تقدیر میں انسان کا اختیار: راہ اعتدال کی وضاحت
ماخوذ : فتاوی ارکان اسلام

مسئلہ تقدیر کے بارے میں راہِ اعتدال

(سوال کا پس منظر)

ایک سوال پوچھا گیا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ انسان کے افعال تقدیر میں پہلے سے لکھے ہوتے ہیں، جبکہ ان افعال کو کس انداز میں انجام دیا جائے، اس کی کیفیت کا اختیار انسان کو حاصل ہے؟ مثال کے طور پر، اگر اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کی تقدیر میں لکھ دیا ہے کہ وہ مسجد بنائے گا، تو وہ مسجد بنائے گا ضرور، مگر مسجد بنانے کا طریقہ، اس کی ساخت، اور وقت وغیرہ کا فیصلہ انسان خود کرے گا۔ اسی طرح اگر کسی گناہ کا عمل کسی کی تقدیر میں لکھا ہے تو وہ گناہ سرزد ہوگا، مگر اس کی نوعیت، شدت اور حالات کا فیصلہ انسان کی عقل کرے گی۔ اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ عمل کا وجود تو تقدیر میں طے ہو چکا ہے، لیکن اس کی کیفیت کا اختیار انسان کو دے دیا گیا ہے۔ کیا یہ نظریہ درست ہے؟

تقدیر: ایک قدیم اور اختلافی مسئلہ

الحمدللہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تقدیر کا مسئلہ صدیوں سے انسانوں کے مابین اختلاف کا باعث رہا ہے۔ اس بارے میں تین گروہوں کی آراء پائی جاتی ہیں:

پہلا گروہ: افراط کا شکار

◈ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ہمہ گیریت (عموم) کو مدنظر رکھتے ہوئے بندے کے اختیار کو کلیتاً رد کر دیا۔
◈ ان کے مطابق انسان اپنے افعال میں بالکل مجبور ہے، جیسے تیز آندھی سے چھت سے گرنا اور اپنی مرضی سے سیڑھی سے اترنا ایک ہی جیسے ہیں۔

دوسرا گروہ: تفریط کا شکار

◈ یہ لوگ بندے کے مکمل اختیار کے قائل ہیں۔
◈ ان کا نظریہ یہ ہے کہ انسان اپنے تمام افعال میں مکمل خودمختار ہے، اور ان افعال کا اللہ کی تقدیر سے کوئی تعلق نہیں۔

تیسرا گروہ: راہِ اعتدال والے

◈ ان لوگوں نے دونوں پہلوؤں پر غور کیا اور متوازن نظریہ اپنایا۔
◈ ان کے مطابق:
➊ انسان کے افعال اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور انسان کے اختیار، دونوں سے وجود میں آتے ہیں۔
➋ مثال کے طور پر، تیز آندھی سے گرنا غیر اختیاری فعل ہے، جبکہ سیڑھی سے اترنا اختیاری عمل ہے۔
➌ دونوں صورتیں اللہ کی قضا و قدر سے وابستہ ہیں، لیکن انسان صرف اسی فعل کا مکلف ہے جو اس کے اختیار سے واقع ہو۔

مکلفیت اور احتساب

◈ شریعت کے احکام انسان کے ان افعال سے متعلق ہیں جو اس کے اختیار میں ہیں۔
◈ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ "یہ فعل میری تقدیر میں لکھا تھا، اس لیے میں نے کیا”، تو یہ عذر قابل قبول نہیں کیونکہ:
➊ انسان کو تقدیر کے مخفی راز کا علم نہیں۔
➋ وہ اس وقت تک نہیں جانتا کہ اللہ نے اس کے مقدر میں کیا لکھا ہے جب تک وہ فعل سرزد نہ ہو جائے۔

