۱۹۷۴ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی (پارلیمنٹ) قومی اسمبلی نے کثرت رائے کے ساتھ قادیانی۔ مرزائی ( بزعم خود احمدی) لاہوری گروپوں پر مشتمل مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا تھا۔ اپریل ۱۹۸۴ء کو (صدر جنرل محمد ضیاء الحق) نے دفعہ ۲۹۸۔ ب کے ذریعے قادیانی لاہوری گروپ کو زبانی یا تحریری طور پر مرزا غلام احمد کے جانشینوں کو امیر المومنین یا صحابہ کہنے یا ان کے اہل خانہ کو ام المومنین یا ان کے افراد کو اہل بیت کے نام سے موسوم کرنے یا اپنی عبادت گاہ کو مسجد کا نام دینے اور اس میں اذان دینے سے قانوناً روک دیا گیا ہے۔ خلاف ورزی کرنے والے کیلئے تین سال قید اور جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ یہ سزا اس شخص کو بھی دی جائے گی جو بلا واسطہ یا بالواسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرے یا اپنے مذہب کو اسلام کا نام دے کر تبلیغ و تشہیر کرے یا دو سروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے یا مسلمانوں کے مذہبی احساسات کو مجروح کرے۔ ( منقول علمی جائزہ صفحہ ۲) قانون کے مطابق ختم نبوت کے منکرین مسلمانوں کی اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے۔ ۱۹۸۴ء کے مندرجہ آلا صدارتی آرڈینس کو اب بھی موجودہ دستور میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے مکمل آئینی تحفظ حاصل ہے۔
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جانا عدالتی فیصلہ مقدمہ بہاولپور ۱۹۳۴ء کے مطابق آغاز ہوا۔ اس اولین فیصلے کی جو قادیانیوں کے خلاف ہوا مختصر روئداد قارئین ”ماہنامہ دعوت اہلحدیث‘‘ حیدر آباد سندھ کی خصوصی اشاعت میں پیش کی جارہی ہے۔ قبل ازیں یہ مقدمه کتاب بیانات ربانی برارتداد فرقه قادیانی۔ حافظ خالد لطیف حقانی بہاولپوری، تحفہ قادیانیت مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مقدمہ مرزائیہ بہاولپور تین جلد طبع لاہور ، حیات الشیخ محدث جلال پوری میں موجود ہے۔
مجلس تحفظ ختم نبوت نے ’’احتساب قادیانیت‘‘ کے نام سے ۲۰ جلدوں پر مشتمل سلسلہ کتب شائع کیا ہے جس میں دیگر علماء امت محمدیہ کی دفاع ختم نبوت و استیصال مرزائیت کی قدیمی مطبوعہ کتب کی اشاعت جدید کی ہے۔ اُس میں علماء اہلحدیث پاک و ہند کی تصانیف مولانا حبیب اللہ امرتسری، قاضی محمد سلیمان منصور پوری، شیخ الاسلام مولانا ابو الوفاثناء اللہ امرتسری تعداد ۳۴، مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی تعداد اا بھی شامل ہیں۔ مجلس کے منتظمین دیوبندی، حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان اعلیٰ خدمات کے باوجود متعدد بار کا عملی تجربہ ہے کہ درج بالا علماء اہلحدیث کو ” غیر مقلد‘‘ کے القابات سے ہی نواز کر تسکین قلبی فرماتے رہتے ہیں۔ بلکہ فیصل آباد میں سکنہ خالصہ کالج کے نزدیک باقیات علمائے لدھیانہ اپنی تصانیف میں تبغض درونی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدمات دفاع ختم نبوت سے متعلق علمائے اہل حدیث کا انکار کرتے ہیں۔ مزید خدمات علماء اہلحدیث کی تفصیل کیلئے ملاحظہ ہوں ’’ تحریک ختم نبوت‘‘ مرتبہ ڈاکٹر بہاؤالدین مطبوعہ مکتبہ قدوسیہ لاہور پاکستان و مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند۔ چھ جلدیں۔
القرآن:
قرآن مجید میں ہے: ” (لوگو) محمد (ﷺ )تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔“( سورہ الاحزاب : ۴۰)
یعنی نبوت آپ ﷺ پر ختم ہو گئی لہذا اللہ کے رسول ہونے کی حیثیت سے آپ ﷺ پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حلال چیز کو تم لوگوں نے حرام کر رکھا ہے اس کی حلت کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں کیونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی پیغمیر آنے والا نہیں ہے۔ (ترجمہ و مفہوم۔ الکتاب” ترتیب و تہذیب ڈاکٹر محمد عثمان بن مولانا ضیاء الرحمان عمر پوری امام مرکزی مسجد المحدیث کلکتہ ہند طبع لاہور سال اشاعت ۲۰۰۵، صفحه ۱۰۱۱۰۹۹۹٬۹۹۸)
فرمان رسول ﷺ:
(عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ – صلى الله عليه وسلم – إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبوة قدالنقطعَتْ فَلا رسُولَ بَعْدِی ولانبي )( حدیث ۲۲۷۲ جامع ترمذی تخفۃ الاحوذی کتاب الرؤیا، مسند احمد ص: ۲۶۷ جلد ۳۔)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین محمدﷺ نے فرمایا: رسالت اور نبوت کا سلسلہ منقطع (ختم) ہو چکا ہے میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔
تفصیلات مقدمہ بہاولپور:
مولانا الہی بخش (فاضل دیوبند) سکنہ کوٹلہ مغلاں تحصیل جام پور سابقہ ضلع ڈیرہ غازی خاں موجودہ ضلع راجن پور تکمیل تعلیم کے بعد تدریس کیلئے ” مدرسہ عربیہ بستی مہند علاقہ چنی گوٹھ تحصیل احمد پور شرقیہ ضلع بہاول پور حدود ریاست بہاولپور‘‘ میں ذمہ داریاں سنبھالی، اپنی دختر مسماۃ غلام عائشہ کا نکاح چھوٹی عمر میں اپنے رشتے دار مسمی عبدالرزاق ولد مولوی جان محمد سکنہ موضع جنگل واه لودهران علاقہ ضلع ملتان سے کردیا۔ مولانا الہی بخش صاحب کی دختر کی بلوغت عمر سے قبل ہی مذکورہ عبدالرزاق نے قبل ازوقت رخصتی کا مطالبہ بڑی شدت اور زور و شور کے ساتھ شروع کر دیا۔ یہ آدمی اس وقت محکمہ انہار سب ڈویژن میلسی علاقہ ملتان اب ضلع وہاڑی میں ملازم تھا اور خفیہ طور پر قادیانی بن چکا تھا اور چاہتا تھا کہ تبدیلی نظریہ ارتداد مرزائیت کے طشت ازبام ہونے سے قبل ہی رخصتی عمل میں آجائے۔ مسماۃ غلام عائشہ کے والد محترم کو کسی طرح معلوم ہو چکا تھا کہ مذکورہ شخص مرزائی ہو گیا ہے ، اپنی بیٹی کی رخصتی سے انکار کر دیا کہ فالج کے ارتداد کی وجہ سے نکاح ختم ہو چکا ہے۔
مولانا الہی بخش (رحمۃ اللہ علیہ)نے بہاولپور کی ایک عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ دائر کر دیا مگر رائج الوقت قانون کی کمزوریوں کی وجہ سے یہ مقدمہ خارج ہو گیا۔ اپیل دائر ہوئی تو وہاں بھی مقدمہ خارج ہوا پھر بہاولپور کی عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی گئی۔ عجب معاملہ ! وہاں سے بھی اخراج مقدمہ کی صورت دیکھنی پڑی۔ آخر نہایت ہی مایوسی کی حالت میں ایک آخری کوشش کی کہ ایک درخواست بنام نواب محمد صادق عباسی (والی ریاست) کو لکھی جس کے مضمون کا خلاصہ درج ذیل ہے:
