تقدیر کی حقیقت، انسان کا اختیار اور امتحانِ زندگی
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ 167

تقدیر کا سوال اور اس کی وضاحت

سوال

تقدیر کیا ہے؟ اور انسان جو اچھے یا برے کام کرتا ہے کیا وہ مشیتِ الٰہی کے تحت ہی کرتا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

اللہ کی قسم! اگر یہ سوال کسی دہریے یا اسلام دشمن کی طرف سے نہ ہوتا تو میں اس پر قلم اٹھانے کی زحمت نہ کرتا، کیونکہ تقدیر جیسے نازک موضوع میں بےجا غوروفکر ایمان والے کے لیے نقصان دہ ہے۔ مگر چونکہ ملحدین کی سازش ہے کہ عوام کو اس مسئلہ کے ذریعے گمراہ کیا جائے، اس لیے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے حق لکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر مقام پر میری رہنمائی کرے۔ اللهم آمین۔

دنیا کی مثال اور اللہ کی اسکیم

جب انسان کوئی منصوبہ بناتا ہے، چاہے وہ بستی بسانا ہو، کارخانہ چلانا ہو یا کوئی اور اسکیم، تو سب سے پہلے وہ اس کا نقشہ ذہن میں بٹھاتا ہے۔

ضروری اجزاء کی ترتیب

لوازمات کی فہرست

خاکہ اور عملی خاکہ کاغذ پر لکھنا

اس کے بعد ہی وہ منصوبہ عمل میں لایا جاتا ہے۔ اسی مثال کو سامنے رکھ کر ہم اصل موضوع یعنی "تقدیر” کو سمجھ سکتے ہیں۔

بنیادی نکتے

(الف) کائنات انسان کے لیے پیدا کی گئی

قرآن کہتا ہے:

﴿هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ لَكُم مَّا فِى ٱلْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا﴾ (البقرۃ: ۲۹)
‘‘اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے جو کچھ زمین میں ہے۔’’

﴿وَسَخَّرَ‌ لَكُم مَّا فِى ٱلسَّمَـٰوَ‌ٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْ‌ضِ جَمِيعًا مِّنْهُ﴾ (الجاثیہ: ۱۳)
‘‘اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو مسخر کردیا۔’’

یعنی سورج، چاند، ستارے، دریا، پہاڑ سب انسان کی خدمت میں لگے ہیں۔ انسان نہ ہو تو ان اشیاء پر کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اگر سورج یا پانی کچھ وقت کو رک جائے تو انسان تباہ ہوجائے۔ اس سے ظاہر ہے کہ کائنات انسان کے لیے ہے، مگر انسان کسی مخلوق کے لیے مخصوص نہیں۔

(ب) انسان کا مقصدِ حیات

جب یہ عظیم کائنات انسان کی خدمت گزار ہے تو انسان خود کس مقصد کے لیے پیدا ہوا؟
قرآن فرماتا ہے:

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات:۵۶)
‘‘میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔’’

یعنی انسان کا اصل مقصد اللہ کی بندگی ہے، جیسے کائنات انسان کے حکم کے تابع ہے ویسے ہی انسان کو اللہ کے حکم کا تابع ہونا ہے۔ اس لیے اللہ نے انبیاء اور وحی کے ذریعے انسان کو زندگی گزارنے کے اصول عطا فرمائے تاکہ وہ خالق کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے۔

(ج) دنیا ایک امتحان گاہ ہے

قرآن میں ہے:

﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى ٱلْأَرْ‌ضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الکہف: ۷)
‘‘ہم نے زمین کی زینت اسی لیے بنائی ہے تاکہ دیکھیں کون اچھے عمل کرتا ہے۔’’

اور ایک اور مقام پر:

﴿ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْمَوْتَ وَٱلْحَيَو‌ٰةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملک:۲)
‘‘جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ کون بہتر عمل کرتا ہے۔’’

لہٰذا یہ دنیا ایک "ایگزامینیشن ہال” ہے جہاں انسان کو آزمایا جاتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کو کیسے پورا کرتا ہے۔

(د) خیر و شر کے راستے

انسان کے سامنے دونوں راستے رکھے گئے:

﴿وَهَدَيْنَـٰهُ ٱلنَّجْدَيْنِ﴾ (البلد:۱۰)
‘‘ہم نے اسے دونوں راستے (خیر و شر) دکھائے۔’’

