تقدیر یا عنایتِ الٰہی کو مداخلت کہنا کیسا؟ شرعی رہنمائی
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

سوال

کسی بات کے لیے تقدیر کو کہاں تک بنیاد بنایا جا سکتا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی یہ کہتا ہے کہ *’’اس بات میں تقدیر نے مداخلت کی ہے‘‘*، تو یہ جملہ درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح بولنے سے یہ مفہوم نکلتا ہے جیسے تقدیر نے اس معاملے میں مداخلت کر کے کوئی زیادتی کی ہو، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تقدیر تو اصل بنیاد ہے۔ تقدیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ نظام ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ "تقدیر نے مداخلت کی ہے” اپنی جگہ درست تعبیر نہیں۔

زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ انسان یوں کہے:

"قضا و قدر نازل ہوئی ہے”

"تقدیر غالب آ گئی ہے”

یہ جملے حقیقت سے زیادہ ہم آہنگ ہیں اور ان میں وہ مفہوم نہیں آتا جو "مداخلت” کے لفظ سے پیدا ہوتا ہے۔

اسی طرح جب کوئی کہتا ہے کہ *’’اللہ تعالیٰ کی عنایت نے مداخلت کی ہے‘‘*، تو یہ جملہ بھی درست اندازِ بیان نہیں رکھتا۔ اس کے بجائے بہتر ہے کہ یوں کہا جائے:

"اللہ تعالیٰ کی عنایت حاصل ہو گئی ہے”

"اللہ تعالیٰ کی عنایت کا تقاضا یہی ہے”

یہ جملے زیادہ درست اور شریعت کے مطابق ہیں کیونکہ ان میں کسی غیر مناسب مفہوم کا احتمال نہیں پایا جاتا۔

ھٰذا ما عندي، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1