الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:
شریعت اسلامیہ میں نماز بہت بڑا اور اہم رکن ہے اور اس پر مواظبت لازم قرار دی گئی ہے بلکہ کفر و ایمان کے درمیان نماز ایک امتیاز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة
آدمی اور شرک و کفر کے درمیان فرق نماز کا چھوڑ دینا ہے۔ (صحیح مسلم: 82)
عقیدہ توحید کے بعد کسی بھی عمل کی قبولیت کے لیے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے:
نیت اور طریقہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم لہذا نماز کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے:
صلوا كما رأيتموني أصلي
نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ (صحیح بخاری: 631)
نماز میں رفع یدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر ثابت ہے۔ لیکن افسوس بہت سے دیگر مسائل کی طرح مسئلہ رفع یدین بھی تقلید اور مسلکی تعصب کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جب صحیح مرفوع احادیث، آثار صحابه، آثار تابعین اور ائمہ کرام سے رکوع کو جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین ثابت ہے تو اس کے مقابلے میں ضعیف، موضوع اور چند ایک تابعین کے عمل کی کیا وقعت رہ جاتی ہے؟
حقیقت میں آل تقلید اس قدر بوکھلا چکے ہیں کہ اپنی حمایت میں کمزور اور بودے دلائل بلکہ موضوع اور من گھڑت روایات بھی بیان کرنے سے نہیں چوکتے۔
مثلاً انوار خورشید دیوبندی صاحب اپنی کتاب ”حدیث اور اہل حدیث“ (ص 404) میں لکھتے ہیں: ”حضرت علقمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہیں کیا۔ میں نے پوچھا کہ آپ رفع یدین کیوں نہیں کرتے تو آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے ان سب نے رفع یدین نہیں کیا مگر اسی تکبیر میں جس سے نماز شروع ہوتی ہے۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ج 1 ص 207 )
یہ روایت بے اصل اور من گھڑت ہے۔ اسے کاسانی حنفی نے اپنی کتاب بدائع الصنائع میں بغیر کسی سند کے نقل کر دیا ہے۔ (دیکھیے ہی کتاب ص 304)
قارئین کرام! یاد رہے کہ آل تقلید کے دلائل اور صاحب دلائل علمی میدان میں کچھ حیثیت نہیں رکھتے، ان کے اعتراضات کا جواب صرف اس لیے دیا جاتا ہے کہ عام سادہ لوح لوگ صحیح احادیث و طریقہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روشناس ہوں اور غیر اہل حدیث کی موشگافیوں، چالوں اور شبہات کی حقیقت سے آگاہ ہوں۔
کچھ اس کتاب کے بارے میں
”نور العینین فی مسئلہ رفع الیدین “اس سے قبل اپنی اہمیت و افادیت کے پیش نظر کئی بار چھپ چکی ہے۔ علمی اور سنجیدہ حلقوں میں بہت مقبول ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ علمی دنیا میں ایک عظیم انقلاب ہے، یہی وجہ ہے کہ عرصہ دراز گزرنے کے باوجود یہ کتاب لا جواب ہی ہے۔
اب اسی کتاب کو مزید حک و اضافہ کے ساتھ دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے جس میں ”زیادات و اضافے“ کے تحت استاذ محترم فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اور بہت سے علمی و تحقیقی مباحث کو شامل کر لیا ہے۔ مثلاً: سجدوں میں رفع الیدین کا مسئلہ، اخبار الفقہاء والمحدثین کی روایت کا جائزہ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب تفسیر اور ترک رفع یدین وغیرہ۔ واضح رہے کہ اس ایڈیشن میں سابقہ تسامح وغیرہ کی تصحیح اور بعض کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے اور بعض جگہ علمی فائدہ جانتے ہوئے تکرار کو بحال رکھا گیا ہے نیز اب یہی ایڈیشن معتبر ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو استاذ محترم کے لیے صدقہ جاریہ اور اُخروی نجات کا ذریعہ بنائے اور ان کو ہر قسم کے آلام و مصائب سے محفوظ رکھے۔
(آمین)
حافظ ندیم ظہیر (26 رجب 1427)