تقدیر اور مثالوں کا تجزیہ

مسجد بنانے کی مثال

◈ یہ کہنا کہ مسجد بنانا تقدیر میں لکھا ہے لیکن اس کی کیفیت انسان کے اختیار میں ہے، درست نہیں۔
◈ اس میں دو مغالطے ہیں:
➊ گویا مسجد بنانے کا ارادہ تقدیر میں ہے لیکن اس کی کیفیت میں عقل کو مکمل اختیار حاصل ہے۔
➋ گویا کیفیت کا تعلق تقدیر سے نہیں بلکہ انسان کے ارادے سے ہے۔
◈ حقیقت یہ ہے کہ:
➊ مسجد بنانے کا ارادہ بھی انسان کے اختیار میں ہے۔
➋ اور اللہ تعالیٰ نے اسی ارادے اور کیفیت دونوں کو تقدیر میں شامل کیا ہے۔
➌ انسان کسی کام کے ارادے اور عمل کے وقت یہ نہیں جانتا کہ وہ اللہ کی تقدیر کے مطابق کام کر رہا ہے۔

گناہ کرنے کی مثال

◈ یہ بھی اسی نوعیت کی ہے جیسے مسجد بنانے کی مثال۔
◈ اللہ تعالیٰ نے اگر گناہ کو کسی بندے کی تقدیر میں لکھا ہے تو:
➊ وہ گناہ تب ہی سرزد ہوگا جب بندہ اسے اپنے ارادے سے انجام دے۔
➋ بندہ گناہ کرتے وقت یہ نہیں جانتا کہ وہ مجبور ہے یا نہیں۔
➌ جب گناہ مکمل ہو جاتا ہے تب علم ہوتا ہے کہ وہ تقدیر کا حصہ تھا۔
➍ اس عمل کی کیفیت بھی تقدیر کا ہی حصہ ہے۔

قرآن مجید سے دلائل

﴿أَلَم تَعلَم أَنَّ اللَّهَ يَعلَمُ ما فِى السَّماءِ وَالأَرضِ إِنَّ ذلِكَ فى كِتـبٍ إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسيرٌ﴾ (سورۃ الحج: 70)
’’کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے، اللہ اس کو جانتا ہے، یہ (سب کچھ) کتاب میں (لکھا ہوا) ہے بے شک یہ سب کچھ اللہ پر آسان ہے۔‘‘

﴿ وَكَذلِكَ جَعَلنا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَيـطينَ الإِنسِ وَالجِنِّ يوحى بَعضُهُم إِلى بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرورًا وَلَو شاءَ رَبُّكَ ما فَعَلوهُ فَذَرهُم وَما يَفتَرونَ﴾ (سورۃ الانعام: 112)
’’اور اسی طرح ہم نے شیطان (صفت) انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا، وہ دھوکا دینے کے لیے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی باتیں ڈالتے رہتے تھے اور (اے نبی!) اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا آپ ان کو اور جو کچھ یہ افترا کرتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔‘‘

﴿وَكَذلِكَ زَيَّنَ لِكَثيرٍ مِنَ المُشرِكينَ قَتلَ أَولـدِهِم شُرَكاؤُهُم لِيُردوهُم وَلِيَلبِسوا عَلَيهِم دينَهُم وَلَو شاءَ اللَّهُ ما فَعَلوهُ فَذَرهُم وَما يَفتَرونَ ﴾ (سورۃ الانعام: 137)
’’اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے دیوتاؤں نے ان کی اولاد کا قتل پسندیدہ بنا رکھا ہے تاکہ وہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے لیے ان کا دین مشکوک بنا دیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا آپ ان کو اور جو کچھ وہ جھوٹ باندھتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔‘‘

﴿وَلَو شاءَ اللَّهُ مَا اقتَتَلَ الَّذينَ مِن بَعدِهِم مِن بَعدِ ما جاءَتهُمُ البَيِّنـتُ وَلـكِنِ اختَلَفوا فَمِنهُم مَن ءامَنَ وَمِنهُم مَن كَفَرَ وَلَو شاءَ اللَّهُ مَا اقتَتَلوا وَلـكِنَّ اللَّهَ يَفعَلُ ما يُريدُ﴾ (سورۃ البقرۃ: 253)
’’اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے پچھلے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انہوں نے اختلاف کیا، تو ان میں سے بعض تو ایمان لے آئے اور بعض کافر ہی رہے اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ باہم جنگ وقتال نہ کرتے، لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل

◈ صحابہ کرامؓ جیسا مقدس اور علم دوست گروہ بھی تقدیر کے اسرار میں بحث و تکرار سے پرہیز کرتا تھا۔
◈ ان کی توجہ عمل پر تھی، نہ کہ پیچیدہ سوالات پر۔

نبی اکرم ﷺ کی واضح رہنمائی

صحیح بخاری اور مسلم کی احادیث میں نبی اکرم ﷺ نے تقدیر پر بحث چھوڑ کر عمل کرنے کی ترغیب دی:
«مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ کُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ فَقَلنا يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَفَلَا نَتَّکِل؟ (وفی رواية أفلا نتکل علی کتابنا وندع العمل) قال:لاَ اِعْمَلُوا فَکُلٌّ مُيَسَّر» (صحیح البخاری، کتاب القدر، باب وکان أمرالله قدرامقدورا، ومسلم، کتاب القدر، باب کیفیة خلق الآدمی فی بطن أمه)
’’تم میں سے ہر ایک کا جنت یا جہنم میں ٹھکانا لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم بھروسا نہ کرکے نہ بیٹھ رہیں؟ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ’’ کیا ہم اپنے لکھے ہوئے پر بھروسا نہ کر لیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، تم عمل کرو، ہر ایک کے لیے (اس کے عمل کو) آسان کر دیا گیا ہے۔‘‘

«اِعْمَلُوا فَکُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ أَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أهْلِ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقَاءِ فَيُيَسَّرُ بِعَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ» (صحیح البخاری، التفسیر، باب: ﴿فسنیسره للعسری﴾، صحیح مسلم، القدر، مسند احمد)
’’تم عمل کرو، ہر ایک کو اس عمل کی توفیق ملتی رہتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے، چنانچہ جو شخص اہل سعادت میں سے ہو، اس کے لیے سعادت کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے اور جو شخص اہل شقاوت میں سے ہو، اس کے لیے شقاوت و بدبختی کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے۔‘‘

تائید قرآنی

آپ ﷺ نے اس حدیث کے بعد درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں:
﴿فَأَمّا مَن أَعطى وَاتَّقى، وَصَدَّقَ بِالحُسنى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِليُسرى،وَأَمّا مَن بَخِلَ وَاستَغنى، وَكَذَّبَ بِالحُسنى، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلعُسرى﴾ (سورۃ اللیل: 5-10)
’’تو جس نے (اللہ کے راستے میں مال) دیا اور پرہیزگاری کی اور نیک بات کو سچ جانا، یقینا ہم اسے آسان طریقے (نیکی) کی توفیق دیں گے اور جس نے بخل کیا اور بے پروا بنا رہا اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا، تو یقینا ہم اسے مشکل راہ (بدی) کے لیے سہولت دیں گے۔‘‘

نتیجہ اور دعا

◈ تقدیر پر ایمان رکھنا فرض ہے، لیکن اس کے اسرار میں الجھنا منع ہے۔
◈ عمل کو ترک کرنا اور تقدیر پر کلی بھروسا کرنا گمراہی ہے۔
◈ انسان کو چاہئے کہ وہ نیک اعمال میں مشغول ہو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت اور سعادت کی دعا کرے۔

اللّٰہم! ہمیں عمل صالح کی توفیق دے، ہمیں آسان راہوں کی طرف ہدایت دے، مشکلوں سے بچا، اور دنیا و آخرت میں معافی عطا فرما۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1