تعدد رکعات وتر
عن ابن عمر عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الوتر ركعة من آخر الليل
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وتر ایک رکعت ہے رات کے آخری حصہ میں۔“ [صحیح مسلم: 257/1 ح 752]
فوائد
(1)اس حدیث سے ایک رکعت وتر کا جواز صراحت سے ثابت ہے۔
(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک رکعت کا ثبوت قولاً اور فعلاً دونوں طرح احادیث سے ثابت ہے۔ [مثلاً دیکھیے صحیح البخاری:136/1 ح 996، صحیح مسلم: 255/1-257 ح 745-751 وغیرہما]
(3)حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الوتر حق على كل مسلم فمن أحب أن يوتر بخمس فليفعل ومن أحب أن يوتر بثلاث فليفعل ومن أحب أن يوتر بواحدة فليفعل وتر ہر مسلمان پر حق ہے، پس جس کی مرضی ہو پانچ وتر پڑھے، اور جس کی مرضی ہو تین وتر پڑھے، اور جس کی مرضی ہو ایک وتر پڑھے۔“ [سنن ابی داود: 208/1 ح 1422، وسنن النسائی: 249/1 ح 1711]
اس حدیث کو امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔ [الاحسان: 63/4 ح 403]
اور حاکم و ذہبی دونوں نے بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ [المستدرک: ص 302/1]
(4)تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیں، پھر ایک وتر پڑھیں۔ [صحیح مسلم:254/1 ح 738، صحیح ابن حبان: الاحسان،70/4 ح 2426، مسند احمد: 76/2 ح 5461، معجم الاوسط للطبرانی: 422/1 ح 757]
ایسی ایک روایت المستدرک سے نقل کرنے کے بعد انور شاہ کاشمیری صاحب دیوبندی کہتے ہیں:
”یہ روایت قوی ہے۔ اس اعتراف کے بعد ببانگ دہل لکھواتے ہیں کہ میں چودہ سال تک اس حدیث (کے جواب) میں سوچتا رہا۔ اور پھر مجھے اس کا شافی و کافی جواب مل گیا۔“ [فیض الباری: 375/2، العرف الشذی: 107/1، معارف السنن:264/4، واللفظ لہ، درس الترمذی: 224/4]
یہ جواب اصلاً مردود ہے اور باطنیوں کی تاویلات سے بھی زیادہ بعید ہے۔ مومن کی تو یہ شان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان آجائے تو سر تسلیم خم کر دے۔ اس کا عمل اگر خلاف سنت تھا تو اب دلیل مل جانے پر اپنے عمل کو حدیث رسول کے مطابق کر لے۔ یہ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ حدیث رسول کو اپنے پہلے سے طے شدہ فرقے اور آباء و اجداد کے عمل کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا پھرے؟
”خود بدلتے نہیں، حدیث کو بدل دیتے ہیں۔“
اللہ تعالیٰ ایسی سوچ و فکر سے اپنی پناہ میں رکھے۔
(5)تین وتر نماز مغرب کی طرح ادا کرنے ممنوع ہیں۔ [دیکھیے صحیح ابن حبان: الاحسان17/4 ح 2420، المستدرک:304/1 ح 1137-1138، صحہ الحاکم والذہبی علی شرط البخاری و مسلم]
تین رکعت وتر ایک سلام سے پڑھنے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باسند صحیح ثابت نہیں ہیں۔
(6)خلیل احمد انبیٹھوی دیوبندی انوار ساطعہ کے بدعتی مولوی کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وتر کی ایک رکعت احادیث صحاح میں موجود ہے اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ابن عباس رضی اللہ عنہما صحابہ اس کے مقر اور مالک، شافعی و احمد کا وہ مذہب، پھر اس پر طعن کرنا مؤلف کا ان سب پر طعن ہے۔ کہو ایمان کا کیا ٹکھانا؟“ [براہین قاطعہ ص 7]