تفسیر طبری: اسلامی تاریخ کی بے مثال قرآنی تفسیر
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

امام طبری رحمہ اللہ کی تفسیر، جسے "جامع البیان عن تاویل آی القرآن” کے نام سے جانا جاتا ہے، قرآن مجید کی تفسیر کے حوالے سے ایک گراں قدر اور عظیم علمی سرمایہ ہے۔

امام طبری کی تفسیر کے بارے میں علماء کی آراء

حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ:

"اَلتَّفْسِیرُ، لَمْ یُصَنِّفْ َأَحَدٌ مِّثْلَہ،.” ”اس جیسی تفسیر کسی نے نہیں لکھی۔”
(تاریخ بغداد: ٢/١٦٣)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ:

"تَفْسِیرُ مُحَمَّدِ بْنِ جَرِیرٍ الطَّبَرِيِّ، وَہُوَ مِنْ أَجَلِّ التَّفَاسِیرِ وَأَعْظَمِہَا قَدْرًا.” ”تفسیر طبری ایک جلیل قدر اور عظیم المرتبت تفسیر ہے۔”
(مجموع الفتاویٰ: ١٣/٣٦١)

مزید وہ فرماتے ہیں:

"وَأَمَّا التَّفَاسِیرُ الَّتِي فِي أَیْدِي النَّاسِ فَأَصَحُّہَا: تَفْسِیرُ مُحَمَّدِ بْنِ جَرِیرٍ الطَّبَرِيِّ فَإِنَّہ، یَذْکُرُ مَقَالَاتِ السَّلَفِ بِالْـأَسَانِیدِ الثَّابِتَۃِ وَلَیْسَ فِیہِ بِدْعَۃٌ.” ”تمام تفاسیر میں سے صحیح ترین تفسیر، محمد بن جریر طبری کی تفسیر ہے۔ آپ متقدمین مفسرین کے تفسیری اقوال صحیح سندوں سے ذکر کرتے ہیں۔ یہ تفسیر بدعی نظریات سے پاک ہے۔”
(الفتاویٰ الکبریٰ: ٥/٨٤، مجموع الفتاویٰ: ١٣/٣٨٥)

انہوں نے یہ بھی کہا:

"وَالتَّفَاسِیرُ الْمَأْثُورَۃُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعِینَ، مِثْلُ تَفْسِیرِ مُحَمَّدِ بْنِ جَرِیرِ الطَّبَرِيِّ.” ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور تابعین عظام سے منقول و ماثور تفاسیر جیسے محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ کی تفسیر۔”
(درء تعارض العقل والنقل: ٢/٢١)

مفسر ابن عطیہ رحمہ اللہ (٥٤١ھ):

"ثُمَّ إِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَرِیرِ الطَّبَرِيَّ رَحِمَہُ اللّٰہُ، جَمَعَ عَلَی النَّاسِ أَشْتَاتِ التَّفْسِیرِ، وَقَرَّبَ الْبَعِیدَ وَشَفٰی فِي الـإِسْنَادِ.” ”امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ نے لوگوں کے لیے تفسیری موتی چنے، دور پڑے علمی خزینے کو قریب کر دیا اور سند کا اہتمام کیا۔”
(المحرر الوجیز في تفسیر الکتاب العزیز المعروف بہ تفسیر ابن عطیہ: ١/٣١)

امام ابن کثیر رحمہ اللہ:

"رَوَی الْکَثِیرَ عَنِ الْجَمِّ الْغَفِیرِ، وَرَحَلَ إِلَی الْآفَاقِ فِي طَلَبِ الْحَدِیثِ، وَصَنَّفَ التَّارِیخَ الْحَافِلَ، وَلَہ، التَّفْسِیرُ الْکَامِلُ الَّذِي لَا یُوجَدُ لَہ، نَظِیرٌ، وَغَیْرُہُمَا مِنَ الْمُصَنَّفَاتِ النَّافِعَۃِ فِي الْـأُصُولِ وَالْفُرُوعِ.” ”امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے شیوخ و اساتذہ کے ایک جم ِغفیر سے کسب ِفیض کیا، طلبِ حدیث میں کئی اسفار کیے، ضخیم تاریخی کتاب تصنیف کی، نیز آپ رحمہ اللہ نے ایک بے مثال تفسیر بھی لکھی۔ اس کے علاوہ بھی آپ کی اصول و فروع میں بہت سی تصانیف ہیں۔”
(البدایۃ والنھایۃ: ١١/١٦٥، طبع إحیاء التراث)

امام ابن جریر رحمہ اللہ کے شاگرد عبد اللہ بن احمد بن جعفر ابو محمد فرغانی رحمہ اللہ (٣٦٢ھ):

"فَتَمَّ مِنْ کُتُبٍ یَّعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ جَرِیرٍ کَتَابَ تَفْسِیرِ الْقُرْآنِ وَجَوَّدَہ،، وَبَیَّنَ فِیہِ أَحْکَامَہ،، وَنَاسِخَہ، وَمَنْسُوخَہ،، وَمُشْکِلَہ، وَغَرِیبَہ،، وَمَعَانِیہِ، وَاخْتِلَافَ أَہْلِ التَّأْوِیلِ وَالْعُلَمَاءِ فِي أَحْکَامِہٖ وَتَأْوِیلِہٖ، وَالصَّحِیحَ لَدَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ، وَإِعْرَابَ حُرُوفِہٖ، وَالْکَلَامَ عَلَی الْمُلْحِدِینَ فِیہِ، وَالْقِصَصَ وَأَخْبَارَ الْـأُمَّۃِ، وَالْقِیَامَۃَ، وَغَیْرَ ذٰلِکَ مِمَّا حَوَاہُ مِنَ الْحِکَمِ وَالْعَجَائِبِ، کَلِمَۃً کَلِمَۃً، وَآیَۃً آیَۃً، مِنَ الِاسْتِعَاذَۃِ إِلٰی أَبِي جَادَ، فَلَوِ ادَّعٰی عَالِمٌ أَنْ یُصَنِّفَ مِنْہُ عَشْرَۃَ کُتُبٍ، کُلُّ کِتَابٍ مِّنْہَا یَحْتَوِي عَلٰی عِلْمٍ مُّفْرَدٍ عَجِیبٍ مُسْتَقْصًی لَّفَعَلَ.” ”امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ کی کتب میں سے ایک تفسیر القرآن ہے، آپ نے اس میں عمدگی کا مظاہرہ کیا، احکامات، ناسخ و منسوخ، مشکل و غریب، معانی و مفاہیم، علماء و مفسرین کے احکام اور تفسیری اختلافات، راجح اقوال، اعراب پر بحث، ملحدین پر ردود، سابقہ امتوں کے قصص، امت محمدیہ کے احوال، قیامت کے مناظر اور دیگر حکمتیں اور لطائف پر لفظ لفظ اور آیت آیت کر کے شروع سے آخر تک سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اگر کوئی عالم اس سے دس ایسی کتابیں تصنیف کرنا چاہے کہ جس میں سے ہر کتاب ایک علیحدہ، انوکھے اور تحقیقی فن کو محیط ہو، تو ایسا بعید نہیں۔”
(تاریخ دمشق لابن عساکر: ٥٢/١٩٦، طبقات المفسرین للداوودي: ٢/١١٤، واللفظ لہ، وسندہ، حسنٌ)

علامہ ابو الحسن علی بن یوسف قفطی رحمہ اللہ (٥٦٨۔٦٤٦ھ):

