ترکہ تقسیم ہونے کے بعد وصیت کا نفاذ
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

اگر وصیت ترکہ تقسیم ہونے کے بعد ملے؟

سوال: مرنے والے نے اپنے مال کا تیسرا حصہ وقف کر دینے کی وصیت کی تھی، وہ وصیت کم ہوگئی اور ترکہ تقسیم ہو گیا۔ ایک عرصے کے بعد وہ دوبارہ مل گئی؟
جواب: اس صورت کا حکم یہ ہے کہ ہر وارث کے حصے سے تیسرا حصہ لیا جائے، پھر اس وصیت کے مطابق اس وقف کو عمل میں لایا جائے۔ یہ اس صورت میں ہے جب اس نے اپنے مال کا ایک تہائی حصہ وقف کرنے کی وصیت کی ہو یا یہ وصیت کی ہو کہ اس کے مال کا تیسرا حصہ فقرا وغیرہ پر صرف کیا جائے۔
اگر وہ وقف، حالت صحت میں کسی حاضر اور موجود چیز کا ہو، یعنی وقف ناجز ہو تو پھر اس مکمل وقف پر عمل کیا جائے گا، مثال کے طور پر اگر وہ کوئی زمین ہو تو ورثا اس سے اپنے ہاتھ اٹھا لیں کیونکہ اس کا وقف ہونا ثابت ہو چکا ہے، اسی طرح اس نے کوئی زمین مسجد وغیرہ بنانے کے لیے وقف کی ہو تو وہ زمین ورثا سے چھین کر اسی کام کے لیے استعمال کی جائے جس کے لیے وقف کرنے والے نے وقف کی تھی، لہٰذا وصیت اور وقف ناجز (موجود وقف) کے درمیان فرق سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ وصیت وہ ہوتی ہے جو موت کے بعد ثابت ہو۔
مثلاً اگر کوئی شخص اپنا گھر وقف کرنے کی وصیت کرتا ہے تو یہ وصیت اس کی موت کے بعد رو بہ عمل ہو گی، ایک تہائی یا اس سے کم مال کی ہوگی، کسی وارث کے لیے نہیں ہو گی اور وصیت کرنے والے کو اسے منسوخ کرنے، واپس کرنے اور کم یا زیادہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے لیکن موت کے بعد صرف تیسرے حصے کے برابر یا اس سے کم نافذ کی جائے گی لیکن جو وقف ناجز (موجود) ہوتا ہے وہ فورا نافذ ہو جاتا ہے، وقف کرنے والا اس میں تصرف کرنے کا مالک نہیں ہوتا، نہ وہ اسے واپس ہی لے سکتا ہے، خواہ کل کا کل مال ہی اس میں صرف کیوں نہ ہو جائے لیکن اگر وہ یہ کام مرض الموت میں کرے تو پھر ایک تہائی سے زیادہ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، یعنی کل ترکے کے ایک تہائی کے برابر۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 23/249]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے