اس مضمون میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب اُس اثر کا علمی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تکبیرِ تحریمہ کے بعد نماز میں دوبارہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ محدثینِ کرام کے نزدیک یہ اثر سنداً و علّتاً کمزور ہے، اور متعدد ائمۂ حدیث نے اسے “واہی/غیر ثابت/منکر” قرار دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں بعض متاخر فقہی/شرحی مصادر میں اس اثر کو مضبوط بنانے کی کوشش کی گئی، مگر اصولِ حدیث کی روشنی میں وہ کوششیں محلِ نظر ہیں۔ اصل ہدف یہ واضح کرنا ہے کہ رفع الیدین کی نفی حضرت علیؓ سے ثابت نہیں، جبکہ رفع الیدین کے اثبات کی روایات قوی تر اور زیادہ محفوظ ہیں۔
اصل اثر: مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت
① مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت (2442)
مَنْ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ ثُمَّ لَا يَعُودُ
2442 – حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قِطَافٍ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ عَلِيًّا، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُودُ»
اردو ترجمہ:
“حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ وہ جب نماز شروع کرتے تو (ابتداء میں) ہاتھ اٹھاتے، پھر (اس کے بعد) دوبارہ نہ اٹھاتے۔”
الكتاب: المصنف في الأحاديث والآثار
المؤلف: أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمان العبسي (المتوفى: 235هـ)
مختصر وضاحت:
یہ اثر موقوفاً حضرت علیؓ کے قول/عمل کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، مگر محدثین کے نزدیک اس کی سند میں ایسے پہلو موجود ہیں جن کی بنا پر اسے مستقل حجت بنانے میں کلام ہے۔
مصنفاتِ طبقہ ثالثہ اور مقامِ احتجاج
② شاہ ولی اللہ دہلوی کی تقسیم: طبقہ ثالثہ کی کتابوں کا عمومی مزاج
والطبقة الثَّالِثَة: مسانيد وجوامع ومصنفات صنفت – قبل البُخَارِيّ وَمُسلم وَفِي زمانهما وبعدهما – جمعت بَين الصَّحِيح وَالْحسن والضعيف
وَالْمَعْرُوف والغريب والشاذ وَالْمُنكر وَالْخَطَأ وَالصَّوَاب وَالثَّابِت والمقلوب…
فَهِيَ بَاقِيَة على استتارها واختفائها وخمولها كمسند أبي عَليّ ومصنف عبد الرازق ومصنف أبي بكر بن أبي شيبَة… وَكَانَ قصدهم جمع مَا وجدوه لَا تلخيصه وتهذيبه وتقريبه من الْعَمَل.
اردو ترجمہ:
“طبقہ ثالثہ میں وہ مسانید، جوامع اور مصنفات داخل ہیں جو بخاری و مسلم سے پہلے، ان کے زمانے میں یا ان کے بعد تصنیف ہوئیں۔ ان میں صحیح، حسن، ضعیف؛ معروف، غریب، شاذ، منکر؛ خطا و صواب؛ ثابت و مقلوب—ہر قسم کی روایات جمع ہو جاتی ہیں… اور ان مصنفین کا مقصد عمومًا مواد کو جمع کرنا ہوتا ہے، نہ کہ اسے تلخیص کرکے تہذیب و تنقیح کے ساتھ عمل کے قابل بنانا۔”
الكتاب: حجة الله البالغة
اسی ضمن میں شاہ ولی اللہ کا ایک اصولی جملہ:
وَأما الثَّالِثَة فَلَا يُبَاشِرهَا للْعَمَل عَلَيْهَا وَالْقَوْل بهَا إِلَّا النحارير الجهابذة الَّذين يحفظون أَسمَاء الرِّجَال وَعلل الْأَحَادِيث، نعم رُبمَا يُؤْخَذ مِنْهَا المتابعات والشواهد.
اردو ترجمہ:
“طبقہ ثالثہ کی روایات پر براہِ راست عمل/استدلال کا کام اہلِ فن کے لیے ہے جو رجال اور علل کو جانتے ہوں؛ البتہ ان کتابوں سے کبھی کبھی متابعات و شواہد اخذ کیے جاتے ہیں۔”
الكتاب: حجة الله البالغة
مختصر وضاحت:
یہ فنی تنبیہ اس لیے اہم ہے کہ مصنفات میں بہت سا مواد جمع ہوتا ہے؛ اس لیے کسی منفرد اثر کو بلا تحقیق “اصل مسئلہ” بنا لینا محدثین کے منہج کے مطابق نہیں۔
ائمۂ حدیث کی جرح اور روایت کے ضعف کی صریح شہادتیں
③ امام دارمی کا حکم (امام بیہقی کی صحیح سند سے نقل)
3277 – قَالَ الدَّارِمِيُّ: فَهَذَا قَدْ رُوِيَ مِنْ هَذَا الطَّرِيقِ الْوَاهِي عَنْ عَلِيٍّ.
اردو ترجمہ:
امام دارمی نے فرمایا: “یہ (اثر) حضرت علیؓ سے اسی کمزور (واہی) طریق سے روایت کیا گیا ہے۔”
الكتاب: معرفة السنن والآثار
امام دارمی کا تعارف (ائمہ کی توثیق کے ساتھ):
الإِمَامُ، العَلاَّمَةُ، الحَافِظُ، النَّاقِدُ… الدَّارِمِيُّ… صَاحِبُ (المُسْنَدِ) الكَبِيْرِ وَالتَّصَانِيْفِ.
اردو ترجمہ:
امام دارمی: امام، علامہ، حافظ، ناقد… اور بڑے مسند و تصانیف کے صاحب۔
الكتاب: سير أعلام النبلاء
عُثْمَان بن سعيد… الدارمى… مُحدث هراة وَأحد الْأَعْلَام الثِّقَات… الإِمَام فى الحَدِيث وَالْفِقْه…
اردو ترجمہ:
عثمان بن سعید دارمی… ہرات کے محدث، ثقہ اعلام میں سے، حدیث و فقہ کے امام…
الكتاب: طبقات الشافعية الكبرى
مختصر وضاحت:
جب ایک ناقد امام اس اثر کے طریق کو “واہی” کہہ رہا ہو تو اصولاً یہ جرح وزن رکھتی ہے، اور یہی محدثین کی راہ ہے۔
④ امام شافعی کا فیصلہ: “حضرت علیؓ سے یہ ثابت نہیں”
وفي القديم للشافعي قال… قال الشافعي: ما قاله لا يثبت عن علي وابن مسعود
اردو ترجمہ:
امام شافعی (کتابِ قدیم) کے مطابق: حضرت علیؓ اور ابن مسعودؓ سے یہ بات ثابت نہیں کہ وہ تکبیرِ تحریمہ کے سوا نماز میں کسی جگہ رفع الیدین نہ کرتے تھے۔
الكتاب: شرح ابن ماجه لمغلطاي
مختصر وضاحت:
یہ بہت مضبوط اصولی نکتہ ہے کہ جب ایک امامِ مجتہد/محدث واضح کرے کہ یہ نسبت “ثابت نہیں”، تو اسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
⑤ سفیان ثوری کا انکار (امام بخاری کی نقل)
… قال بن مهدي ذكرت لسفيان عن أبي بكر عن عاصم بن كليب أن عليا كان يرفع يديه ثم لا يعود فأنكره
اردو ترجمہ:
عبدالرحمن بن مہدی نے فرمایا: میں نے سفیان (ثوری) کے سامنے وہ روایت ذکر کی کہ حضرت علیؓ رفع الیدین کرتے پھر دوبارہ نہ کرتے؛ تو سفیان ثوری نے اس کا انکار کر دیا۔
الكتاب: الكنى للبخاري
مختصر وضاحت:
یہاں اصل نقطہ “انکار” ہے؛ یعنی ائمۂ نقد کے نزدیک یہ بات محفوظ نہیں۔
⑥ حافظ ابن الملقن کی تصریح: اثر ضعیف ہے
وَأما الْآثَار فأثر عَلّي رَضِيَ اللَّهُ عَنْه ضَعِيف لَا يَصح عَنهُ، وَمِمَّنْ ضعفه البُخَارِيّ
اردو ترجمہ:
“حضرت علیؓ سے منسوب یہ اثر ضعیف ہے اور ان سے صحیح ثابت نہیں؛ اور جنہوں نے اسے ضعیف کہا ان میں امام بخاری بھی ہیں۔”
الكتاب: البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير
مختصر وضاحت:
یہ کلام امام بخاری کے موقف کی تائید بھی ہے کہ نفی والی روایت قوی نہیں۔
⑦ امام احمد بن حنبل کے طریق سے نفی والی روایت پر نکتہ
… قَالَ ابي وَلم يروه عَن عَاصِم غير ابي بكر النَّهْشَلِي اعلمه كَأَنَّهُ انكره
اردو ترجمہ:
عبداللہ بن احمد کہتے ہیں: میرے والد (امام احمد) نے فرمایا: “میرے علم کے مطابق عاصم (بن کلیب) سے یہ اثر ابو بکر نہشلی کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا، گویا اسے (اپنی جگہ) منکر سمجھا گیا۔”
الكتاب: مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله
مختصر وضاحت:
یہاں “انفراد” کا مسئلہ ابھر کر سامنے آتا ہے؛ اور انفراد کے ساتھ جب ائمۂ نقد کے اشارات بھی ہوں تو ضعف مزید واضح ہوتا ہے۔
⑧ ابن عبدالہادی المقدسی: نفی ثابت نہیں
وقد روى هذه السُّنَّة عن رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جماعة من الصحابة منهم: عمر وعليٌّ
اردو ترجمہ:
رفع الیدین کی سنت کو صحابہ کی ایک جماعت نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے، جن میں عمر اور علیؓ بھی شامل ہیں۔
الكتاب: تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق
ولم يثبت عن أحدٍ من الصحابة أنَّه لم يرفع
اردو ترجمہ:
“کسی ایک صحابی سے بھی یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے (نماز میں) رفع الیدین نہ کیا ہو۔”
الكتاب: تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق
مختصر وضاحت:
یہ عبارت مسئلے کا خلاصہ ہے: نفی والی نسبت صحابہ میں سے کسی سے ثابت نہیں۔
⑨ امام بیہقی: ابو بکر نہشلی کی منفرد روایت سے نئی سنت ثابت نہیں ہوتی
وَلَكِنْ لَيْسَ أَبُو بَكْرٍ النَّهْشَلِيُّ مِمَّنْ يُحْتَجُّ بِرِوَايَتِهِ أَوْ تَثْبُتُ بِهِ سُنَّةٌ لَمْ يَأْتِ بِهَا غَيْرُهُ
اردو ترجمہ:
“ابو بکر نہشلی ایسے راوی نہیں کہ ان کی روایت سے مستقل احتجاج کیا جائے، یا ان کی ایسی منفرد روایت سے کوئی سنت ثابت کی جائے جسے ان کے علاوہ کسی اور نے بیان نہ کیا ہو۔”
الكتاب: الخلافيات بين الإمامين الشافعي وأبي حنيفة وأصحابه
مختصر وضاحت:
یہاں امام بیہقی اصولی قاعدہ لگا رہے ہیں: منفرد/غیر مضبوط راوی کے ذریعے مستقل سنت ثابت کرنا درست نہیں۔
⑩ علی بن المدینی: عاصم بن کلیب کے انفراد پر احتجاج نہیں
وقال ابن المديني في العلل الكبير: لا يحتج به إذا انفرد.
اردو ترجمہ:
امام علی بن المدینی نے “العلل الکبیر” میں فرمایا: “جب عاصم (بن کلیب) منفرد ہو تو اس سے احتجاج نہیں کیا جائے گا۔”
الكتاب: إكمال تهذيب الكمال فى أسماء الرجال
مختصر وضاحت:
یہ اثر چونکہ اسی مدار پر گھوم رہا ہے، اس لیے یہ جرح براہِ راست اثر کے وزن کو کم کرتی ہے۔
⑪ امام بزار: عاصم کے حدیث میں اضطراب
وَهَذَا الْحَدِيثُ رَوَاهُ عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، وَعَاصِمٌ فِي حَدِيثِهِ اضْطِرَابٌ،
اردو ترجمہ:
“یہ حدیث عاصم بن کلیب نے روایت کی ہے، اور عاصم کی حدیث میں اضطراب پایا جاتا ہے۔”
الكتاب: مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار
مختصر وضاحت:
اضطراب بذاتِ خود روایت کے ضعف کا سبب بنتا ہے، خصوصاً جب قرائنِ نقد بھی ساتھ ہوں۔
⑫ امام بخاری: اثباتِ رفع والی روایت “اصح” ہے
قَالَ الْبُخَارِيُّ… وَحَدِيثُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَصَحُّ مَعَ أَنَّ حَدِيثَ كُلَيْبٍ هَذَا لَمْ يَحْفَظْ رَفْعَ الْأَيْدِي , وَحَدِيثُ عُبَيْدِ اللَّهِ هُوَ شَاهِدٌ.
اردو ترجمہ:
امام بخاری نے فرمایا: ابو بکر نہشلی نے عاصم بن کلیب سے اور وہ اپنے والد سے حضرت علیؓ کی طرف یہ نقل کیا… مگر “عبید اللہ (بن ابی رافع) والی حدیث زیادہ صحیح ہے”، اور کلیب والی روایت میں رفع الیدین محفوظ نہیں رہا؛ جبکہ عبید اللہ کی روایت شاہد ہے (یعنی اثبات کی تائید کرتی ہے)۔
الكتاب: قرة العينين برفع اليدين في الصلاة
مختصر وضاحت:
یہ امام بخاری کی صریح ترجیح ہے: اثباتِ رفع والی روایت راجح ہے، اور نفی والی روایت “محفوظ” نہیں۔
⑬ ابن سید الناس: نفی ثابت نہیں
لم يثبت عن أحدٍ من الصحابة أنَّه لم يرفع
اردو ترجمہ:
“کسی ایک صحابی سے بھی رفع الیدین کی نفی ثابت نہیں۔”
الكتاب: النفح الشذي في شرح جامع الترمذي
مختصر وضاحت:
یہی نتیجہ متعدد ائمۂ نقد کے کلام سے نکلتا ہے کہ نفی کی نسبت ثابت نہیں۔
⑭ سعید بن جبیر (مفتی کوفہ) کا بیان: صحابہ کا معمول
… عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَفْعِ الْيَدَيْنِ، فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ: هُوَ شَيْءٌ يُزَيِّنُ بِهِ الرَّجُلُ صَلَاتَهُ، كَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ فِي الِافْتِتَاحِ، وَعِنْدَ الرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعُوا رُءُوسَهُمْ "
اردو ترجمہ:
سعید بن جبیر سے رفع الیدین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: “یہ وہ چیز ہے جس سے آدمی اپنی نماز کو مزین کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نماز کے آغاز میں، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔”
الكتاب: السنن الكبرى
مزید تعارفِ سعید بن جبیر:
وبإسناده أن ابن عباس كان إذا أتاه أهل الكوفة يسألونه يقول: أليس فيكم سعيد بن جبير… كان يقال: سعيد بن جبير جهبذ العلماء
اردو ترجمہ:
ابن عباسؓ فرمایا کرتے تھے: “کیا تم میں سعید بن جبیر نہیں؟” اور ان کے بارے میں کہا جاتا تھا: “سعید بن جبیر علماء کے جَہبَذ (نکتہ رس) ہیں۔”
الكتاب: تهذيب الأسماء واللغات
مختصر وضاحت:
یہ بیان صحابہ کے عمومی معمول کی تائید کرتا ہے، اور نفی والی منفرد نسبت کے خلاف عمومی شہادت بنتا ہے۔
بعض متاخر توجیہات اور ان کا اصولی جائزہ
⑮ امام طحاوی کی توجیہ اور اس پر اصولی کلام
طحاوی نے ایک استدلالی انداز میں یہ کہا:
… وَإِنْ كَانَ مَا رَوَى ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ صَحِيحًا… فَإِنَّ عَلِيًّا لَمْ يَكُنْ لِيَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْفَعُ , ثُمَّ يَتْرُكُ هُوَ الرَّفْعَ بَعْدَهُ إِلَّا وَقَدْ ثَبَتَ عِنْدَهُ نَسْخُ الرَّفْعِ… فَحَدِيثُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , إِذَا صَحَّ , فَفِيهِ أَكْثَرُ الْحُجَّةِ لِقَوْلِ , مَنْ لَا يَرَى الرَّفْعَ.
اردو ترجمہ:
“اگر (مرفوع) روایت صحیح مان لی جائے… تو حضرت علیؓ نبی ﷺ کو رفع الیدین کرتے دیکھ کر بعد میں ترک نہ کرتے، مگر یہ کہ ان کے نزدیک رفع الیدین منسوخ ہونا ثابت ہو چکا ہو۔ پس اگر حضرت علیؓ والی روایت صحیح ہو تو اس میں رفع الیدین نہ کرنے والوں کے لیے بڑی حجت ہے۔”
الكتاب: شرح معاني الآثار
لیکن خود طحاوی نے یہ بھی واضح کیا:
فَمَا أَرَدْتُ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ تَضْعِيفَ أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ… وَلَكِنِّي أَرَدْتُ بَيَانَ ظُلْمِ الْخَصْمِ لَنَا.
اردو ترجمہ:
“میرا مقصد اہلِ علم میں سے کسی کو ضعیف کہنا نہیں… میں تو بس مخالف کے طرزِ عمل کا جواب واضح کرنا چاہتا ہوں۔”
الكتاب: شرح معاني الآثار 1/227
اور ایک جگہ فرمایا:
مَعَ أَنِّي لَا أُحِبُّ أَنْ أَطَعْنَ عَلَى أَحَدٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ… وَلَكِنْ ذَكَرْتُ مَا تَقُولُ أَهْلُ الرِّوَايَةِ فِي ذَلِكَ.
اردو ترجمہ:
“مجھے علماء میں سے کسی پر طعن پسند نہیں… میں نے تو وہ بات ذکر کی جو اہلِ روایت کہتے ہیں۔”
الكتاب: شرح معاني الآثار 2/246
مختصر وضاحت:
طحاوی کا استدلال زیادہ تر “فہم/توجیہ” کی نوعیت رکھتا ہے؛ جبکہ محدثین کے نزدیک اصل مدار “ثبوتِ سند و حفظ” ہے، اور یہی مقامِ فیصلہ ہے۔
⑯ شیخ الاسلام ابن تیمیہ: طحاوی کے منہج پر عمومی تنبیہ
وَالطَّحَاوِيُّ لَيْسَتْ عَادَتُهُ نَقْدَ الْحَدِيثِ كَنَقْدِ أَهْلِ الْعِلْمِ… وَيَكُونُ أَكْثَرُهَا مَجْرُوحًا مِنْ جِهَةِ الْإِسْنَادِ لَا يَثْبُتُ، وَلَا يَتَعَرَّضُ لِذَلِكَ…
اردو ترجمہ:
“طحاوی کی عادت نقدِ حدیث میں اہلِ فن جیسی نہیں… وہ شرح معانی الآثار میں مختلف احادیث لاتے ہیں، اور اکثر ترجیح قیاس کی جہت سے دیتے ہیں، جبکہ ان میں بہت سی روایات سند کے اعتبار سے مجروح اور غیر ثابت ہوتی ہیں، اور وہ سند کی اس حیثیت سے تعرض نہیں کرتے…”
الكتاب: منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية
مختصر وضاحت:
یہ تنبیہ یہ بتاتی ہے کہ اختلافی روایات میں صرف فقہی ترجیح کافی نہیں، بلکہ “ثبوتِ روایت” اپنی جگہ مستقل معیار ہے۔
⑰ امام بیہقی کی تنبیہ (طحاوی کے اسلوب پر)
فَبَيَّنَ فِي كَلَامِهِ أَنَّ عِلْمَ الْحَدِيثِ لَمْ يَكُنْ مِنْ صِنَاعَتِهِ،
اردو ترجمہ:
“اس کے کلام سے واضح ہوا کہ فنِّ حدیث (بطورِ صناعت) ان کے اختصاصات میں نہیں تھا۔”
الكتاب: معرفة السنن والآثار
مختصر وضاحت:
یہاں مقصد تنقیص نہیں، بلکہ یہ دکھانا ہے کہ اس نوع کی بحث میں اصل اتکاء ائمۂ نقد کے فیصلوں پر ہوتا ہے۔
⑱ عینی کی “شرطِ مسلم” والی بات اور اس پر اشکال
عینی نے کہا:
… وَإسْنَاد حَدِيث عَاصِم بن كُلَيْب صَحِيح على شَرط مُسلم.
اردو ترجمہ:
“عاصم بن کلیب والی روایت کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔”
الكتاب: عمدة القاري شرح صحيح البخاري
اس کے مقابلے میں رجال کے باب میں یہ بات نقل کی جاتی ہے:
كليب بن شهاب… روى له البخاري في كتاب "رفع اليدين في الصلاة "، والباقون سوى مُسْلِم.
اردو ترجمہ:
کلیب بن شہاب… ان سے امام بخاری نے “رفع الیدین” میں روایت لی، اور (باقی ائمہ نے بھی)، سوائے امام مسلم کے۔
الكتاب: تهذيب الكمال في أسماء الرجال
اور عینی کے طرزِ بیان پر عبدالحئی لکھنوی کا عمومی تبصرہ:
ولو لم يكن فيه رائحة التعصب المذهبى لكان أجود وأجود
اردو ترجمہ:
“اگر اس میں مذہبی تعصب کی سی بو نہ ہوتی تو یہ اور زیادہ عمدہ ہوتا۔”
الكتاب: الفوائد البهية في تراجم الحنفية
مختصر وضاحت:
“شرطِ مسلم” کہنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ مسلم نے کن رجال سے روایت لی؛ یہاں اسی جہت سے اشکال پیدا ہوتا ہے۔
⑲ “رجال ثقہ” کہہ دینے سے روایت صحیح نہیں ہوتی
کچھ اہلِ قلم نے کہا:
… كيف يكون هذا الطريق واهيا ورجاله ثقات …
اردو ترجمہ:
“یہ طریق کمزور کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس کے رجال ثقہ ہیں؟”
الكتاب: الجوهر النقي في الرد على البيهقي
لیکن اصولِ حدیث میں یہ قاعدہ معروف ہے:
وَصِحَّةُ الْإِسْنَادِ يَتَوَقَّفُ عَلَى ثِقَةِ الرِّجَالِ، وَلَوْ فُرِضَ ثِقَةُ الرِّجَالِ لَمْ يَلْزَمْ مِنْهُ صِحَّةُ الْحَدِيثِ، حَتَّى يَنْتَفِيَ مِنْهُ الشُّذُوذُ وَالْعِلَّةُ
اردو ترجمہ:
“صحتِ اسناد رجال کے ثقہ ہونے پر موقوف ہے، لیکن اگر رجال کا ثقہ ہونا فرض بھی کر لیا جائے تو محض اس سے حدیث کی صحت لازم نہیں آتی، جب تک شذوذ اور علت بھی ختم نہ ہو جائیں۔”
الكتاب: نصب الراية لأحاديث الهداية
اور ابن الجوزی نے بھی اسی اصول کو یوں بیان کیا:
وَقد يكون الْإِسْنَاد كُله ثِقَات وَيكون الحَدِيث مَوْضُوعا أَو مقلوبا… وَلَا يعرف ذَلِك إِلَّا النقاد
اردو ترجمہ:
“کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سند کے سب رجال ثقہ ہوتے ہیں مگر حدیث (کسی علت کے سبب) باطل/مقلوب وغیرہ ہوتی ہے، اور یہ بات ناقدین ہی جانتے ہیں۔”
الكتاب: الموضوعات
مختصر وضاحت:
اسی لیے امام دارمی، امام بخاری، امام بیہقی جیسے ناقدین کی جرح محض “رجال ثقہ” کہہ کر ساقط نہیں کی جا سکتی۔
⑳ زیلعی کی تحقیق: بعد میں روایت کو ضعیف قرار دینا
زیلعی نے ابتدا میں کہا:
… وَهُوَ أَثَرٌ صَحِيحٌ
اردو ترجمہ:
“یہ اثر صحیح ہے۔”
الكتاب: نصب الراية
لیکن اسی مقام پر انہوں نے بعد از تحقیق ابن دقیق العید کے حوالے سے نقل کیا:
… قَالَ عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ… وَهَذَا ضَعِيفٌ… إذْ لَا يُظَنُّ بِعَلِيٍّ أَنَّهُ يَخْتَارُ فِعْلَهُ عَلَى فِعْلِ النَّبِيِّ… وَهُوَ قَدْ رَوَى عَنْ النَّبِيِّ… أَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ عِنْدَ الرُّكُوعِ، وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ…
اردو ترجمہ:
ابن دقیق العید نے “کتاب الامام” میں دارمی کا قول نقل کیا کہ یہ طریق واہی ہے، اور فرمایا: “یہ روایت ضعیف ہے؛ کیونکہ حضرت علیؓ کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ نبی ﷺ کے فعل کے مقابلے میں اپنا فعل اختیار کریں، جبکہ حضرت علیؓ نے خود نبی ﷺ سے رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین روایت کیا ہے…”
الكتاب: نصب الراية
مختصر وضاحت:
یہاں اصل نکتہ یہ ہے کہ “اثبات” والی روایت محفوظ اور معروف ہے، اور “نفی” والی نسبت کمزور قرائن کے ساتھ آتی ہے۔
㉑ قاسم بن قطوبغا کے حکم کا وزن
بعض نے کہا:
(وسند ثقات)
اردو ترجمہ:
“اس کی سند کے رجال ثقہ ہیں۔”
الكتاب: التعريف والإخبار بتخريج أحاديث الاختيار
لیکن رجال و حکمِ نقاد کے باب میں بعض اہلِ علم نے قطوبغا کے بارے میں سخت تنبیہ بھی نقل کی ہے:
… وَكَانَ … وَلم يخلف بعده حنفيا مثله إِلَّا أَنه كَانَ كذابا … فَلَا يعْتَمد على قَوْله
اردو ترجمہ:
“وہ بہت سے علوم میں ماہر تھا… مگر (ایک شدید کلام کے مطابق) وہ بات میں بے احتیاط تھا، اس لیے اس کے قول پر اعتماد نہ کیا جائے…”
الكتاب: الضوء اللامع لأهل القرن التاسع
مختصر وضاحت:
یہاں مقصود ذاتی بحث نہیں، بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ ایسے محل میں اصل فیصلہ “ائمۂ نقدِ حدیث” کے اقوال سے ہوتا ہے، نہ کہ صرف “رجال ثقہ” کے عمومی دعووں سے۔
㉒ ملا علی قاری: رفع الیدین کی ممانعت والی روایات کا حکم
ملا علی قاری نے ایک اصولی باب میں لکھا:
فَصْلٌ–وَمِنْ ذَلِكَ أَحَادِيثُ الْمَنْعِ مِنْ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَالرَّفْعِ مِنْهُ كُلُّهَا بَاطِلَةٌ لَا يَصِحُّ مِنْهَا شَيْءٌ
اردو ترجمہ:
“رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین سے منع کرنے والی احادیث—یہ سب باطل ہیں، ان میں سے کچھ بھی صحیح نہیں۔”
الكتاب: الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى
اسی ضمن میں انہوں نے طحاوی کی نقل بھی ذکر کی:
وَرَوَى الطَّحَاوِيُّ أَنَّ عَلِيًّا رَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ التَّكْبِيرِ ثُمَّ لَمْ يَعُدْ
اردو ترجمہ:
“طحاوی نے روایت کیا کہ حضرت علیؓ نے تکبیرِ اولیٰ میں ہاتھ اٹھائے، پھر دوبارہ نہ اٹھائے۔”
الكتاب: الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبرى
مختصر وضاحت:
یہاں اصل بات یہ ہے کہ “منع” والی روایات کے باب میں ناقدین کے یہاں سخت کلام موجود ہے، اور نفی والی نسبت اسی دائرے میں زیرِ بحث آتی ہے۔
حافظ ابن حجر اور امام دارقطنی کے کلام کا درست مطلب
㉓ حافظ ابن حجر: “رجالہ ثقات” کے باوجود راجح روایت اثبات والی ہے
وَأخرج الطَّحَاوِيّ من طَرِيق عَاصِم بن كُلَيْب عَن أَبِيه أَن عليا كَانَ يرفع يَدَيْهِ فِي أول تَكْبِيرَة من الصَّلَاة ثمَّ لَا يعود وَرِجَاله ثِقَات وَهُوَ مَوْقُوف … لَكِن قَالَ البُخَارِيّ … حَدِيث عبيد الله بن أبي رَافع عَن عَلّي أصح أَي فِي إِثْبَات الرّفْع
اردو ترجمہ:
حافظ ابن حجر نے کہا: طحاوی نے عاصم بن کلیب کے طریق سے حضرت علیؓ کا یہ موقوف اثر نقل کیا، اس کے رجال ثقہ ہیں، مگر امام بخاری نے فرمایا کہ عبید اللہ بن ابی رافع عن علیؓ والی روایت “اصح” ہے—یعنی رفع الیدین کے اثبات میں زیادہ مضبوط ہے۔
الكتاب: الدراية في تخريج أحاديث الهداية
اور حافظ ابن حجر کا اصول:
لِأَنَّهُ لَا يَلْزَمُ مِنْ كَوْنِ رِجَالِهِ ثِقَاتٍ أَنْ يَكُونَ صَحِيحًا،
اردو ترجمہ:
“محض رجال کے ثقہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حدیث (ہر اعتبار سے) صحیح ہو۔”
الكتاب: التلخيص الحبير ط قرطبة 3/45
اسی مفہوم کی ایک مثال:
وهو باطل، ما أدري من” يغرّ فيه، فإن هؤلاء ثقات،
اردو ترجمہ:
“یہ (روایت) باطل ہے؛ میں نہیں جانتا کس نے اس میں دھوکہ کھایا، حالانکہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔”
الكتاب: لسان الميزان
مختصر وضاحت:
لہٰذا “رجال ثقہ” کہنا کافی نہیں؛ فیصلہ “حفظ/علت/شذوذ” سمیت مجموعی نقد سے ہوگا—اور اسی مجموعی نقد میں اثبات والی روایت راجح دکھائی دیتی ہے۔
㉔ امام دارقطنی کا قول “موقوفاً الصواب” اور اس کا مفہوم
امام دارقطنی سے اس روایت کے بارے میں سوال ہوا، تو انہوں نے تفصیل سے فرق واضح کیا:
وسئل عن حديث كليب بن شهاب، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم؛ أنه كان يرفع يديه في أول الصلاة ثم لا يعود.
فقال: هو حديث يرويه أبو بكر النهشلي، ومحمد بن أبان وغيرهما، عن عاصم بن كليب.
واختلف عن أبي بكر النهشلي… فرواه عبد الرحيم بن سليمان عنه… عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ووهم في رفعه. وخالفه جماعة من الثقات، منهم: عبد الرحمن بن مهدي، وموسى بن داود، وأحمد بن يونس، وغيرهم… فرووه … موقوفا على علي، وهو الصواب.
اردو ترجمہ:
دارقطنی نے فرمایا: یہ روایت ابو بکر نہشلی وغیرہ عاصم بن کلیب سے بیان کرتے ہیں۔ ابو بکر نہشلی سے آگے نقل کرنے والوں میں اختلاف ہوا؛ عبدالرحیم بن سلیمان نے اسے مرفوعاً نبی ﷺ تک پہنچایا، مگر “اس نے رفع میں وہم کیا”۔ ثقہ رواۃ کی ایک جماعت (جن میں عبدالرحمن بن مہدی، موسیٰ بن داود، احمد بن یونس وغیرہ) نے اسے حضرت علیؓ پر موقوف بیان کیا، اور “درست (صواب) یہی موقوف ہونا ہے۔”
مختصر وضاحت:
“موقوفاً الصواب” کا مطلب یہ ہے کہ مرفوع بنانا غلطی ہے اور صحیح صورت موقوف ہے؛ یہ جملہ بذاتِ خود “تصحیحِ متن” کے بجائے “تصحیحِ نوعِ روایت (رفع/وقف)” کی طرف اشارہ ہے۔ مزید یہ کہ جب اسی سلسلے میں “وهم” بھی صراحتاً آ رہا ہو تو یہ تقویت نہیں بلکہ کمزوری کی علامت بنتی ہے۔
خاتمہ
اس پوری بحث سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ حضرت علیؓ سے منسوب “تکبیرِ تحریمہ کے بعد رفع الیدین نہ کرنے” والا اثر محدثین کے معیار پر ثابت نہیں۔ امام دارمی نے طریق کو “واہی” کہا، امام شافعی نے “لا يثبت” فرمایا، سفیان ثوری نے انکار کیا، امام بخاری نے اثبات والی روایت کو “اصح” قرار دیا، اور امام بیہقی نے ابو بکر نہشلی کی منفرد روایت سے سنت ثابت کرنے کی نفی کر دی۔ اس کے مقابلے میں بعض متاخر توجیہات—خصوصاً “نسخ” کی طرف منتقل کرنا یا محض “رجالہ ثقات” کہہ دینا—اصولِ حدیث کی رو سے کافی نہیں، کیونکہ صحت کا مدار صرف رجال کے ثقہ ہونے پر نہیں بلکہ حفظ، علت اور شذوذ کے مجموعی نقد پر ہے۔ لہٰذا علمی طور پر راجح یہی ہے کہ حضرت علیؓ سے رفع الیدین کی نفی ثابت نہیں، جبکہ رفع الیدین کے اثبات کی روایات زیادہ مضبوط اور زیادہ محفوظ ہیں۔
اہم حوالوں کے سکین






