’’میں ایک مسلمان عالم ہوں، اپنی چھوٹی بچی کا نکاح اپنے رشتہ دار عبدالرزاق سے کر دیا تھا۔ ابھی میری بچی چھوٹی تھی کہ عبد الرزاق قادیانی مرزائی بن گیا۔ شریعت اسلامیہ میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر نبوت ختم ہے ، جو شخص آپ ﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کرے یا ایسے مدعی نبوت کو مانے وہ مسیلمہ کذاب کی طرح ہے۔ میں نے جناب کی ریاست کی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے ہیں لیکن تمام عدالتوں نے میری بات پر کان نہیں دھرا اور میری بیٹی کے دعوی تنسیخ نکاح کو خارج کر دیا ہے۔ مجھے اس دنیا میں آپ ہی آخری سہارا نظر آئے ہیں اسلئے آپ سے درخواست گذار ہوں کہ اس مسئلہ کو حل فرمائیں اور میری بچی کو اس کافر کے شر سے بچائیں۔“ (سوانح مولانا سلطان محمود محدث جلال پوری صفحه : ۱۰۵- ۱۰۶)
یہ عرضی مولانا نے نواب صاحب کو اپنے محل سے سوار کار لکھتے ہوئے پیش کی۔ نواب صاحب نے درخواست خود لے کر پڑھی۔ اس پر تحریر کیا کہ ’’ عرض گزار کا مقدمہ شرعی اسلامی عدالت کے مطابق سنا جائے اور شریعت کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے۔ میرا یہ خصوصی حکم ہے کسی بھی عدالت کو اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں ہے۔ ‘‘ درخواست واپس مولانا کو دے دی کہ عدالت عالیہ میں چلے جائیں اور بڑے جج کے کمرہ عدالت میں اس کی میز پر رکھ دیں اگر وہ درخواست پر غور نہ کرے تو پھر میرے پاس آجانا۔
عدالت عالیہ نے اس اہم’’ مقدمہ مرزائیہ بہاولپور‘‘ کی سماعت شروع کی یہ روئیداد ۱۹۲۶ ء سے لیکر ۱۹۳۵ء تک جاری رہی۔ اس میں دونوں طرف سے فریقین مسلمان اور قادیانی علماء دلائل کے ساتھ پیش ہوتے رہے۔ علامہ غلام محمد گھوٹوی شیخ الحدیث جامعہ عباسیہ بہاولپور ، علامہ محمد حسین لوکو تارڑوی گوجرانوالہ داماد ابو سعید مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی کراچی، مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوری مراد آباد، مولاناسید انور شاہ کشمیری، مولانا نجم الدین پر وفیسر اور نیل کالج لاہور۔ ان علماء ذی وقار نے مدعی مقدمہ مرزائیہ بہاولپور مولانا الہی بخش کی حمایت میں دفاع عدالت عالیہ بہاولپور تشریف لا کر گیا۔
اس عظیم مقدمہ کیلئے مواد جمع کر کے فراہمی کا فریضہ مولانا حبیب اللہ امرتسری کلرک محکمہ انہار جو کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری کے بھانجے تھے اور مولانا عبد اللہ معمار امر تسری مؤلف ( محمدیہ پاکٹ تک بجواب احمدیہ پاکٹ بک طبع شدہ المکتبہ السلفیہ لاہور) نے احسن طریقے سے ادا کیا۔ یہ دونوں اصحاب علم و فضل مولانا ابولوفاء شاء اللہ امرتسری کے تربیت یافتہ تھے۔
شیخ الحدیث جامعہ عباسیہ بہاولپور علامہ غلام محمد گھوٹوی نے اپنے بیان عدالتی میں مورخہ ۱۸ جنوری ۱۹۲۸ء بمطابق ۲۲ رجب ۱۳۴۶ھ کو متعدد دلائل کا تذکرہ فرمایا۔(صفحہ : ۱۳۳ فیصلہ بہاولپور جلد اول) میں یہ بھی ذکر ہے کہ ’’مولوی ثناء اللہ امرتسری ایک مستند الحدیث عالم ہے کا فتویٰ ہے کہ مرد کے مرتد ہونے سے اس کا نکاح شرعاً فسخ ہو جاتا ہے
دوران دلائل علماء نے مرزا غلام احمد قادیانی کی تصانیف درج ذیل کے اقتباسات دیئے :
انجام آتھم ، از الته الاوهام- حقیقت الوحی، ضمیمہ حقیقت النبوة، اربعین، بر این احمدیہ حصہ پنجم، دفاع البلاء اعجاز احمدی، تریاق القلوب انوار الخلافت لوح هدی، حمامته البشری، توضیح المرام، کشتی نوح ، ست بچن، چشمه معرفت، تحفہ گولز دید، خطبہ الہامیہ آئینہ کمالات البريه البشر کی جلد اول۔ مجموعہ فتاوی احمد یہ جلد اول
قادیانی نظریات کی ترجمانی (مدعاعلیہ) کی طرف سے عدالت میں جلال الدین شمس، بیرسٹر چودھری نصر اللہ خان قادیانی اور صغیر سر ظفر اللہ خان قادیانی سابق وزیر خارجہ پاکستان نے کی۔( تحدیث نعمت از محمد ظفر اللہ خان صفحه : ۱۹۲)
اس مقدمہ کی سماعت کے دوران والی ریاست بہاولپور نواب صاحب پر گورنمنٹ برطانیہ کا بہت زیادہ دباؤ تھا کہ فیصلہ مرزائیوں کے حق میں سنایا جائے ، اس پریشر ودباؤ کا تذکرہ نواب صاحب نے خضر حیات ٹوانہ کے والد سر نواب عمر حیات ٹوانہ سے کیا کہ ’’ انگریز گورنمنٹ کا مجھ پر دباؤ ہے کہ ریاست بہاولپور سے اس مقدمہ کو ختم کرادیں اور مشورہ طلب کیا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیئے۔ سر عمر حیات ٹوانہ نے کہا کہ ہم انگریز کے وفادار ضرور ہیں، مگر اپنا دین، ایمان اور محبت رسالت مآب ﷺ کا تو ان سے سودا نہیں کیا۔ آپ ڈٹ جائیں اور ان سے کہیں کہ عدالت جو چاہے فیصلہ کرے میں حق و انصاف کے سلسلہ میں اس پر دباؤ ڈالنا نہیں چاہتا۔‘‘ (صفحہ : ۳۲ فیصلہ مقدمہ مرزائیہ بہاولپور) مرحوم و مغفور جناب محمد اکبر خان ڈسٹرکٹ جج بہاولپور نے مورخہ ۷ فروری ۱۹۳۵ء بمطابق ۳ ذیقعدہ ۱۳۵۳ھ کو فیصلہ سنایا کہ ’’ مرزائی قادیانی احمدی مرتد ہیں دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ مرزا کاذب مدعی نبوت ہے کسی بھی مسلمان عورت کا نکاح کسی احمدی مرزائی سے طے پانے کی کارروائی کو باطل اور حرام قرار دیا۔ لہذا اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتعداد مدعاعلیہ سے فسخ ہو چکا ہے۔‘‘
یہ ختم نبوت اور ناموس رسالت ﷺ کا فقید المثال فیصلہ جو سر زمین بہاولپور سے صادر ہوا آج بھی مسلمان امت اس پر فخر و انبساط کا اظہار کرتے ہوئے جتنا بھی شکر ادا کرے اتنا ہی کم ہے۔
اس فیصلہ کے بعد مولانا الہی بخش صاحب نے اپنی دختر مسماۃ غلام عائشہ کا نکاح مولانا عبد الحق ہاشمی سکی کے مشورہ سے شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود محدث جلال پوری کے ساتھ ہوا ۔ خطبہ نکاح اور ایجاب و قبول مولانا عبد الحق ہاشمی محدث ملتانی تلمیذ رشید محدث دہلی میاں سید نذیر حسین رحمہ اللہ علیہ نے سر انجام دیا اللہ تعالٰی تمام اصحاب کو جنہوں نے مقدمہ مرزائیہ بہاولپور میں صداقت و حقیقت ختم نبوت کا دفاع کیا جنت المعلیٰ میں اعلیٰ درجہ سے نوازے۔ آمین
کتابیات مأخذ مضمون:
ا۔ روئیداد مقدمہ مرزائیہ بہاولپور تین جلد شائع شدہ اسلامک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ) لاہور
۲۔ حیات ، خدمات، آثار مولانا سلطان محمود محدث جلال پوری مؤلف استاد مولانامحمد رفیق اثری صاحب۔
۳۔ احتساب قادیانیت جلد چہارم عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان۔
۴۔ماہنامہ نقیب ختم نبوت ملتان شماره فروری ۲۰۰۹ء
۵۔ سہ ماہی الزبیر بہاولپور نمبر ۱۹۹۴ اردو اکیڈمی بہاولپور
۶۔ مشاہیر بہاولپور از شہاب دہلوی اردو اکیڈمی بہاولپور
۷۔ قادیانی ولاہوری، مرزائی دائرہ اسلام سے خارج کیوں ہیں ؟ علمی جائزہ، تحریر مولانا فضل الرحمان بن محمد صاحب ناشر انجمن اہلحدیث مہر مبارک لاہور
۸۔ قادیانی کافر کیوں؟ مرتبہ ، مولانا ارشاد الحق اثری صاحب ادارہ اثریہ منٹگمری بازار فیصل آباد
۹۔تحدیث نعمت (آپ بیتی) محمد ظفر اللہ خاں قادیانی
وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ ( سورة هود: (۸۸))
ترجمہ: اور اللہ ہی نے مجھ کو یہ توفیق دی ہے اس پر میں بھروسا کرتا ہوں اور اُس کی طرف اپنادل لگاتا ہوں۔