"اَلْعَالِمُ الْکَامِلُ الْفَقِیہُ الْمُقْرِیئُ النَّحْوِيُّ اللُّغَوِيُّ الْحَافِظُ الْـأَخْبَارِيُّ جَامِعُ الْعُلُومِ، لَمْ یُرَ فِي فُنُونِہٖ مِثْلُہ،، سَمِعَ بِبَلَدِہٖ وَبِلَادِ الْـأَعَاجِمِ وَالْعِرَاقِ وَالشَّامِ وَمِصْرَ وَالْحِجَازِ الْجَمَّ الْغَفِیرَ، وَاسْتَوْطَنَ بَغْدَادَ، وَصَنَّفَ التَّصَانِیفَ الْکِبَارَ؛ مِنْہَا تَفْسِیرُ الْقُرْآنِ الَّذِي لَمْ یُرَ أَکْبَرُ مِنْہُ وَلَا أَکْثَرُ فَوَائِدَ، وَکِتَابُ التَّارِیخِ، وَہُوَ أَجَلُّ کِتَابٍ فِي بَابِہٖ.” ”آپ رحمہ اللہ عالم کامل، فقیہ، مقری، نحوی، لغوی، حافظ حدیث، مؤرخ اور ہر فن مولاتھے۔ آپ کی شان کو کوئی نہیں پہنچ سکا، اپنے علاقے کے علاوہ عجم کے علاقے، عراق، شام، مصر اور حجاز وغیرہ میں ایک جم ِغفیر سے استفادہ کیا۔ مستقل ڈیرے بغداد میں ڈالے، کئی بڑی تصانیف لکھیں، جن میں تفسیر القرآن، جس سے بڑی اور مفید کتاب چشم ِفلک نے نہیں دیکھی اور تاریخ کے موضوع پر کتاب، جو اپنے میدان میں شہ کار کی حیثیت رکھتی ہے، شامل ہیں۔”
(إنباہ الرواۃ علی أنباہ النحاۃ: ٣/٨٩)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ:

"فَالَّذِینَ اعْتَنُوا بِجَمْعِ التَّفْسِیرِ مِنْ طَبْقَۃِ الْـأَئِمَّۃِ السِّتَّۃِ أَبُو جَعْفَرِ بْنُ جَرِیرٍ الطَّبَرِيُّ وَیَلِیہِ أَبُو بَکْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ بْنِ الْمُنْذَرِ النِّیسَابُورِيُّ وَأَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي حَاتِمِ بْنِ إِدْرِیسَ الرَّازِيُّ وَمِنْ طَبَقَۃِ شُیُوخِہِمْ عَبْدُ بْنُ حُمَیْدٍ بْنِ نَصْرِ الْکَشِيِّ.” ”چھٹے طبقے کے ائمہ میں سے جنہوں نے تفسیر قرآن کا بیڑا اٹھایا ہے، ان میں امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سب سے نمایاں ہیں۔ ان کے بعد امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن منذر نیشاپوری، ابو محمد عبد الرحمن بن ابو حاتم بن ادریس رازی رحمہ اللہ اور ان کے شیوخ کے طبقے میں عبد بن حمید بن نصر کشی رحمہ اللہ کا نام آتا ہے۔”

مزید وضاحت کرتے ہوئے ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

”ان چاروں تفاسیر میں شاید ہی کوئی ایسی آیت چھوٹ گئی ہو جس کی مرفوع، موقوف یا مقطوع تفسیر نہ دی گئی ہو۔ امام طبری رحمہ اللہ نے روایت کے حوالے سے دوسرے مفسرین پر برتری حاصل کی ہے۔ انہوں نے قراءت، اعراب، آیات کے معانی کی تفصیلات، اور مختلف اقوال میں راجح اور مرجوح کی وضاحت کرنے کا اہتمام بھی کیا ہے۔ بعد میں آنے والے کسی بھی عالم نے وہ سب کچھ جمع نہیں کیا جو امام طبری نے اپنی تفسیر میں جمع کر دیا۔ امام طبری ان تمام فنون میں بلند مرتبہ تھے، جب کہ بعد والوں میں دوسرے فنون غالب آ گئے، اس لیے امام طبری اس میدان میں ممتاز رہے۔”
(العجاب في بیان الأسباب: ١/٢٠٣)

حافظ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩-٩١١ھ):

"وَلَہ، التَّصَانِیفُ الْعَظِیمَۃُ مِنْہَا تَفْسِیرُ الْقُرْآنِ وَہُوَ أَجَلُّ التَّفَاسِیرِ لَمْ یُؤَلَّفْ مِثْلُہ، کَمَا ذَکَرَہُ الْعُلَمَاءُ قَاطِبَۃً، مِنْہُمُ النَّوَوِيُّ فِي تَہْذِیبِہٖ.” ”امام طبری رحمہ اللہ کی عظیم تصانیف میں تفسیر القرآن نمایاں ہے۔ یہ ایک بے نظیر تفسیر ہے، جیسا کہ تمام علمائے کرام کا اجماع ہے۔ ان علماء میں حافظ نووی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی کتاب ‘تہذیب الاسماء و اللغات’ میں یہ بات ذکر کی ہے۔ امام طبری نے اس تفسیر میں روایت اور درایت دونوں کو جمع کر دیا ہے۔ آپ سے پہلے اور بعد میں کوئی اور ایسا نہیں کر سکا۔”
(طبقات المفسرین، ص ٩٦)

سیوطی رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:

”امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ کے بعد آپ کی تفسیر کو سب سے بلند مقام حاصل ہے، پھر امام ابن ابو حاتم، ابن ماجہ، حاکم، ابن مردویہ، ابو شیخ ابن حیان اور ابن منذر رحمہم اللہ نے بھی تفسیری کام کیا۔ ان مفسرین نے اپنی تفاسیر میں صحابہ اور تابعین کے اقوال کو خاص اہمیت دی ہے۔ امام طبری کی تفسیر میں اضافی خوبی یہ ہے کہ آپ نے ان اقوال کی توجیہ و ترجیح، اعراب پر بحث، اور فقہی استنباط پر بھی زور دیا ہے، جس سے یہ تفسیر دیگر تفاسیر سے زیادہ مفید اور جامع بن گئی۔”
(الإتقان في علوم القرآن: ٤/٢٤٢)

آخری طور پر، حافظ سیوطی رحمہ اللہ امام ابن جریر طبری کے علمی کارنامے پر فیصلہ کن رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں:

"فَإِنْ قُلْتَ : فَأَیُّ التَّفَاسِیرِ تُرْشِدُ إِلَیْہِ وَتَأْمُرُ النَّاظِرَ أَنْ یُّعَوِّلَ عَلَیْہِ؟ قُلْتُ : تَفْسِیرُ الْإِمَامِ أَبِي جَعْفَرِ بْنِ جَرِیرٍ الطَّبَرِيِّ الَّذِي أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ الْمُعْتَبَرُونَ عَلٰی أَنَّہُ لَمْ یُؤَلَّفْ فِي التَّفْسِیرِ مِثْلُہ،.” ”اگر آپ پوچھیں کہ کون سی تفسیر سب سے زیادہ رہنما اور قابل اعتماد ہے؟ تو میرا جواب ہوگا کہ امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ کی تفسیر، جس کے بے مثال اور بے نظیر ہونے پر تمام معتبر علمائے کرام کا اجماع ہے۔”
(الإتقان في علوم القرآن: ٤/٢٤٤)

خلاصہ

امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ کی تفسیر، "جامع البیان عن تاویل آی القرآن"، اسلامی تاریخ کی عظیم الشان تفاسیر میں سے ایک ہے۔ مختلف ائمہ کرام، جیسے حافظ ابن حجر، حافظ سیوطی، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہم اللہ نے اس تفسیر کی عظمت کو سراہا اور اسے قرآنی تفاسیر میں ممتاز ترین اور مفصل ترین قرار دیا ہے۔ امام طبری نے تفسیر میں روایت اور درایت کو یکجا کیا اور اپنی تفسیر میں قرآنی آیات کی معانی، قراءت، اعراب، صحابہ و تابعین کے اقوال، اور فقہی استنباط پر جامع بحث کی ہے۔ علمائے کرام کے مطابق اس تفسیر نے جو جامعیت اور علمی بلندی پیش کی ہے، وہ بعد کی تفاسیر میں نہیں ملتی، اور یہ قرآنی تفاسیر میں ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے