ترک رفع یدین پر حدیث مسند ابوعوانہ

یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب میں رفع یدین کیوں کروں؟ سے ماخوذ ہے۔

حدیث مسند ابوعوانہ:

مسند الحمیدی کی حدیث کی طرح ” مسند ابی عوانہ “ کی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ترک رفع یدین پر استدلال کیا جاتا ہے۔ در حقیقت یہ بھی اثبات رفع یدین کی دلیل ہے۔ مسند ابی عوانہ کی روایت ملاحظہ ہو:
«حدثنا عبد الله بن أيوب المحزومي وسعد ابن نصر وشعيب ابن عمر و فى آخرين قالوا: ثنا سفيان بن عيينة عن الزهري عن سالم عن أبيه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة رفع يديه حتى يحاذي بهما ، وقال بعضهم ، حذو منكبيه وإذا أراد أن يركع وبعد ما يرفع رأسه من الركوع ، لا يرفعهما وقال بعضهم ، ولا يرفع بين السجدتين ، والمعنى واحد .»
[مسند ابي عوانه: 334/1، رقم: 1251.]
اب اس حدیث میں سے لا يرفعهما سے پہلے واؤ حذف ہے۔ اس ” واؤ“ کے خلاف ہونے سے یہ معنی بنتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے قبل اور بعد رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ حالانکہ یہ درست نہیں۔ جیسا کہ آئندہ تفصیل سے معلوم ہوگا۔ ان شاء اللہ!
➊ امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے باب اثبات رفع الیدین کا قائم کیا ہے۔
بيان رفع اليدين فى افتتاح الصلاة قبل التكبير بحذاء منكبيه وللركوع ولرفع رأسه من الركوع وانه لا يرفع بين السجدتين .
اس چیز کا بیان کہ نماز کے شروع میں تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنا، اور آپ سجدوں میں رفع الیدین نہ کرتے تھے۔“ جو کہ اس کی واضح برہان ہے۔ یہ تو بعید از عقل ہے کہ باب اثبات رفع الیدین کا اور دلیل عدم رفع الیدین کی ہو۔
➋ امام ابوعوانہ رحمہ اللہ خط کشیدہ عبارات میں اختلاف رواۃ بیان کر رہے ہیں۔ اگر لا يرفعهما کا تعلق پچھلی عبارت سے جوڑا جائے تو آگے عبارت ولا يرفع بين السجدتين والمعنى واحد میں ” والمعنى واحد “ یعنی ” معنی ایک ہے“ کی کوئی تک نہیں بنتی۔ اگر لا يـــرفــعـهــمــا اور ولا يـــرفـع بيـن السجدتين کو ایک ہی تسلیم کیا جائے۔ جبکہ حقیقت بھی یہی ہے تو ” والمعنى واحد “ کی بات بنتی ہے وگرنہ نہیں۔ فلیتدبر !
➌ آگے امام ابو عوانہ مزید رقمطراز ہیں:
«حدثنا الربيع بن سليمان ، عن الشافعي عن ابن عيينة بنحوه ، ولا يفعل ذلك بين السجدتين ، حدثني أبو داود ، قال: ثنا على قال: ثنا سفيان ، ثنا الزهري أخبرني سالم عن ابيه ، قال: رأيت رسول الله بمثله . »
[مسند ابي عوانه: 334/1، رقم: 1251.]
اب ”ربیع بن سليمان عن الشافعي “ طرق کو ” بنحوہ “ کہہ کر یہ واضح کیا ہے کہ ” ربيع عن الشافعی “ طریق سے مروی حدیث بھی مذکورہ بالا حدیث کے معنی جیسی ہے۔ جو کہ ” نحوہ“ سے مترشح ہے۔ اب ”ربیع عن الشافعی “ طریق سے مروی حدیث ( کتاب الام: 203/1، طبع بیروت ) میں موجود ہے، اور اثبات رفع الیدین کی دلیل ہے۔ جیسا کہ ”کتاب الام“ کی مراجعت سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
➍ اسی طرح ” مسند الشافعی (ص: 72 ، رقم: 209 ،210)“ میں بھی امام شافعی ، امام سفیان بن عیینہ سے اثبات رفع یدین بیان فرماتے ہیں: جس سے معلوم ہوا کہ حدیث ابو عوانہ در حقیقت رفع یدین کی دلیل ہے۔
➎ اس سے آگے امام عوانہ نے ”ابو داؤد از علی ابن المدینی از ابن عیینہ“ سند بیان کی ہے۔ تو ”امام علی بن المدینی“ کی حدیث ” سفیان بن عیینہ “ سے اثبات رفع یدین کی ہے نہ کہ عدم رفع کی۔ جیسا کہ جزء رفع الیدین [ للبخاري، ص: 35، رقم: 2] میں واضح موجود ہے۔
➏ امام ابوعوانہ کے استاد ”سعدان بن نصر “(جیسا کہ اوپر عربی متن میں ہے ) کے طریق سے ” امام بیہی “ نے مذکورہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کی ہے۔ جس میں رفع یدین کا اثبات ہے، نہ کہ نفی۔
[السنن الكبرى للبيهقي: 2/ 69 .]
➐ مسند ابی عوانہ کے قلمی نسخے میں لا يرفعهما سے پہلے واؤ موجود ہے۔ جو کہ مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب کی لائبریری میں موجود ہے۔
➑ اس طرح” پیر جھنڈا سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ “ کے مکتبہ نیو سعید آباد، سندھ میں بھی مسند ابی عوانہ کا قلمی نسخہ ہے۔ اس میں بھی ” واؤ “موجود ہے۔ اور اس نسخے کا عکس ” حدیث اور اہل الحدیث“ کتاب کے آخر میں ”انوار خورشید دیوبندی“ نے بھی دیا ہے۔ ان تمام حوالہ جات کا عکس ( قرآن و حدیث میں تحریف) نامی کتاب میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
فائدہ:
یہ بات یاد رہے کہ امام صاحب کی تقلید میں حق بات کو چھپانا، صحیح احادیث کو ضعیف یا نا قابل عمل منسوخ قرار دینا، احادیث کی تخریج میں تساہل ، تجاہل عارفانہ برتنا، الفاظ کا ہیر پھیر ، جسے تحریف کہا جاتا ہے، علماء احناف کا وطیرہ وشیوہ ہے، اس وباء میں کبار علماء احناف بھی مبتلا تھے مثلاً لفظ ”سعبہ کو سعیہ“ بنا دینا، حدیث صحیح بخاری کی ہو تو اسے دار قطنی کی طرف منسوب کرنا، ان کے قلت علمی پر دلالت کرنے والی باتیں ہیں۔ بقول کسے ان کی حالت زار تو یہ ہے
شیخ سعدی نے دیوانِ غالب میں لکھا ہے:
ساری عمر تو کٹی عشق بتاں میں مومن
آخر عمر کیا خاک مسلمان ہوں گے
یعنی شعر مومن کا ، لکھنے والے شیخ سعدی اور لکھا دیوانِ غالب میں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء