ترکِ نماز پر ملت سے خارج ہونے کے 7 دلائل کا مفصل تجزیہ
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 1، کتاب الصلوۃ، صفحہ 389

ترکِ نماز سے خارج از ملت ہونے کے متعلق حدیث کا تحقیقی جائزہ

 سوال

حدیث:
"فمن تركها متعمداً فقد خرج من الملة”
(الترغيب والترهيب : ٧٩٧، مجمع الزوائد ٤/٢١٦)
یعنی: جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی، وہ ملت (اسلام) سے خارج ہو گیا۔

حدیث کی تخریج:

امام طبرانیؒ نے مذکورہ حدیث یوں روایت کی:

"حدثنا يحيي بن ايوب العلاف، حدثنا سعيد بن ابي مريم، حدثنا نافع بن يزيد، حدثنا سيار (في اصل : سكن) بن عبدالرحمن، عن يزيد بن قودر (في اصل : قوذر)، عن سلمة بن شريح، عن عبادة بن الصامت قال: اوصانا رسول الله صلي الله عليه وسلم بسبع خلال، فقال: لاتشركوا بالله شيئا وان قطعتم فقد خرج من الملة، والا ترتكبوا لمعصية فانها سخط الله، ولا تقربوا الخمر فانها راس الخطايا كلها، ولا تفروا من الموت او القتل وان كنتم فيه، ولاتعص والديك، وان امرك ان تخرج من الدنيا كلها فاخرج، ولاتضع عصاك عن اهلك، وانصفهم من نفسك.”
(جامع المسانید والسنن لابن کثیر 7/119 ح4867)

دیگر مصادر:

◈ محمد بن نصر المروزی: تعظيم قدر الصلاة 2/889 ح920
◈ امام بخاری: التاریخ الکبیر 4/75 (مختصر)
◈ ابن ابی حاتم الرازی: التفسير 5/1414 ح8058 (مختصراً)
◈ ہبۃ اللہ الکلائی: شرح اصول واعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ 4/822-823 ح1522

راویوں کی حیثیت:

◈ سعید بن ابی مریم المصری: ثقہ، ثبت، فقیہ
(تقریب التہذیب: 2286)
◈ حافظ ضیاء المقدسی نے اس حدیث کو "الاحادیث المختارہ” (4/287-288 ح351، ح350) میں صحیح قرار دیا ہے، جو حدیث کی توثیق ہے۔
◈ امام بخاری کی رائے: "لا يعرف اسناده” یعنی: اس کی سند معروف نہیں ہے۔
◈ راوی سلمہ بن شریح:
─ ابن حبان: کتاب الثقات 4/318 میں ذکر کیا
─ حافظ ذہبی: "لا يعرف” (ميزان الاعتدال 2/190 ت3402)

شیخ البانیؒ کا تبصرہ:

اس روایت کو ضعیف قرار دیا اور "الترغیب والترہیب” کے تین معلقین کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
"ولا شاهد لفقرة الخروج من الملة وغيرها، وقد وقع في مثله بعض من نظن فيه العلم من الكتاب المعاصرين”
(ضعیف الترغیب والترہیب 1/161، تحت ح300)
تنبیہ: ممکن ہے حافظ کی مراد یہ ہو کہ: "بإسنادين عن سعيد بن أبي مريم” واللہ اعلم

حدیث کے شواہد کا تفصیلی جائزہ

➊ حدیث ابوالدرداءؓ:
"اوصاني خليلي صلي الله عليه وسلم ان لا تشرك بالله شيئا، وان قطعت وحرقت، ولا تترك صلوة مكتوبة متعمداً، فمن تركها فقد برئت منه الذمة…”
(سنن ابن ماجہ: 4034/3371)، سندہ حسن، البوصیری و البانی نے بھی حسن/صحیح قرار دیا

➋ حدیث امیمہؓ (مولاتِ رسول):
"لا تشرك بالله شيئا وان قطعت وحرقت بالنار، … ولاتتركن صلوة متعمدا، فمن فعل ذلك باء سخط من الله وماواه جهنم…”
(الطبرانی فی الکبیر 24/190 ح479، مجمع الزوائد 4/217)
یزید بن سنان الرہاوی کو بعض نے ضعیف کہا ہے، باقی رجال ثقہ ہیں۔

➌ حدیث معاذ بن جبلؓ:
"من ترك صلوة مكتوبة متعمداً فقد برئت منه ذمة الله…”
(مسند احمد 5/238 ح22425)
یہ روایت منقطع ہے
حافظ منذری: "فان عبدالرحمن بن جبير بن نفير لم يسمع من معاذ” (الترغيب والترهيب 1/383 ح7-8)

➍ حدیث ام ایمنؓ:
"لا تترك الصلاة متعمداً، فانه من ترك الصلاة متعمداً فقد برئت منه ذمة الله…”
(مسند عبد بن حمید المنتخب: 1592، احمد 6/421 ح27908، بیہقی 7/304)
منقطع ہے
ابن السکن: "هو مرسل لأن مكحولا لم يدرك أم أيمن” (الإصابة 4/243 ت112)

➎ حدیث ابوریحانہ:
"لا تدعن صلوة متعمداً، فان من تركها فقد برئت منه ذمة الله وذمة رسوله…”
(اتحاف السادة المتقين 2/392)
سند موجود نہیں، لہٰذا مردود ہے۔

خاص روایت کے الفاظ:

"فقد خرج من الملة”
یہ الفاظ صرف عبادہ بن صامتؓ کی روایت میں ہی پائے جاتے ہیں، باقی کسی روایت میں نہیں۔

المعجم الاوسط کی روایت:

"من ترك الصلاة متعمداً فقد كفر جهاراً”
(المعجم الاوسط للطبرانی 4/211 ح3376)

راویوں کا تبصرہ:

◈ جعفر بن محمد الفریابی: ثقہ، حجۃ (تاریخ بغداد 7/200 ت3665)
◈ محمد بن ابی داود الانباری: حالات نامعلوم
◈ غالباً ابن ابی داود الحرانی نہیں ہے
◈ ہاشم بن القاسم: ثقة ثبت (التقریب: 7256)
◈ ابو جعفر الرازی: حسن الحدیث، مگر ربیع بن انس سے روایت میں ضعیف
◈ ربیع بن انس: حسن الحدیث (نیل المقصود 1/47 ح1182)
◈ انس بن مالکؓ: صحابی

نتیجہ:

یہ روایت ضعیف ہے۔

الفاظ "فمن تركها متعمداً فقد خرج من الملة” کی وضاحت:

یہ الفاظ ان شخص کے لیے ہیں جو بالکل نماز چھوڑ دے، یعنی کبھی بھی نماز نہ پڑھے۔
ایسا شخص ملت سے خارج ہو جاتا ہے۔
لیکن جو شخص سستی یا کاہلی کی وجہ سے کبھی کبھار نماز چھوڑتا ہے، وہ اس حکم میں داخل نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1