﴿فَأَلْهَمَهَا فُجُورَ‌هَا وَتَقْوَىٰهَا﴾ (الشمس:۸)
‘‘اس کے نفس کو برائی اور پرہیزگاری دونوں کا الہام کیا۔’’

چونکہ انسان کو اختیار دیا گیا ہے، اس لیے وہ چاہے خیر اختیار کرے یا شر۔ اگر اختیار ہی نہ دیا جاتا تو انسان بے جان پتھر کی طرح ہوتا، پھر جزا و سزا کا کوئی سوال نہ بنتا۔ اسی اختیار کی بنیاد پر دنیا آزمائش گاہ ہے۔

انسان کو اختیار دینے کی حکمت

(ہ) اختیار اور آزمائش کی ضرورت

یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو اختیار دے کر امتحان میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی؟
اصل حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن ہمارے ناقص فہم کے مطابق یہ حکمت سامنے آتی ہے:

انسان کو مختلف صلاحیتوں اور قوتوں کے ساتھ بنایا گیا۔

اس اختیار کے ذریعے اللہ کی صفات جیسے عدل، رحمت، مغفرت، حلم وغیرہ ظاہر ہوئیں۔

فرشتے چونکہ مجبور مخلوق ہیں، ان میں خطا یا گناہ کا امکان ہی نہیں، لہٰذا ان پر صفتِ مغفرت یا عدل کا ظہور نہیں ہوسکتا۔

قرآن میں ہے:

﴿أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾ (البقرة:٣٠)
‘‘میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔’’

یعنی انسان میں وہ صلاحیتیں ہیں جن سے وہ علم و ہنر میں بڑی ترقی کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے زمین سے لے کر آسمان تک کے رازوں کو کھولنے کی کوشش کی اور ایجادات کیں۔ اگر انسان کو یہ ضرورتیں اور صلاحیتیں نہ ملتیں تو دنیا کی قوتیں اور خزانے پوشیدہ ہی رہتے۔

(و) خیر و شر کے نمونے

چونکہ انسان کو اختیار دیا گیا، اس لیے دنیا میں مختلف نمونے ظاہر ہونا لازمی تھا:

کوئی اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بنتا ہے۔

کوئی بد اخلاقی کی پستیوں میں گرتا ہے۔

کوئی خیر کو چنتا ہے، تو کوئی شر کو۔

اگر برائی کا اختیار ہی نہ دیا جاتا تو آزمائش کا مقصد ختم ہوجاتا۔

(ذ) انسان کی صحیح فطرت

اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحیح اور اسلام کے مطابق فطرت پر پیدا کیا:

﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَ‌تَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ‌ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَا﴾ (الروم:٣٠)
‘‘اپنے رخ کو سیدھے دین کی طرف رکھو، یہی اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے۔’’

حدیث میں ہے:
((كل مولود يولد على الفطرة)) (بخاری)
‘‘ہر بچہ فطرتِ صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے۔’’

اور قرآن کہتا ہے:

﴿لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ﴾ (التین:٤)
‘‘ہم نے انسان کو بہترین ڈھانچے میں پیدا کیا۔’’

یعنی ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، ماحول اور معاشرہ بعد میں اس کی فطرت کو بگاڑتا ہے۔

(رنگا رنگ صلاحیتیں)

اللہ نے انسانوں میں لیاقت اور صلاحیت کا فرق رکھا ہے:

کوئی طاقتور ہے، کوئی کمزور۔

کوئی مالدار ہے، کوئی فقیر۔

کوئی عالم ہے، کوئی عام آدمی۔

یہ فرق ہی دنیا کی زینت ہے، جیسا کہ شاعر ذوق نے کہا:

گلہائے رنگ رنگ سے ہے رونقِ چمن
اے ذوق! اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

قرآن میں فرمایا:

﴿وَهُوَ ٱلَّذِى جَعَلَكُمْ خَلَـٰٓئِفَ ٱلْأَرْ‌ضِ وَرَ‌فَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَ‌جَـٰتٍ لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَآ ءَاتَىٰكُمْ﴾ (الانعام:١٦٥)
‘‘اللہ نے تمہیں زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجے دیے تاکہ وہ آزمائے جو کچھ تمہیں عطا کیا گیا ہے۔’’

اگر سب برابر ہوتے تو نہ امتحان ہوتا، نہ صبر و شکر کی آزمائش۔

(ح) خیر و شر میں تقسیم کیوں؟

انسان کی فطرت سب کی ایک ہے، مگر تقسیم کئی اسباب سے ہوتی ہے:
ماحول اور سوسائٹی کا اثر
بری صحبت
حسد، طاقت یا شہوت کا غلط استعمال

بھوک یا غربت کی وجہ سے غلط راستہ اپنانا

یہ سب اسباب آزمائش ہیں۔ اصل کمال یہ ہے کہ انسان دنیا کے تمام تقاضوں کے باوجود اللہ کو راضی رکھے۔ قرآن نے انہی کو سراہا ہے:

﴿رِ‌جَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَ‌ةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ‌ اللَّـهِ﴾ (النور:٣٧)
‘‘وہ مرد جنہیں تجارت یا خرید و فروخت بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔’’

اسی لیے نبی ﷺ نے خصی ہونے سے منع فرمایا تاکہ قوت رکھتے ہوئے بھی انسان اللہ کے خوف سے برائی سے بچے۔

اللہ کے علم اور تقدیر کی وضاحت

(ط) اللہ کا کامل علم

انسان جب کوئی کارخانہ یا مشین بناتا ہے تو اس کے پرزوں اور نقصانات سے آگاہ ہوتا ہے، لیکن یہ آگاہی محدود ہوتی ہے۔ خرابی ظاہر ہونے کے بعد اسے سمجھ آتی ہے۔
مگر اللہ تعالیٰ کا علم کامل اور لامحدود ہے:

اسے پہلے ہی معلوم ہوتا ہے کہ فلاں وقت پر کون سا نقص یا خرابی پیدا ہوگی۔

خیر اور شر کے اسباب بھی پہلے ہی اس کے علم میں ہیں۔

اس فرق کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔

(ی) منصوبہ اور نتائج

جب انسان کوئی منصوبہ بناتا ہے تو نتائج کا اندازہ بھی لگاتا ہے، مگر اکثر اس کے اندازے غلط نکلتے ہیں۔ کبھی اسکیم ناکام ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے منصوبے میں ایسی کوئی کمی نہیں، کیونکہ اس کا علم بے حد و حساب ہے۔

تقدیر کا اصل مفہوم

ان نکات کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں:

تقدیر کا مطلب ہے "اندازہ یا علم”۔

اللہ تعالیٰ نے ازل میں ارادہ کیا کہ کائنات پیدا کرے۔

اس کے نقشے میں یہ سب شامل تھا کہ:

انسان کو عقل و اختیار دیا جائے گا۔

اسے خیر و شر کے دونوں راستے دکھائے جائیں گے۔

وہ اپنی مرضی سے کسی ایک کو اختیار کرے گا۔

اس اختیار کے نتائج لازمی نکلیں گے، جیسے زہر کھانے سے موت اور مقوی غذا کھانے سے طاقت آنا۔

قرآن کہتا ہے:

﴿فَسَنُيَسِّرُ‌هُۥ لِلْيُسْرَ‌ىٰ ﴿٧﴾ فَسَنُيَسِّرُ‌هُۥ لِلْعُسْرَ‌ىٰ ﴿١٠﴾ (اللیل:۷،۱۰)
‘‘ہم اسے آسانی کے راستے پر چلا دیں گے … اور ہم اسے سختی کے راستے پر چلا دیں گے۔’’

یعنی جو خیر چاہے اس کے اسباب میسر ہوں گے، اور جو شر چاہے اس کے لیے بھی دروازے کھلے ہوں گے۔

دنیا کا مکمل نقشہ

اللہ کے علم میں دنیا کا ہر پہلو پہلے سے موجود ہے:

آسمان، زمین، پہاڑ، دریا اور معدنیات کہاں ہوں گے۔

سورج اور چاند کا فاصلہ کتنا ہوگا۔

موسم کس طرح تقسیم ہوں گے۔

انسان کہاں پیدا ہوں گے، کس ماحول میں رہیں گے۔

اسی ماحول اور اسباب کی وجہ سے انسان کے عقائد و اعمال میں فرق ہوگا، کوئی خیر اختیار کرے گا اور کوئی شر۔ اللہ اپنی حجت قائم کرنے کے لیے انبیاء بھیجے گا۔

جو انبیاء کی بات مانے گا وہ کامیاب ہوگا۔

جو انکار کرے گا وہ نقصان میں رہے گا۔

اللہ کو کلی اور تفصیلی علم ہے کہ کس کو کون سے حالات پیش آئیں گے اور کون سا راستہ اختیار کرے گا۔

