تشہد میں التحیات پڑھنا فرض ہے
«عن عبد الله بن مسعود رضى الله عنه فقال النبى صلى الله عليه وسلم: قولوا: التحيات لله والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، ثم ليتخير من الدعاء أعجبه إليه فيدعو»
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو:
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
پھر جو دعا پسند ہو، نماز میں کرو۔“ [صحیح البخاری: 115/1 ح 835 مختصراً]
فوائد
(1)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تشہد میں التحیات پڑھنا فرض ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے: قولوا تم کہو۔ واضح رہے الأمر للوجوب ، امر (اگر قرینہ صارفہ نہ ہو تو) وجوب کے لیے ہوتا ہے۔
(2)کتب احادیث میں صحیح اسانید کے ساتھ التحیات کے دوسرے صیغے بھی مروی ہیں۔ اس مسئلہ میں کوئی تنگی نہیں ہے، جو اختیار کریں، جائز ہے۔ تاہم تشہد ابن مسعود رضی اللہ عنہ زیادہ راجح ہے۔
(3)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ التحیات و درود کے بعد جو دعا پسند ہو وہ کریں، بشرطیکہ زبان عربی ہو اور دعا میں شریعت کی مخالفت نہ ہو۔ بعض لوگ صحیح مسلم (217/1 ح 588) وغیرہ کی دعا: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمِ کو صیغہ امر کی وجہ سے واجب قرار دیتے ہیں، مگر ان کی تحقیق اس حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
(4) السلام عليك أيها النبي کا مطلب السلام على النبى (ﷺ) ہے۔ [دیکھیے صحیح بخاری 926/2 ح 6265، حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ]
(5)حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ کی اقتدا میں السلام على النبي بھی پڑھ لے تو جائز ہے، مگر راجح وہی ہے جو اوپر حدیث میں درج ہے۔