بھی علماء میں سے کسی ایک متعین عالم کی ہر بات میں تقلید واجب نہیں ہے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے علاوہ کسی شخص متعین کے مذہب کا التزام کسی ایک مسلمان پر واجب نہیں ہے کہ ہر چیز میں اسی کی پیروی شروع کر دے۔
(مجموع فتاوی ج 20 ص 209)
12:شیخ الاسلام ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں:
من نصب اماما فاوجب طاعته مطلقا اعتقادا او حالا فقد ضل فى ذلك كائمة الضلال الرافضة الامامية
جس شخص نے ایک امام مقرر کر کے مطلقا اس کی اطاعت واجب قرار دے دی چاہے عقیدتا ہو یا عملا تو ایسا شخص گمراہ رافضیوں امامیوں کے سرداروں کی طرح گمراہ ہے۔
(مجموع فتاوی ج 19 ص 69)
13: علامہ سیوطی (متوفی 911ھ) نے ایک کتاب لکھی كتاب الرد على من اخلد الى الارض وجهل ان الاجتهاد فى كل عصر فرض مطبوعہ عباس احمد الباز دار الباز مکة المکرمة، اس کتاب میں انھوں نے باب فساد التقليد کا باب باندھا ہے۔ (ص 120) اور تقلید کا رد کیا ہے۔
علامہ سیوطی فرماتے ہیں:
والذي يجب ان يقال كل من انتسب الى امام غير رسول الله صلى الله عليه وسلم فيوالي على ذلك ويعادي عليه فهو مبتدع خارج عن السنة والجماعة سواء كان فى الاصول او الفروع
یہ کہنا واجب فرض ہے کہ ہر وہ شخص جو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے علاوہ کسی دوسرے امام سے منسوب ہو جائے، اس انتساب پر وہ دوستی رکھے اور دشمنی رکھے تو یہ شخص بدعتی ہے، اہل سنت والجماعت سے خارج ہے چاہے انتساب اصول میں ہو یا فروع میں۔ (الكنز المدفون والفلك المشحون ص 149)
14: الشيخ العالم الكبير الحديث محمد فاخر بن محمد یحیی بن محمد امین العباسی السلفی الہ آبادی (پیدائش 1120ھ وفات 1164ھ) تقلید نہیں کرتے تھے بلکہ کتاب و سنت کے دلائل پر عمل کرتے اور خود اجتہاد کرتے تھے۔
(دیکھئے نزہة الخواطر ج 6 ص 350 ح 636)
امام محمد فاخر الہ آبادی فرماتے ہیں:
تقلید کا معنی دلیل معلوم کئے بغیر کسی کے قول پر عمل کرنا ہے۔ کسی روایت کو قبول کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کو تقلید نہیں کہتے، اہل علم کا اجماع ہے کہ اصول دین میں تقلید کرنا ممنوع ہے، جمہور کے نزدیک کسی خاص مذہب کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے بلکہ اجتہاد واجب ہے۔ تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی ہے۔
(رسالہ نجاتیہ ص 40-41)
محدث فاخر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
طالب نجات کے لئے لازم ہے کہ پہلے کتاب و سنت کے مطابق اپنے عقائد درست کرے اور اس بارے میں کسی کے قول و فعل کی طرف قطعا توجہ نہ دے۔
(رسالہ نجاتیہ ص 17)
نیز فرماتے ہیں:
اہل سنت کے تمام مذاہب میں حق موجود ہے، اور ہر مذہب کے بانی کو حق سے کچھ نہ کچھ حصہ ملا ہے، مگر اہل حدیث کا مذہب دیگر سب مذاہب سے زیادہ حق پر ہے۔
(نجاتیہ ص 41)

تنبیہ:

علامہ محمد فاخر رحمہ اللہ کی وفات (1164ھ) کے بہت بعد میں بانی مدرسہ دیوبند محمد قاسم نانوتوی صاحب (پیدائش 1248ھ) اور بانی مدرسہ بریلی احمد رضا خان بریلوی صاحب (پیدائش 1272ھ) پیدا ہوئے تھے۔
15: الشیخ الامام صالح بن محمد العمری الفلانی رحمہ اللہ (متوفی 1218ھ) نے تقلید کے رد میں ایک زبردست کتاب لکھی ہے
ايقاظ همم اولى الابصار للاقتداء بسيد المهاجرين والانصار وتحذيرهم عن الابتداع الشائع فى القرى والامصار من تقليد المذاهب مع الحمية والعصبية بين فقهاء الاعصار
یہ سارا ایک کتاب کا نام ہے جو کہ ایقاظ ہمم اولی الابصار کے نام سے مشہور ہے۔
16: شیخ حسین بن محمد بن عبد الوہاب اور شیخ عبدالله بن محمد بن عبد الوہاب رحمہما اللہ نے فرمایا:
عقيدة الشيخ محمد رحمة الله اتباع ما دل عليه الدليل من كتاب الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وعرض اقوال العلماء على ذلك فما وافق كتاب الله وسنة رسوله قبلناه وافتينا به وما خالف ذلك رددناه على قائله
شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جس پر کتاب و سنت کی دلیل ہو اس کی اتباع کی جائے اور علماء کے اقوال کو کتاب و سنت پر پیش کرنا چاہئے، جو کتاب و سنت کے موافق ہوں انھیں ہم قبول کرتے ہیں اور ان پر فتویٰ دیتے ہیں اور جو کتاب و سنت کے مخالف اقوال ہیں ہم انھیں رد کر دیتے ہیں۔
(الدرر السنیة ج 4 ص 12-14، طبع جدیدة، والاقناع بما جاء من ائمة الدعوة من الاقوال في الاتباع ص 27)
17: عبد العزیز بن محمد بن سعود رحمہ اللہ (سعودی عرب کے بادشاہ) سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی مذاہب مشہورہ کی تقلید نہیں کرتا، کیا یہ شخص نجات پا جائے گا؟ سلطان عبد العزیز نے کہا:
من عبد الله وحده لا شريك له فلم يستغث الا الله ولم يدع الا الله وحده ولم يذبح الا لله وحده ولم ينذر الا لله وحده ولم يتوكل الا عليه ويذب عن دين الله وعمل بما عرف من ذلك بقدر استطاعته فهو ناج بلاشك وان لم يعرف هذه المذاهب المشهورة
جو شخص ایک اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرے، استغاثہ صرف اسی سے کرے، دعا صرف ایک اللہ ہی سے مانگے، ذبح بھی ایک اللہ ہی کے لئے کرے، نذر بھی صرف اسی کی ہی مانے، صرف اسی پر توکل کرے، اللہ کے دین کا دفاع کرے اور اس میں سے جو معلوم ہو حسب استطاعت اس پر عمل کرے تو یہ شخص بغیر کسی شک کے نجات پانے والا ہے اگرچہ اسے ان مذاہب مشہورہ کا پتہ ہی نہ ہو۔
(الدرر السنیة ج 2 ص 170-173، طبع جدیدة، والاقناع ص 39-40)
18: سعودی عرب کے مفتی شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ نے فرمایا:
وانا الحمد لله لست بمتعصب ولكني احكم الكتاب والسنة وابني فتاواي على ما قاله الله ورسوله لا على تقليد الحنابلة ولا غيرهم
میں بحمد لله متعصب نہیں ہوں لیکن میں کتاب و سنت کے مطابق فیصلے کرتا ہوں۔ میرے فتووں کی بنیاد قال الله اور قال الرسول پر ہے حنابلہ یا دوسروں کی تقلید پر نہیں ہے۔
(الحجة رقم 280 تاریخ 25 صفر 1416 ص 23 والاقناع ص 92)
19: یمن کے مشہور سلفی عالم شیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
التقليد حرام لا يجوز لمسلم ان يقلد فى دين الله
تقلید حرام ہے، کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے دین میں کسی کی تقلید کرے۔
(تحفة الحبیب على اسئلة الحاضر والغریب ص 205)
شیخ مقبل رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
«فالتقليد لا يجوز والذين يبيحون تقليد العامي للعالم نقول لهم اين الدليل»
پس تقلید جائز نہیں ہے اور جو لوگ عامی جاہل کے لئے تقلید جائز قرار دیتے ہیں ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اس کی دلیل کہاں ہے؟
(ایضا ص 26)
شیخ مقبل بن ہادی رحمہ اللہ طالب علموں کو نصیحت فرماتے ہیں:
نصيحتي لطلبة العلم الابتعاد عن التقليد قال الله سبحانه وتعالى ﴿وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ﴾»
(17-الإسراء: 36)
طالب علموں کو میری یہ نصیحت ہے کہ وہ تقلید سے دور رہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور جس کا تجھے علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ چل۔ (غارة الاشرطة على اهل الجهل والسفسطة ص 1211)
مدینہ طیبہ کے خالص عربی سلفی شیخ محمد بن ہادی بن علی المدخلی حفظہ اللہ نے تقلید کے رد پر ایک کتاب لکھی ہے:
الاقناع بما جاء عن ائمة الدعوة من الاقوال فى الاتباع
میں جب شیخ کے گھر گیا تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے یہ کتاب مجھے دی۔ والحمدلله اس طرح کے اور بے شمار حوالے ہیں، ان سے ثابت ہے کہ تقلید کے رد پر خیر القرون میں اجماع تھا اور بعد میں جمہور کا یہ مسلک و مذہب و تحقیق ہے کہ تقلید جائز نہیں ہے۔

تنبیہ:

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ (متوفی 463ھ) نے لکھا ہے:
واما من يسوغ له التقليد فهو العامي الذى لا يعرف طرق الاحكام الشرعية فيجوز له ان يقلد عالما ويعمل بقوله قال الله تعالى ﴿فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾
(16-النحل: 43)
تقلید جس کے لئے جائز ہے وہ ایسا عامی جاہل ہے جو شرعی احکام کے دلائل نہیں جانتا، اس کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر علماء سے پوچھ لو۔
(الفقیہ والمتفقہ ج 2 ص 68)
حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں:
وهذا كله لغير العامة فان العامة لابد لها من تقليد علمائها عند النازلة تنزل بها لانها لا تتبين موقع الحجة ولا تصل بعدم الفهم الى علم ذلك
یہ سب تقلید کی نفی عوام کے علاوہ یعنی علماء کے لئے ہے۔ رہے عوام تو ان پر مسئلہ پیش آنے کی صورت میں ان کے علماء کی تقلید ضروری ہے کیونکہ انھیں دلیل معلوم نہیں ہوتی اور عدم علم کی وجہ سے وہ اس کے فہم تک نہیں پہنچ سکتے۔
(جامع بیان العلم وفضله ج 2 ص 114، الرد على من اخلد الى الارض ص 123)
اس طرح کے اقوال بعض دوسرے علماء کے بھی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ عامی جاہل عالم سے مسئلہ پوچھ کر اس پر عمل کرے گا اور یہ تقلید ہے۔
عرض ہے کہ عامی (جاہل) کا عالم سے مسئلہ پوچھنا بالکل صحیح ہے لیکن گزشتہ صفحات میں باحوالہ ذکر کر دیا گیا ہے کہ یہ تقلید نہیں ہے (بلکہ اتباع و اقتداء ہے) مثلاً دیکھیے ص 8 وغیرہ، اسے تقلید کہنا غلط ہے۔
عامی دو اجتہاد کرتا ہے:
وہ صحیح العقیدہ اہل سنت کے عالم کا انتخاب کرتا ہے، اگر وہ بدقسمتی سے کسی اہل بدعت کے عالم کا انتخاب کر لے تو پھر صحیح بخاری کی حدیث: فيضلون ويضلون پس وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے (البخاری: 7307) کی رو سے گمراہ ہو سکتا ہے۔
وہ صحیح العقیدہ اہل سنت کے عالم کے پاس جا کر مسئلہ پوچھتا ہے کہ مجھے دلیل سے جواب دیں، عامی کا یہی اجتہاد ہے۔
[نیز دیکھیے مجموع فتاوی ابن تیمیہ (20/204) و اعلام الموقعین (4/216) و ایقاظ ہم اولی الابصار (ص 39)] عامی سے مراد: الصرف الجاهل الذى لايعرف معنى النصوص والأحاديث وتأويلاتها
جاہل محض، جو نصوص و احادیث کا معنی اور تاویل نہیں جانتا۔
(خزانة الروایات، بحوالہ ایقاظ ہم اولی الابصار ص 38)
عامی اگر جنگل میں ہو اور قبلہ کی سمت اسے معلوم نہ ہو وہ نماز پڑھنے کے لیے اجتہاد کرے گا۔ ایک عامی (مثلاً دیوبندی) اپنے مولوی، مثلاً یونس نعمانی (دیوبندی) سے مسئلہ پوچھ کر اگر اس پر عمل کرے تو کوئی بھی یہ نہیں کہتا ہے کہ یہ عامی یونس نعمانی کا مقلد ہو گیا ہے اور اب یہ نفی نہیں بلکہ یونسی ہے۔
تنبیہ (2) خطیب بغدادی و ابن عبد البر وغیرہما نے علماء کے لیے تقلید کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس دیوبندی و بریلوی حضرات یہ کہتے پھرتے ہیں کہ عالم پر بھی تقلید واجب ہے۔ اسی وجہ سے ان کے نام نہاد علماء بھی اہل تقلید کہلاتے ہیں۔
تنبیہ (3) بعض علماء کے ساتھ حنفی و شافعی و مالکی و حنبلی کا سابقہ و لاحقہ لگا ہوتا ہے جس سے بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ علماء مقلدین میں سے تھے۔ اس استدلال کے ازالے میں تقلید کا مسئلہ باطل ہونے کے چند دلائل درج ذیل ہیں:
1: حنفی و شافعی علماء نے خود تقلید پر شدید رد کر رکھا ہے۔ دیکھیے ص 39 حوالہ: 9 (ابو جعفر الطحاوی)، ص 39 حوالہ: 10 (العینی)، ص 39 حوالہ: (الزیلعی) وغیرہ۔
2: ان علماء سے مروی ہے کہ وہ تقلید کا انکار کرتے تھے۔
شافعیوں کے علماء: ابوبکر القفال، ابو علی اور قاضی حسین سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: لسنا مقلدين للشافعي بل وافق رأينا رأيه ”ہم امام شافعی کے مقلد نہیں ہیں بلکہ ہماری رائے (اجتہاد کی وجہ سے) ان کی رائے کے موافق ہو گئی ہے۔“
(النافع الكبير لمن يطالع الجامع الصغير، طبقات الفقهاء تصنیف عبدالحئی لکھنوی ص 7، تقریرات الرافعی ج 1 ص 11، التقریر والتحبیر ج 3 ص 453)
علماء خود اعلان کر رہے ہیں کہ ہم مقلدین نہیں ہیں اور مقلدین یہ شور مچا رہے ہیں کہ یہ علماء ضرور مقلدین ہیں، ﴿سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ﴾ (24-النور: 16)
3: کسی مستند عالم سے یہ قول ثابت نہیں ہے کہ أنا مقلد ”میں مقلد ہوں“ ۔
تنبیہ (4) بعض علماء کو طبقات الشافعیہ و طبقات الحنفیہ و طبقات المالکیہ و طبقات الحنابلہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ اس کی دلیل نہیں ہے کہ یہ علماء مقلدین تھے۔ امام احمد بن صالح رحمہ اللہ طبقات الحنابلہ (ج 1 ص 280) و طبقات المالکیہ (الدیباج المذہب ص 326 ت 437) میں مذکور ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ طبقات مالکیہ و طبقات حنابلہ میں مذکور ہیں۔ کیا یہ دونوں امام بھی مقلدین میں سے تھے؟ اصل وجہ یہ ہے کہ استادی شاگردی یا اپنے نمبر بڑھانے وغیرہ کے لیے ان علماء کو ان کتب طبقات میں ذکر کر دیا گیا ہے، یہ ان کے مقلد ہونے کی دلیل نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1