انسان کا اختیار اور اللہ کا علم

اللہ نے انسان کو آزمانے کے لیے اختیار دیا ہے۔

وہ چاہے تو نیکی کرے، چاہے تو بدی۔

اللہ نے ایسا نظام بنایا کہ انسان کی آزادی بھی قائم ہے اور امتحان کی صورت بھی باقی۔

مثال ۱

اگر ایک باپ جانتا ہے کہ اس کا بیٹا فرمانبردار ہے، پھر بھی اسے آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ دلیل ختم ہو۔ اسی طرح اللہ بھی انسان کو امتحان دیتا ہے۔

مثال ۲

ماہر ڈاکٹر مریض کی حالت دیکھ کر کہتا ہے کہ یہ نہیں بچے گا۔ بعد میں وہ مریض مر جائے تو کیا ڈاکٹر نے مارا؟ نہیں! اس نے علم کی بنیاد پر کہا۔
اسی طرح اللہ کو بندوں کے حالات پہلے ہی معلوم ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مجبور کرتا ہے۔

تقدیر اور کتابِ مبین

اللہ تعالیٰ نے اس سارے نقشے اور علم کو ایک کتاب میں محفوظ کرلیا جسے قرآن میں "امام مبین” اور "کتاب مبین” کہا گیا ہے۔

تقدیر کا مطلب صرف "اللہ کا علم اور اندازہ” ہے۔

اس میں کوئی خرابی یا نقص نہیں، بلکہ یہ اللہ کی کمالِ علم کی دلیل ہے۔

اگر یہ لکھ دیا جاتا کہ فلاں انسان کو لازمی یہ عمل کرنا ہے تو اعتراض کا موقع ہوتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ:

اللہ نے صرف یہ لکھا کہ فلاں انسان اپنے اختیار سے فلاں عمل کرے گا۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ نے زبردستی کروایا، بلکہ صرف علم ظاہر فرمایا۔

اعتراضات  کا جواب

اعتراض ۱:

انسان مختلف حالات اور اسباب کی وجہ سے خیر و شر میں بٹ گئے۔ اللہ نے کیوں یہ اسباب پیدا کیے؟

جواب:

اگر سب کو ایک ہی راستہ دیا جاتا تو انسان مجبور مخلوق ہوتا، جیسے کوئی مشین جو بس ایک سمت میں چلتی ہے۔ پھر امتحان کا تصور ہی ختم ہوجاتا۔ آزمائش کے لیے خیر و شر دونوں راستوں کا ہونا لازمی تھا۔

اعتراض ۲:

ملحد لوگ تقدیر پر سوال کرتے ہیں۔

جواب:

جو اللہ کے وجود ہی کے منکر ہیں ان کے ساتھ تقدیر پر بحث فضول ہے۔

پہلے ان کے سامنے اللہ کے وجود کے دلائل رکھے جائیں۔

جب وہ اللہ کے وجود کو مان لیں تب صفاتِ الٰہی جیسے تقدیر وغیرہ پر بحث ہوسکتی ہے۔
صفات، ذات کی فرع ہیں۔ جب کوئی ذات ہی نہ مانے تو صفات پر بحث بے معنی ہے۔

اعتراض ۳:

اگر سوال کسی جاہل مسلمان نے کیا ہو؟

جواب:

اسے حکمت اور نرمی سے سمجھایا جائے کہ:

تقدیر صرف اللہ کے علم اور اندازے کا نام ہے۔

اگر تقدیر کا انکار کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ہمارا معبود (نعوذ باللہ) جاہل ہے، جو اپنی مخلوق کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔

جبکہ دنیا کا معمولی موجد بھی اپنی بنائی ہوئی چیز کے فوائد و نقصانات جانتا ہے، تو خالق کائنات کیسے بے خبر ہوسکتا ہے؟

خلاصہ

تقدیر دراصل اللہ کا لامحدود علم ہے۔

انسان کو اختیار دیا گیا تاکہ امتحان ہو۔

خیر و شر دونوں راستے اس کے سامنے رکھے گئے۔

اللہ کو معلوم ہے کون سا بندہ کیا اختیار کرے گا، مگر یہ اس کا علم ہے، جبر نہیں۔

 

یہ جواب طویل ہوگیا ہے لیکن بغیر تفصیل بات واضح نہ ہوتی۔
اگر یہ وضاحت درست ہے تو یہ اللہ کی توفیق ہے، اور اگر کوئی غلطی ہے تو وہ میری کمزوری اور نادانی ہے۔

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے