تعویذ و گنڈے کا شرعی حکم: قرآن و حدیث کی روشنی میں تحقیقی جائزہ
یہ اقتباس شیخ ابو حذیفہ محمد جاوید سلفی کی کتاب آئینہ توحید و سنت بجواب شرک کیا ہے مع بدعت کی حقیقت سے ماخوذ ہے۔

تعویذ کی حقیقت :

دراصل معاشرے میں اعتقادی خرابیوں کا ایک مظہر تعویذ گنڈے کا رواج ہے اس سلسلے میں معاشرہ افراط و تفریط کا شکار ہے لہذا میں نے اس موضوع کو بھی زیر بحث لانا ضروری سمجھا تاکہ میرے سادہ لوح مسلمانوں کی قرآن وسنت کی روشنی میں صحیح راہنمائی کی جائے اور اس مسئلہ میں شریعت اسلامیہ کے صحیح نقطہ نظر کو واضح کیا جائے کیوں کہ آج کل ہر علاقے ہر گلی ومحلہ شہر اور دیہات میں جاہل قسم کے لوگ اس کاروبار میں مگن ہیں اور جن کو نام لکھنا بھی نہیں آتا وہ بھی پیر صاحب بن کر تعویذ فروخت کرنے میں مصروف ہیں۔ سادہ بچارے مسلمانوں کو دھوکا دے کر مال وایمان و عزت سب کچھ لوٹ رہے ہیں۔
مگر افسوس کہ ان ظالموں کو کوئی پوچھنے والا نہیں جو کوئی قرآن وسنت کی بات کرے تو فوراً اس پر وھابی کا فتویٰ لگ جاتا ہے مگر لوگوں کی کم علمی کا عالم یہ ہے کہ وہ دوست و دشمن کی پہچان ہی نہیں رکھتے۔ لوگوں کو وہم میں مبتلا کر دیا گیا ہے اگر کسی کے سر میں درد ہو جائے تو فوراً کہہ دیا جاتا ہے کہ آپ پر تو کسی نے تعویذ کر دیا ہے وہ اور پریشانی میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو بیمار کر لیتا ہے پھر وہ تلاش کرتا ہے کسی تعویذ نکالنے والے کو جب اس کے ڈیرے پر پہنچتا ہے تو وہ فوراً کہہ دیتا ہے کہ جناب یہ تو کسی نے انتہائی سخت وار کیا ہے اتنا خرچہ لے آؤ تو بچ جاؤ گے اس طرح کے ڈرامے کر کے لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے اور لوگ بن بھی جاتے ہیں۔
جو عام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلام کی صحیح تعلیمات پر عمل کریں وہاں مسلمانوں کے اس طبقہ کا بھی فرض ہے جو اسلام کی تعلیمات سے واقف ہیں کہ مسلمانوں کی اصلاح کے لیے ان خرابیوں کی نشان دہی اور ان کی صحیح راہنمائی کریں تعویذ لٹکانے والے کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ تعویذ مجھے ہر طرح کی پریشانی اور بیماری سے بچائے گا یہ میرے جسم کی درد کو دور کر دے گا۔
تعویذ تو مجھے نظر بد سے بچائے گا اور دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو بیماری یا نظر بد مجھے لگ چکی ہے اسے دور کرے گا بخار والے مریضوں کو پہنائے جاتے ہیں تاکہ تعویذ کے ذریعے بخار ٹھیک ہو جائے جبکہ یہ سارا بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے سب کام اُس کے اختیار میں ہیں۔
تعویذ لینے والے اس بات پر غور کیوں نہیں کرتے کہ تعویذ دینے والا اللہ کے راستے میں دیوار تو نہیں کیا اس کے پاس کوئی ایسا تعویذ ہے کہ مخلوق کی تعداد بڑھایا گھٹا سکے کوئی ایسا تعویذ نہیں ہے کہ جسے اللہ پیدا کرنا نہیں چاہتا اور تعویذ لکھنے والا تعویذ لکھ دے تو (نعوذباللہ) اللہ اپنا ارادہ بدل دے اور وہ پیدا ہو جائے جسے اللہ بیمار کرنا چاہتا ہے؟ بلکہ درحقیقت اسے کوئی شفا نہیں دے سکتا جسے رب شفا دینا چاہے اسے کوئی بیمار نہیں کر سکتا جسے اللہ دولت دینا چاہتا ہے کوئی اس کا دست قدرت روک نہیں سکتا جس پر وہ مفلسی بھیجنا چاہتا ہے کوئی اس کے خزانے سے چھین کر اسے کچھ نہیں دے سکتا اہل ایمان کو صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔
چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(سورۃ الانعام 6 :17)
اگر اللہ تمہیں کسی قسم کی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تم سے اس تکلیف کو دور کر سکے اور اگر وہ تمہیں کسی قسم کی بھلائی سے بہرہ مند کرے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ(سورۃ یونس 10 :107)
اور اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
اس طرح قرآن کریم میں ہے :
وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ(سورۃ النحل 16 :53-54)
تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اُسی کی طرف دوڑتے ہو مگر جب اللہ اس وقت کو ٹال دیتا ہے تو یکا یک تم میں سے ایک گروہ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک کر لیتا ہے۔
ان آیات مبارکہ میں اس بات پر واضح دلالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مشکل کشا نہیں اور اللہ ہی سے سب بندے خیر کے اور مشکل کشائی کے طالب ہوتے ہیں کیونکہ اسباب کے ذریعے یا اسباب کے بغیر وہی اس پر قادر ہے۔ اسباب کیا ہیں اس پر غور فرمائیں۔

اسباب کی دو قسمیں ہیں :

➊ شرعی ➋ فطری

شرعی اسباب :

وہ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بذریعہ نص قرآنی یا حدیث نبوی شرعی حیثیت دی ہے جیسے دعا اور جائز جھاڑ پھونک دم وغیرہ جن میں شرکیہ کلام نہ ہو یہ شرعی اسباب ہیں جن کا اثر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ظاہر ہوتا ہے خواہ بندہ خیر کا طالب ہو یا مشکل کشائی کا پس اس سبب کا اختیار کرنے والا دراصل اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوتا ہے جس نے اس کا حکم دیا ہے اور بیان فرمایا ہے کہ یہ چیزیں اسباب و ذرائع ہیں اس صورت میں اعتماد اللہ تعالیٰ پر ہی ہوتا ہے نہ کہ ان اسباب پر اس لیے کہ تمام اسباب کو اختیار کرنے کی صورت میں ہر وقت بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ ہی پر ہوتا ہے۔

فطری اسباب :

وہ ہیں جن کے ساتھ ان کی تاثیر کی ایسی واضح مناسبت ہے کہ لوگوں میں ان کا ادراک ہے اور عقلی طور پر عام ہو جیسے پانی پیاس بجھانے کا سبب ہے اور کپڑا سردی سے بچنے کا سبب ہے اسی طرح خاص مادوں سے بنی ہوئی دوائیں ان جراثیم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ جو بیماری کا سبب بنتے ہیں اور ان کے لیے زہر قاتل بن جاتی ہیں یہ فطری اسباب ہیں جن کو بروئے کارلانے کی اسلامی شریعت نے انسانوں کو ترغیب دلائی ہے لہذا ان اسباب کا استعمال دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کرنا ہے جس نے اسباب میں یہ متعین خواص پیدا فرمائے ہیں اور وہ جب چاہے ان کو زائل کر دینے پر قادر ہے جس طرح آگ سے جلانے کی خاصیت زائل کر دی جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لیے جلائی گئی تھی۔
رہا ان تعویذوں کا مسئلہ جو مختلف تعویذ فروشوں نے اپنے انداز میں بنائے ہوئے ہیں موتیوں دانوں گھونگوں گنتی پر مشتمل ہوں تو ان میں کسی کی بھی تاثیر کا کوئی فطری تصور ہے نہ شرعی آپ خود غور فرمائیں کہ ریٹھوں موتیوں کا یا گنتی کے تعویذوں کا بیماری دور کرنے سے کیا تعلق ہے یہ ایسے ہیں جن کا بیماری کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے بیماریوں کے لیے انہیں سبب بنایا ہے اور نہ ہی محسوس طور پر انسان مصائب وخطرات کے لیے انہیں فطری اسباب و ذرائع جانتا ہے لہذا ان پر بھروسہ کرنا جہالت ہے مومنوں کو تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔
جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (سورۃ المائدہ 5 :23)
اور اللہ پر ہی بھروسہ کرو اگر تم مومن ہو۔
جیسے موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَقَالَ مُوسَىٰ يَا قَوْمِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ (سورۃ یونس 10 :84)
موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو اسی پر بھروسہ کرو اگر تم مسلمان ہو۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ(سورۃ ابراہیم 14 :12)
اور بھروسہ کرنے والوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔
ہاتھ کی لکیروں پہ نہ جا اے غالب
نصیب ان کے بھی ہوتے ہیں جن کے ہاتھ نہیں ہوتے

قارئین محترم !

اگر انسان کا اللہ پر توکل کمزور ہے تو لازمی طور پر اس کا ایمان بھی کمزور ہے اللہ تعالیٰ نے توکل عبادت، ایمان، تقویٰ اسلام اور ہدایت کو ایک ساتھ جمع کیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ توکل ایمان اور احسان کے تمام درجات و مراتب کی اصل ہے بلکہ اسلام کے تمام اعمال کی اصل ہے الغرض توکل کی حیثیت اسلام میں اس طرح ہے جس طرح سر کی حیثیت جسم میں ہے جب انسان کا توکل کمزور ہوتا ہے تو ایمان بھی کمزور ہوتا ہے۔ جب ایمان کمزور ہوتا ہے پھر دھاگے وغیرہ پر ایمان رکھتا ہے آج کل انڈیا پاکستان میں آپ کو ہر تیسرا نوجوان نظر آئے گا جس نے جھولے لعل کا لال دھاگہ اپنی کلائی پر باندھا ہوتا ہے تبرک کے لیے اپنی کامیابی وکامرانی کے حصول کی خاطر کچھ لوگوں نے پاؤں کے ساتھ سیاہ رنگ کے دھاگے بخار سے نجات کے لیے باندھے ہوتے ہیں۔
کسی نے امام کے نام پر ایک تار پاؤں میں ڈالی ہوتی ہے اس کو امام ضامن کہتے ہیں سوچنے کی بات ہے کہ جن ائمہ کے نام کا ضامن بچاؤ کی ضمانت کے لیے پہنا جاتا ہے وہ خود اپنے دشمن سے اپنے آپ کو بچا نہ سکے شہید ہو گئے ان کے نام کی تار ہمارے دشمن سے ہمیں کیسے بچائے گی ایسی چیزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مقدس ہے :

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں تانبے کا چھلا دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے اُس نے جواب دیا یہ ریاح کی وجہ سے پہن رکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے نکال دو کیونکہ یہ بیماری کو زیادہ ہی کرے گا اور اگر تم اس حال میں مر گئے کہ یہ تمہارے جسم پر باقی رہا تو کبھی کامیاب نہیں ہو گے۔(مسند احمد 4 / 445 ، حاكم 4 / 216 تعویذ اور عقیده توحید صفحه : 31)

ایک دوسری حدیث میں

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :
من تعلق تميمة فلا اتم الله له ومن تعلق ودعة فلا ودع الله له(مسند احمد 154/4 ، حاكم 216/4)
جو تعویذ لٹکائے اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری نہ کرے اور جو گھونگا لٹکائے اللہ تعالیٰ اسے سکون وراحت عطا نہ کرے۔
وہ شاہد قفس ہی میں عمریں گنوائیں
گئیں بھول صحرا کی جن کو فضائیں

ایک اور حدیث میں

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دس آدمیوں پر مشتمل ایک جماعت آئی جن میں سے نو آدمیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت فرمائی ایک آدمی سے بیعت نہ لی لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے نو آدمیوں سے بیعت لے لی اور ایک آدمی کو چھوڑ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان عليه تميمة اس لیے کہ اس کے جسم پر تعویذ ہے اس شخص نے اپنا ہاتھ اندر داخل کر کے تعویذ کو کاٹ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت لے لی اور فرمایا :
من علق تميمة فقد اشرك(مسند احمد 4 / 156 حاکم 219/4 اور البانی رحمہ اللہ کی سلسله صحیحه حدیث : 492)
جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہتی ہیں کہ عبداللہ جب گھر آتے تو دروازہ پر پہنچ کر کھنکھارتے اور تھوکتے تا کہ اچانک ہم میں کوئی ایسی چیز نہ دیکھ لیں جو انہیں نا پسند ہو کہتی ہیں کہ ایک دن وہ آئے اور حسب عادت کھنکھارہ اس وقت میرے پاس ایک بوڑھی عورت تھی جو حمرہ (بیماری) کی وجہ سے جھاڑ پھونک کر رہی تھی۔ میں نے اس عورت کو چار پائی کے نیچے چھپا دیا عبداللہ میرے پاس آئے اور میرے ساتھ بیٹھ گئے انہوں نے میرے گلے میں ایک دھاگہ دیکھا تو پوچھا یہ کیسا دھاگہ ہے؟ میں نے کہا یہ دھاگہ ہے جس میں میرے لیے دم کیا گیا ہے وہ کہتی ہیں یہ سن کر عبداللہ نے پکڑ کر کاٹ دیا اور کہا بیشک عبد اللہ کا خاندان شرک سے بے نیاز ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے :
ان الرقى والتمائم والتولة شرك(مسند احمد 281/1 حاکم 4/ 217 میں صحیح کہا ہے ، ابن ماجہ 3530 اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ 2/ 269 میں صحیح کہا ہے)
جھاڑ پھونک تعویذ اور محبت کا منتر سب شرک ہیں۔

ایک اور جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

من تعلق شيئا وكل اليه(مسند احمد 4 210 حا کم 216/4 ترمذی اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی 2/ 208 میں حسن کہا ہے)
جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپرد کر دیا گیا۔

حاصل کلام

ان احادیث مبارکہ سے بشکل مجموعی قطعی طور پر تعویذ لٹکانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے بعض لوگ اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سے تعویذ فروش نجومیوں کے پاس چلے جاتے ہیں اور اپنے ہاتھ دکھاتے ہیں اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
من اتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلة(صحیح مسلم شریف حدیث : 2230)
جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کرے تو اس کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں کی جاتی۔ اور ایسے لوگوں کے پاس جا کر سوال کرنے اور وہ جو کچھ کہیں اس کی تصدیق کرنے والا شخص ایسے ہے جیسے اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی شریعت کا انکار کر دیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے پھر اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارے گئے دین الہی سے کفر کیا۔(صحیح الجامع للالبانی رحمہ اللہ حدیث : 5939)
میرے پہلو سے کیا پالا ستم گر سے پڑا
مل گئی ظالم تجھے کفران نعمت کی سزا

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے