تعزیت کرنا مشروع ہے
لفظ تعزیت کا معنی ”تسلی دینا“ ہے جو کہ باب عَزَى يُعَزِّي (تفعیل ) کا مصدر ہے۔
[المنجد: ص / 555]
➊ حضرت قرہ مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ساتھی کا بچہ فوت ہو گیا:
فعزاه عليه ثم قال يا فلان أيما كان أحب إليك أن تمتع به عمرك أو لا تاتي غدا إلى باب من أبواب الجنة إلا وجدته قد سبقك إليه يفتحه له
”تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعزیت کی پھر فرمایا ، اے فلاں ! تمہیں کون سی چیز زیادہ پسند ہے کہ تم اس (بچے) کے ذریعے اپنی زندگی کو فائدہ پہنچاؤ یا کل کو تم جب جنت کے دروازوں میں سے کسی دروازے کے پاس آؤ گے تو اسے وہاں پہلے سے موجود پاؤ گے اور وہ تمہارے لیے اسے (یعنی جنت کا دروازہ ) کھولے گا۔“
[نسائي: 296/1 ، حاكم: 384/1 ، أحمد: 35/5 ، بيهقى: 59/4 ، أحكام الجنائز للألباني: ص/205]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من عزى أخاه المؤمن فى مصيبة كساه الله حلة خضراء يـحبـر بـهـا يوم القيمة قيل يا رسول الله ما يحبر؟ قال يغبط
”جس نے اپنے کسی مومن بھائی کو مصیبت میں تسلی دی تو اللہ تعالیٰ اسے ایسا سبز لباس پہنائیں گے جس کے ذریعے روز قیامت اس پر رشک کیا جائے گا۔“
[حسن: أحكام الجنائز: ص/206 ، إرواء الغليل: 764 ، شيخ البانيؒ فرماتے هيں كه يه حديث شواهد كي بنا پر حسن درجه تك پهنچ جاتي هے۔]
➌ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من عزي مصابا فله مثل أجره
”جس نے کسی مصیبت زدہ کو تسلی دی تو اس کے لیے بھی اس (مصیبت زدہ) کے اجر کی مثل (اجر) ہے۔“
[ضعيف: إرواء الغليل: 765 ، أحكام الجنائز: ص/ 206 ، ترمذي: 1073 ، كتاب الجنائز: باب ما جاء فى أجر من على مصابا ، ابن ماجة: 1602]
تعزیت کے الفاظ
تعزیت کے لیے ایسے تمام الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے تسلی ہو جائے ، غم رک جائے ، اور صبر آ جائے ۔ البتہ نبی صلى الله عليه وسلم سے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں یہ الفاظ ثابت ہیں:
إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطى وَكُلُّ شَيْى عِندَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى فَلْتَصْبِرُ وَلَتَحْتَسِبُ
[بخاري: 1284 ، كتاب الجنائز: باب قول النبى يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه ، مسلم: 923 ، أحمد: 204/5 ، أبو داود: 3152 ، ابن ماجة: 1588]
(نوویؒ) جن الفاظ کے ساتھ تعزیت کی جائے ان میں یہ حدیث سب سے عمدہ ہے ۔
[الأذكار كما ذكره الألباني فى أحكام الجنائز: ص / 207]