تعلیمی رابطے کے لیے غیر محرم سے فون اور میسج کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاوی علمیہ (توضیح الاحکام)

کلاس فیلو لڑکی اور لڑکے کا تعلیمی امور میں رابطہ رکھنا

سوال:

اگر کسی کلاس میں ایک لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کے فون نمبرز کا تبادلہ کرتے ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف تعلیمی معاملات میں ایک دوسرے کی مدد کرنا ہو، تو کیا اس بنیاد پر ایک دوسرے کو ٹیکسٹ میسجز بھیجنا اور وصول کرنا شرعاً جائز ہوگا یا نہیں؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

✿ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مخلوط تعلیم (یعنی مرد و عورت کا ایک ہی تعلیمی ماحول میں ساتھ تعلیم حاصل کرنا) بذات خود ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔

مسلمان طلباء و طالبات کو چاہیے کہ وہ ایسی جگہوں پر تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریں جہاں مخلوط تعلیم نہ ہو۔

✿ اگر کسی مجبوری یا عذر کے تحت مخلوط ادارے میں تعلیم حاصل کرنا ناگزیر ہو، تو حتی الامکان یہ کوشش کی جائے کہ اگر مدد کی ضرورت ہو تو لڑکیاں لڑکیوں سے اور لڑکے لڑکوں سے مدد لیں۔

لڑکا کسی لڑکی سے، یا لڑکی کسی لڑکے سے رابطہ نہ کرے، کیونکہ فون پر مسلسل رابطہ بعد میں کسی فتنہ کا سبب بن سکتا ہے۔

ایک اہم فقہی اصول:

"دواعی الی الحرام ، حرام”
یعنی:
جو امور انسان کو حرام کی طرف لے جائیں، وہ خود بھی شرعاً حرام ہوتے ہیں۔

غیر محرم سے گفتگو کی شرعی حد:

کسی غیر محرم عورت سے بات چیت صرف اس وقت جائز ہے جب:

◈ بات وقار کے دائرے میں ہو،

◈ اس میں متانت ہو،

سنجیدگی ہو،

◈ اور شرعی حدود کا مکمل خیال رکھا گیا ہو۔

✿ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مختلف مسائل میں رہنمائی حاصل کی، لیکن یہ سب شرعی آداب اور حیا کے دائرے میں ہوا کرتا تھا۔

نتیجہ:

✿ تعلیمی امور میں لڑکا اور لڑکی کا فون نمبرز کا تبادلہ کرنا، ٹیکسٹ میسجز کا تبادلہ کرنا شرعاً درست نہیں جب تک اس میں فتنے کا اندیشہ موجود ہو یا شرعی آداب پامال ہو رہے ہوں۔

✿ بہتر اور محفوظ یہی ہے کہ اسی جنس کے فرد سے مدد لی جائے تاکہ کسی فتنے میں مبتلا نہ ہوں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1