ترکِ رفع یدین اور "تفسیر” ابنِ عباس
تحریر : ابوالاسجد محمد صدیق رضا

(ایک دیوبندی شخص نے محترم ابوالاسجد محمد صدیق رضا حفظہ اللہ کو رفع یدین کے سلسلے میں ایک خط لکھا تھا جس کا انہوں نے مسکت جواب دیا۔ ویسے تو جس شخص نے یہ خط لکھا تھا، اس کی علمی حیثیت کچھ نہیں البتہ یہ دلائل آل تقلید کے اکابر بھی رفع اليدين عند الركوع و الرفع منه کے خلاف پیش کرتے رہتے ہیں۔ تقریبا ہر مقام پر ہر دلیل کے جواب سے پہلے جناب محمد صدیق رضا صاحب نے اس کی نشاندہی کی ہے۔ افادۂ عام کے لئے ہم اس جواب کو معمولی تبدیلی کے ساتھ فاضل مجیب کی رضامندی سے شائع کر رہے ہیں۔)
الحمد لله رب العالمين و الصلوة و السلام على سيد الأنبياء و المرسلين وعلي آله و أصحابه أجمعين، أما بعد :
(جناب ……) صاحب ! آپ کی طرف سے ”رفع یدین“ کے مسئلے پر ایک عدد چھوٹی پرچی اور ایک چار ورقی تحریر، بھائی انور قاسم صاحب و عبدالخالق نے عنایت فرمائی اور اس کے جواب کا مطالبہ کیا کہ اس کا جواب لکھو۔
اس موضوع پر اب تک اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اس پر مزید لکھنے کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہوتی، لیکن ابھی اس بات کو بمشکل چند دن ہی گزرے کہ خود جناب کی طرف سے انتہائی شدت کے ساتھ جواب کا مطالبہ شروع ہو گیا، اور آپ کے انداز سے تو یوں لگتا تھا کہ گویا آپ نے اپنی اس چار ورقی تحریر چھوٹی پرچی میں بہت بڑا میدان مار لیا ہے جو جناب سے پہلے کسی کے لئے ممکن نہ ہوا تھا، پھر آپ کا یہ جارحانہ انداز کہ ”جواب سے سکوت کر کے گونگا شیطان بننے کی اجازت نہیں ہے۔“ [آپ كي تحرير ص 4]
پس بادل نخواستہ کچھ معروضات عرض کرنے سے آمادہ ہوا، اس سلسلے میں پہلے آپ کی چار ورقی تحریر سے متعلق کچھ معروضات عرض کرنا چاہوں گا پھر ان شاء اللہ آپ کی چھوٹی سی پرچی کے ساتھ بھی پورا پورا انصاف کیا جائے گا، تو آئیے آپ کی قدرے تفصیلی تحریر پر غور و فکر کرتے ہیں۔ آپ کی پہلی دلیل ایک تفسیری روایت ہے، جو آپ نے کچھ اس طرح نقل فرمائی ہے۔

قال الله تبارك و تعالىٰ : ﴿الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ﴾ [23-المؤمنون:2]
(چند سطور بعد) ….. اللہ تبارک و تعالیٰ کی آیت کا معنیٰ امام المفسرین سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ کیا ہے :
مخبتون متوا ضعون لا يلتفتون يمينا ولا شمالا ولا يرفعون أيديهم فى صلاتهم [تفسير ابن عباس رضى الله عنه ص 359]
خشوع کے لئے ضروری ہے کہ رفع یدین بھی نماز میں نہ کرے۔ [آپ کی تحریر ص 1]

الجواب… .
صاحب ! کم از کم عبارت کا ترجمہ تو لکھ دیتے، غالباً جناب کی یہ دلیل ”دیوبندیوں کی کتاب“ آٹھ مسائل [ص19] سے نقل کی ہے وہاں صرف اتنا ہی لکھا ہوا ہے جتنا جناب نے نقل کیا، ترجمہ تو وہاں بھی نہیں۔
امین اوکاڑوی دیوبندی نے مجموعہ رسائل [جديد ايڈيشن ج1 ص 150 مطبوعه لاهور] میں یہ قول اس طرح نقل کیا :
قال ابن عباس : الذين لا يرفعون ايديهم فى صلاتهم
لیکن آپ کے نقل کردہ الفاظ اس سے کچھ مختلف ہیں البتہ حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی صاحب اپنی کتاب ”نور الصباح“ [ص 72 طبع دوم] میں بالکل انہی الفاظ میں یہ روایت لائے ہیں۔ انہی کا ترجمہ نقل کئے دیتا ہوں، لکھا ہے :

”عاجزی و انکساری کرنے والے جو دائیں اور بائیں نہیں دیکھتے اور نہ وہ نماز میں رفع یدین کرتے ہیں“ [نور الصباح ص 72]

مسئلہ زیر بحث میں یہ عبارت اہم ہے سو اسی لئے آپ کی (اپنی تسلیم کردہ) معتبر شخصیت کا ترجمہ ضروری تھا۔
آمدم برسر مطلب ! … صاحب زحمت فرما کر یہ تفسیر اصل ماخذ سے ملاحظہ کیجئے تو اس کے شروع میں اس تفسیر کی سند نظر آئے گی جو کچھ اس طرح ہے کہ اس کی سند میں تین راوی پائے جاتے ہیں …. محمد بن مروان السدی عن محمد بن السائب الکلبی عن أبی صالح عن ابن عباس رضی اللہ عنہ۔ طویل سند میں یہ تینوں نام ایک ہی سلسلہ میں نظر آئیں گے۔ [تنوير المقباس تفسير ابن عباس ص 2 مطبوعه قديمي كتب خانه كراچي]
یہ وہ سلسلہ ہے جسے اہل علم سلسلة الكذب (یعنی جھوٹ کا سلسلہ) کے نام سے جانتے ہیں،
اس کا پہلا راوی محمد بن مروان السدی الکوفی ہے۔
السدی الصغیر یا السدی الاصغر کے لقب سے معروف ہے۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے احوال میں لکھتے ہیں کہ :
ترکوہ و اتھمہ بعضھم بالکذب، وھو صاحب الکلبی
”اسے (محدثین نے) ترک کر دیا تھا اور بعض نے اسے جھوٹ کے ساتھ متہم کیا، یہ الکلبی کا شاگرد تھا۔“ [ميزان الاعتدال 32/4]
➊ دیوبندی حلقہ کے نزدیک موجودہ دور کے ”امام اہلسنت“ سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں :
”اور محمد بن مروان السدی الصغیر کا حال بھی سن لیجئے :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی روایت ہرگز نہیں لکھی جاسکتی“ [ضعفاء صغير امام بخاري ص 29]
◈ اور امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے۔ [ضعفاء امام نسائي ص 52]
◈ علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ حضرات محدثین کرام نے اس کو ترک کر دیا ہے اور بعض نے اس پر جھوٹ بولنے کا الزام بھی لگایا ہے۔
◈ امام ابن معین کہتے ہیں کہ وہ ثقہ نہیں ہے۔
◈ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا تھا۔
◈ ابن عدی کا بیان ہے کہ جھوٹ اس کی روایت پر بالکل بین ہے۔ [ميزان الاعتدال ج 3 ص 132]
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ متروک ہے۔ [كتاب الاسماء و الصفات ص 394]
◈ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ وہ بالکل متروک ہے۔ [تفسير ابن كثير ج 3 ص515]
◈ علامہ سبکی لکھتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے۔ [شفاء السقام ص 37]
◈ علامہ محمد طاہر لکھتے ہیں کہ وہ کذاب ہے۔ [تذكره الموضوعات ص 90]
◈ جریر بن عبدالحمید فرماتے ہیں کہ و ہ کذاب ہے،
◈ ابن نمیر کہتے ہیں کہ وہ محض ہیچ ہے۔
◈ یعقوب بن سفیان لکھتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے۔
◈ صالح بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف تھا وكان يضع ”خود جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا۔“
◈ ابوحاتم کہتے ہیں کہ ”وہ متروک الحدیث اس کی حدیث ہرگز نہیں لکھی جا سکتی۔“ [ازالة الريب ص 316]

➋ یہی موصوف ایک اور مقام پر لکھتے ہیں :
”صوفی صاحب نے اپنے بڑوں کی پیروی کرتے ہوئے روایت تو خوب پیش کی ہے مگر ان کو سود مند نہیں کیونکہ ”سدی“ فن روایت میں ”ہیچ“ ہے۔“
◈ امام ابن معین فرماتے ہیں کہ ان کی روایت میں ”ضعف“ ہوتاہے۔
◈ امام جوزجانی فرماتے ہیں : هو كذاب شتام ”وہ بہت بڑا جھوٹا اور تبرائی تھا….“
◈ امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”اس کی روایت سے احتجاج درست نہیں ….“
اس روایت کی مزید بحث [ازالة الريب] میں دیکھئے۔ ان بے جان اور ضعیف روایتوں سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ [تفريح الخواطرفي رد تنوير الخو اطرص 77 تا 78]

➌ سرفراز صاحب اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں :
”سدی“ کا نام محمد بن مروان ہے ….
◈ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”میں نے اس کو بالکل ترک کردیا ہے۔“ (حیرت ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جیسی نقاد حدیث شخصیت تو اس کی روایت کو ترک کرتی ہے مگر مولوی نعیم الدین صاحب اور ان کی جماعت اس کی روایت سے …… ) [تنقيد متن ص 168]

➍ موصوف اپنی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں :
”سدی کذاب اور وضاع ہے۔“ [اتمام البرهان ص 455] صغیر کا نام ”محمد بن مروان“ ہے۔
◈ امام جریر بن عبدالحمید فرماتے ہیں کہ وہ ”کذاب“ ہے۔
◈ اور صالح بن محمد فرماتے ہیں کہ وہ جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا بقیہ محدثین بھی اس پر سخت جرح کرتے ہیں۔
انصاف سے فرمائیں کہ ایسی کذاب راوی کی روایت سے دینی کون سا مسئلہ ثابت ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے ؟ [اتمام البرهان ص 458]

➎ سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں کہ :
”آپ لوگ سدی کی ”دم“ تھامے رکھیں اور یہی آپ کو مبارک ہو۔“ [اتمام البرہان ص 457]

➏ سرفراز خان صاحب مزید فرماتے ہیں کہ :
”آپ نے خازن کے حوالے سے ”سدی کذاب“ کے گھر میں پناہ لی ہے جو کہ آپ کی ”علمی رسوائی“ کے لئے بالکل کافی ہے اور یہ ”داغ“ ہمیشہ آپ کی پیشانی پر چمکتا رہے گا۔“ [اتمام البرهان ص 458]
تنبیہ : موجودہ دور میں رفع یدین کے خلاف ”تفسیر ابن عباس“ نامی کتاب سے استدلال کرنے والوں نے بقول سرفراز خان صفدر صاحب سدی کی دم تھام رکھی ہے اور ان لوگوں کی پیشانی پر رسوائی کا یہ داغ ہمیشہ چمک رہا ہے۔

محمد بن مروان السدی کے بارے میں محدثین کے چند اقوال درج ذیل ہیں :
➊ بخاری نے کہا : سكتواعنه ”یہ متروک ہے۔“ [التاريخ الكبير 232/1]
لا يكتب حديثه البتة ”اس کی حدیث بالکل لکھی نہیں جاتی۔“ [الضعفاء الصغير : 350]
➋ یحییٰ بن معین نے کہا : ليس بثقة وہ ثقہ نہیں ہے۔ [الجرح و التعديل ج 8 ص 86 و سنده صحيح]
➌ ابوحاتم رازی نے کہا :
هو ذاهب الحديث، متروك الحديث، لا يكتب حديثه البتة
”وہ حدیث میں گیا گزرا ہے، متروک ہے، اس کی حدیث بالکل نہیں لکھی جاتی۔“ [الجرح و التعديل 86/8]
➍ نسائی نے کہا : يروي عن الكلبي، متروك الحديث ”وہ کلبی سے روایت کرتا ہے، حدیث میں متروک ہے۔“ [الضعفاء المتروكون : 538]
➎ یعقوب بن سفیان الفارسی نے کہا : وهو ضعيف غير ثقة [المعرفة و التاريخ 186/3]
➏ ابن حبان نے کہا :
كان ممن يروي الموضوعات عن الأثبات، لا يحل كتابة حديثه إلا على جهة الإعتبار ولا الإحتجاج به بحال من الأحوال
”یہ ثقہ راویوں سے موضوع روایتیں بیان کرتا تھا، پرکھ کے بغیر اس کی روایت لکھنا حلال نہیں ہے۔ کسی حال میں بھی اس سے حجت پکڑنا جائز نہیں ہے۔“ [المجروحين 286/2]
➐ ابن نمیر نے کہا : ”کذاب ہے۔“ [الضعفاء الكبير للعقيلي 136/4 و سنده حسن] ،
یاد رہے کہ الضعفاء الکبیر میں غلطی سے ابن نمیر کی بجائے ابن نصیر چھپ گیا ہے۔
➑ حافظ ہیثمی نے کہا : وهو متروك [مجمع الزوائد 99/8]
أجمعوا على ضعفه ”اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔“ [مجمع الزوائد 214/1]
➒ حافظ ذہبی نے کہا : كوفي متروك متهم [ديوان الضعفاء : 3969]
➓ حافظ ابن حجر نے کہا : متهم بالكذب [تقريب التهذيب : 6284]

دوسرا راوی محمد بن السائب الکلبی ہے۔
اس کے متعلق :
◈ سرفراز احمد خان صاحب نے لکھا ہے کہ :
”کلبی کا حال بھی سن لیجئے ….. کلبی کا نام محمد بن السائب بن بشر ابوالنضر الکلبی ہے۔ امام معتمر بن سلیمان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ کوفہ میں دو بڑے بڑے کذاب تھے، ایک ان میں سے کلبی تھا اور لیث بن ابی سلیم کا بیان ہے کہ کوفہ میں دو بڑے بڑے جھوٹے تھے۔ ایک کلبی اور دوسرا سدی۔
◈ امام بن معین کہتے ہیں کہ ليس بشئ ،
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام یحییٰ اور ابن مہدی نے اس کی روایت بالکل ترک کر دی تھی۔
◈ امام ابن مہدی فرماتے ہیں کہ ابوجزء نے فرمایا : ”میں اس بات پر گواہی دیتا ہوں کہ کلبی کافر ہے۔ میں نے جب یہ بات یزید بن زریع سے بیان کی تو وہ بھی فرمانے لگے کہ میں نے بھی ان سے یہی سنا کہ أشهد أنه كافر میں نے اس کے کفر کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ :
يقول كان جبرائيل يوحي إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقام النبى لحاجته و جلس على فأوحي إلى علي
”کلبی کہتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی لایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کسی حاجت کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کی جگہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے تو جبرائیل علیہ السلام نے ان پر وحی نازل کر دی۔“
یعنی سیدنا جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مورد وحی اور منبط وحی کو نہ پہچان سکے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو رسول سمجھ کر ان کو وحی سنا گئے ….. اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس بھولے بھالے جبرائیل علیہ السلام نے آگے پیچھے کیا کیا ٹھوکریں کھائی ہوں گی اور کن کن پر وحی نازل کی ہو گی اور نہ معلوم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی وہ اس خفیہ وحی میں کیا کچھ کہہ گئے ہوں گے، ممکن ہے یہ خلافت بلافصل ہی کی وحی ہو جس کو سیدنا جبرائیل علیہ السلام سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے کان میں پھونک گئے ہوں گے۔ بات ضرور کچھ ہو گی۔ آخر کلبی کا بیان بلاوجہ تو نہیں ہو سکتا اور کلبی کے اس نظریہ کے تحت ممکن ہے کہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی میں بھول کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا گئے ہوں اور مقصود کوئی اور ہو اور عین ممکن ہے کہ وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی ہوں، آخر کلبی ہی کے کسی بھائی سے نظریہ بھی تو ہے کہ :
جبرائيل كه آمد چوں ازخالق بے چوں به پيش محمد شدو مقصود على بود
معاذ اللہ تعالیٰ، استغفر اللہ تعالیٰ، کلبی نے تو جبرائیل علیہ السلام جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وحی کو ایک ڈراما کھیل بنا کر رکھ دیا ہے العیاذ باللہ تعالیٰ ثم العیاذ باللہ تعالیٰ۔ صفدر
بلکہ کلبی نے خود یہ کہا : ہے کہ جب میں بطریق ابوصالح عن ابن عباس رضی اللہ عنہ کوئی روایت اور حدیث تم سے بیان کروں تو ”فھو کذب“ ”وہ جھوٹ ہے“ امام ابوحاتم فرماتے ہیں کہ حضرات محدثین کرام سب اس پر متفق ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے۔ اس کی کسی روایت کو پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔
◈ امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ ثقہ نہیں ہے اور اس کی رویت لکھی بھی نہیں جا سکتی۔
◈ علی بن الجنید، حاکم ابواحمد اور دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے۔
◈ جوزجانی کہتے ہیں کہ وہ کذاب اور ساقط ہے۔
◈ ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی روایت جھوٹ پر جھوٹ بالکل ظاہر ہے اور اس سے احتجاج صحیح نہیں ہے۔
◈ ساجی کہتے ہیں کہ وہ متروک الحدیث ہے اور بہت ہی ضعیف اور کمزور تھا کیونکہ وہ غالی شیعہ ہے،
◈ حافظ ابوعبداللہ بن الحاکم کہتے ہیں کہ ابوصالح سے اس نے جھوٹی روایتیں بیان کی ہیں۔
◈ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
وقد اتفق ثقات أهل النقل على ذمه و ترك الرواية عنه فى الأحكام و الفروع
”تمام اہل ثقات اس کی مذمت پر متفق ہیں اور اس پر بھی ان کا اتفاق ہے کہ احکام اور فروع میں اس کی کوئی روایت قابل قبول نہیں ہے۔“
◈ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ”کلبی کی تفسیر اول سے لے کر آخر تک سب جھوٹ ہے اس کو پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔“ [تذكرة الموضوعات ص 82]
◈ اور علامہ محمد طاہر الحنفی لکھتے ہیں کہ ”کمزور ترین روایت فن تفسیر میں كلبي عن ابي صالح عن ابن عباس هے اور فإذا انضم إليه محمد بن مروان السدي الصغير فهي سلسلة الكذب۔[تذكرة الموضوعات ص 83 و اتقان ج 2 ص 189]
◈ ”اور اس روایت میں خیر سے یہ دونوں شیر جمع ہیں۔“ [ازالة الريب ص 316] نيز ديكهئے : [تنقيد متين ص 169، 167]

محمد بن السائب، ابوالنضر الکلبی کے بارے میں محدثین کرام کے چند اقوال درج ذیل ہیں :
➊ سلیمان التیمی نے کہا : كان بالكوفة كذابان أحدهما الكلبي ”کوفہ میں دو کذاب تھے، ان میں سے ایک کلبی ہے۔“ [الجرح و التعديل 270/7 و سنده صحيح]
➋ قرہ بن خالد نے کہا : كانوا يرون ان الكلبي يرزف يعني يكذب ”لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کلبی جھوٹ بولتا ہے۔“ [الجرح والتعديل 270/7 وسنده صحيح]
➌ سفیان ثوری نے کہا : ”ہمیں کلبی نے بتایا کہ تجھے جو بھی میری سند سے عن ابي صالح عن ابن عباس بیان کیاجائے تو وہ جھوٹ ہے ا سے روایت نہ کرنا۔“ [الجرح و التعديل 271/7 وسنده صحيح]
➍ یزید بن زریع نے کہا : ”کلبی سبائی تھا۔“ [الكامل لابن عدي 2128/5 و سنده صحيح]
➎ محمد بن مہران نے کہا : ”کلبی کی تفسیر باطل ہے۔“ [الجرح و التعديل 271/7 و سنده صحيح]
➏ جوزجانی نے کہا : كذاب ساقط [احوال الرجال : 37]
➐ یحییٰ بن معین نے کہا : ليس بشئ ”کلبی کچھ چیز نہیں ہے۔“ [تاريخ ابن معين، رواية الدوري : 1344]
➑ ابوحاتم الرازی نے کہا : الناس مجتمعون على ترك حديثه، لا يشتغل به، هو ذاهب الحديث
”اس کی حدیث کے متروک ہونے پر لوگوں کا اجماع ہے۔ اس کے ساتھ وقت ضائع نہ کیا جائے وہ حدیث میں گیا گزرا ہے۔“ [الجرح و التعديل 271/7]
➒ حافظ ابن حجر نے کہا : المفسر متهم بالكذب و رمي بالرفض [تقريب التهذيب : 5901]
➓ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا : تركوه ”یعنی (محدثین نے) اسے ترک کردیا ہے۔“ [المغني فى الضعفاء : 5545]

تیسرا راوی باذام ابوصالح ہے۔
➊ ابوحاتم الرازی نے کہا : يكتب حديثه ولا يحتج به [الجرح والتعديل 432/2]
➋ نسائی نے کہا : ضعيف كوفي [الضعفاء و المتروكين : 72]
➌ بخاری نے اس کتاب الضعفاء میں ذکر کیا۔ [رقم : تحفة الاقوياء ص 21]
➍ حافظ ذہبی نے کہا : ضعيف الحديث [ديوان الضعفاء : 544]
➎ حافظ ابن حجر نے کہا : ضعيف يرسل [تقريب التهذيب : 634]
بعض علماء نے باذام مذکور کی توثیق بھی کر رکھی ہے مگر جمہور محدثین کی جرح کے مقابلے میں یہ توثیق مردود ہے۔
(….صاحب !) آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ متروک، ساقط، متہم بالکذب، کذاب، یکذب اور یضع یہ ساری شدید جرحیں ہیں، جن راویوں پر ان الفاظ میں جرح کی گئی ہو ان کی روایت قابل قبول ہوتی ہے نہ حجت، بالخصوص جب ان کی کسی نے توثیق بھی نہ کی ہو۔ آپ کی پیش کردہ تفسیری روایت کے یہ تینوں راوی ایسی ہی جرح کے حامل مجروح راوی ہیں، ان جھوٹوں کی روایات کو، سچے لوگ ماننا تو درکنار پیش کرنا بھی روا نہیں جانتے، لیکن آپ نے اسے پیش کر دیا، اب آپ پر لازم ہے کہ پہلے ان کی ثقاہت ثابت کریں اگر ایسا نہ کر سکیں اور ان شاء اللہ ہرگز نہ کر سکیں گے تو اس روایت کے پیش کرنے سے علانیہ رجوع کریں، آپ کی پیش کردہ اس روایت کی سند سے متعلق :
◈ حافظ جلال الدین السیوطی لکھتے ہیں :
وأوهي طرقه طريق الكلبي عن أبى صالح عن ابن عباس فإن انضم إلى ذلك رواية محمد بن مروان السدي الصغير فهي سلسلة الكذب
”تمام طرق میں سب سے کمزور ترین طریق الكلبي عن أبى صالح عن ابن عباس رضي الله عنه ہے اور اگر اس روایت کی سند میں محمد بن مروان السدی الصغیر بھی مل جائے تو پھر یہ سند سلسلة الكذب کہلاتی ہے۔“ [الاتقان فى علوم القرآن ج 2 ص 416]
واضح رہے کہ یہ سند سلسلة الكذب ابوصالح تک ہے۔ الصحابة كلهم عدول رضي الله عنهم ”صحابہ رضی اللہ عنہ تمام کے تمام عادل ہیں“ یہ قاعدہ کلیہ ہے، البتہ ان سے روایت کرنے والے بعد کے راویوں کا عادل و ثقہ…. ہونا ضرور ی ہے یہ بھی ایک قاعدہ کلیہ ہے۔

دوسری بات : اگر یہ روایت سندا صحیح ہوتی بھی تو آپ کے لئے مفید نہ ہوتی، اس کا ترجمہ ہم نے آپ کے معتبر ”مناظر اسلام“ حبیب اللہ ڈیروی صاحب سے شروع میں نقل کیا ہے، اور آپ نے آٹھ مسائل [ص 19] سے نقل کرتے ہوئے لکھا ”خشوع کے لئے ضروری ہے کہ رفع یدین بھی نماز میں نہ کرے“ [ص1] اس میں کسی خاص موقع کے رفع الیدین کی صراحت نہیں، بلکہ یہ عام الفاظ ہیں جس کی زد میں بعض مقام پر خود احناف بھی آتے ہیں، کیا آپ نماز کے شروع میں رفع الیدین نہیں کرتے ؟ کیا آپ وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت سے پہلے رفع الیدین نہیں کرتے ؟ کیا آپ ہر سال عیدین کی نمازوں میں تکبیرات زائدہ کے ساتھ رفع الیدین نہیں کرتے ؟ ؟ ؟

اگر آپ کرتے ہیں اور یقیناً کرتے ہیں، تو خود آپ اس روایت کے مخالف ہیں۔ آپ ان تین مقامات پر رفع الیدین کو کس طرح بچائیں گے ؟ اور اس قول کے عین برخلاف اپنی پڑھی جانے والی نمازوں کو کس طرح خشوع و خضوع والی نماز ثابت کریں گے ؟ جبکہ خشوع کے لئے آپ کے نزدیک نماز کا رفع الیدین سے پاک ہونا ضروری ہے یا آپ کے نزدیک ان تینوں مقامات کے وقت رفع الیدین نماز کا حصہ نہیں ؟ آپ کے نزدیک جو بھی اصل صورت حال ہے اس کی وضاحت کریں، کیونکہ اس میں رکوع سے پہلے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین سے منع کی صراحت نہیں، کما تریٰ۔ جب اس کی صراحت نہیں تو یہ عام ہوئے اور جب رکوع سے قبل و بعد کی صراحت نہ ہونے کی وجہ سے عام ہوئے، تو یہ الفاظ آپ کے بھی خلاف ہوئے، اس روایت کے مطابق آپ کی نمازیں بھی خشوع و خضوع کے خلاف ہوئیں۔ فانظر ماذا تريٰ ؟
تیسری بات : آپ نے ہمیں تو صریح الفاظ میں بیان کا حکم دیا جیساکہ آپ نے لکھا :

”ان سوالوں کا جواب قرآن کریم کی ”صریح“ آیت یا صحیح ”صریح“ غیر متعارض حدیث سے دینا لازم ہے۔“ [ص4]

”صریح“ کے معنی تو جناب کو معلوم ہوں گے نا ؟ ! واضح، کھلا ہوا، تو جناب نے شرط رکھی کہ آیت ہو تو ”صریح“ حدیث ہو تو ”صریح“۔ !
پھر بزعم خود رکوع سے قبل و بعد…..کے رفع الیدین کے خلاف جو پہلی دلیل نقل فرمائی وہ ”غیر صریح“ ہے، جس میں سرے سے اس کا ذکر ہی نہیں بلکہ لا يرفعون أيديهم فى الصلاة کے عام الفاظ ہیں ”نمازوں میں ہاتھ نہیں اٹھاتے“ کیا اس میں صراحت ہے ؟ اگر اصول محض بنانے اور مخالفین کا منہ بند کرانے کے لئے نہیں ہوتے تو ان عام الفاظ پر خود کیوں عمل نہیں کرتے ؟ کیا آپ جس وقت نماز کی ابتداء میں کانوں کی لو تک رفع الیدین کرتے ہیں اس وقت آپ کے خیال سے آپ نماز میں نہیں ہوتے ؟ اگر نماز میں ہی ہوتے تو کیوں رفع الیدین کرتے ہیں ؟ آپ کی پیش کردہ جھوٹی روایت میں تو یہ ہے لا يرفعون أيديهم فى الصلاة نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے۔ پھر آپ شروع نماز میں نیز وتر اور عیدین کی نمازوں میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں ؟

الغرض یہ الفاظ عام ہیں آپ کسی طرح بھی اس میں رفع الیدین قبل الرکوع و بعدہ کی صراحت ہرگز ہرگز ثابت نہیں کر سکتے، جب آپ اپنے ہر ہر عمل کو صریح آیت اور صریح حدیث سے ثابت نہیں کر سکتے تو اپنے مخالفین سے کس منہ سے صریح کا مطالبہ کرتے ہیں ؟ جب تک آپ ان الفاظ میں رکوع سے قبل وبعد کی صراحت ثابت نہیں کرتے اپنے اصول کے مطابق آپ یہ دلیل پیش نہیں کر سکتے کہ اس میں صراحت مفقود ہے۔

چوتھی بات : آپ نے سورۃ المؤمنون کی جو آیت کریمہ نقل فرمائی۔ یہ مکی سورت ہے جناب محمود الحسن صاحب (دیوبندی) نے ترجمۂ قرآن میں لکھا ہے۔ سورۃ مؤمنون مکہ میں اتری اس سے واضح ہوتا ہے کہ نماز میں خشوع و خضوع کا حکم مکہ ہی میں نازل ہو چکا تھا، اب ذرا اس کی تفصیل بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ”رفع الیدین“ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل خود آپ کی معتبر شخصیت کی تحریر کی روشنی میں کب تک رہا، اس سے پہلے صحیح بخاری کی ایک حدیث ملاحظہ کیجئے :
عن أبى قلابة أنه رأيٰ مالك بن الحويرث إذا صلى كبر و رفع يديه و إذا أراد أن يركع رفع يديه و إذا رفع رأسه من الركوع رفع يديه و حدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا
”ابوقلابہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ کو جب وہ نماز پڑھتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین کرتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور انہوں نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا۔“ [صحيح البخاري، ج 1 ص 102 باب رفع اليدين اذاكبر واذاركع و اذا رفع، قديمي كتب خانه]
یہ حدیث صحیح مسلم ج 1ص 168 ح 391 میں بھی كان يفعل هكذا ”آپ اسی طرح کرتے تھے“، کے الفاظ کے ساتھ موجود ہے
اب ذرا اپنی معتبر شخصیت جناب سرفراز خان صفدر صاحب کی سنیں، وہ کیا فرماتے ہیں :
”حافظ ابن حجر فتح الباری [ج 2 ص 250] پر لکھتے ہیں : مالك بن الحويرث قدم المدينة حين التجهيز للتبوك فأقامه عنده عشرين ليلة ، انتہیٰ اور غزوۂ تبوک 9؁ھ میں ہوا تھا، اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تقریبا باسٹھ [62] سال تھی۔ [جزائن السنن حصه دوم ج 1 ص 114، مطبوعه مكتبه صفدريه گوجرانواله]
اس حوالے سے واضح ہوتا ہے کہ (سرفراز خان صفدر کے نزدیک بھی) سیدنا مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقریبا آخری زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور بیس [20] راتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں مدینہ میں قیام فرمایا اس دوران میں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختتام نماز میں اور رکوع سے قبل و بعد رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا، مطلب بالکل واضح ہے کہ ان کی اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقریبا [62] سال کی عمر مبارک تک رفع الیدین پر عمل پیرا رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم [40] سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز ہوئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبوت ملنے کے بعد [22] بائیس سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں رفع الیدین کرتے رہے، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد بھی۔ خود آپ کے مسلمہ اصول کے مطابق۔

اب آئیے اپنی پیش کردہ تفسیری روایت کی طرف، یہ تفسیر جس آیت کے تحت بیان کی گئی ہے وہ مکی سورت کی آیت ہے جس میں خشوع و خضوع کا حکم ہے اور اس تفسیر کے مطابق نماز میں رفع الیدین کرنا خشوع و خضوع کے منافی ہے، اور رفع الیدین نہ کرنا خشوع و خضوع کے مطابق ہے، آپ کی پیش کردہ اس تفسیر کی روشنی میں تو (خاکم بدہن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باسٹھ [62] سال کی عمر مبارک تک بغیر خشوع و خضوع والی نماز پڑھتے رہے۔ نعوذ بالله من هٰذالكفر
اور اگر ہم اس سورت کے زمانۂ نزول کو مکی زندگی کے آخری حصہ کو بھی مان لیں تب بھی یہ ثابت ہو گا کہ خشوع کے حکم والی ان آیات کے نازل ہو جانے کے نو [9] سال بعد تک معاذ الله رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کریمہ کا مفہوم نہ سمجھ پائے اور اس کے بر خلاف نماز میں رفع الیدین کرتے رہے معاذ اللہ جو اس تفسیر کی روشنی میں خشو ع کے خلاف ہے۔
معاذ اللہ جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کہ :

خشوع کے لئے ضروری ہے کہ رفع الیدین بھی نماز میں نہ کرے ” [ص 1]

محترم….صاحب ! اللہ تعالیٰ آپ کا ”اقبال“ بلند فرمائے، اگر آپ تعصب، جانبداری، ضد اور ہٹ دھرمی سے دور رہ کر قلب سلیم کے ساتھ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے تو اپنے علماء کی پیش کردہ نام نہاد تفسیر جو کہ ابوصالح جیسے سخت ضعیف اور السدی الصغیر جیسے کذاب و متروک راوی اور ”الکلبی“ جیسے رافضی و سبائی، کذاب اور دین اسلام کے خطرناک دشمن نے بیان کی ہے۔ آپ ان کی اس چال اور اس روایت کی قباحت و شناعت سے ہرگز انکار نہ کرپا ئیں گے، ان کذاب لوگوں کی بیان کردہ اس نام نہاد تفسیر کی اس سے بڑھ کر قباحت و شناعت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس سے اتقی الناس و اخشع الناس، امام المتقین و امام الخاشعین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (نعوذ باللہ) خشوع و خضوع سے خالی ثابت ہوئی ہے۔ (نعوذ باللہ) کیا کوئی ادنیٰ ایمان والا شخص بھی کبھی اس کا تصور کر سکتا ہے ؟

واللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ کسی انسان کی نماز خشوع و خضوع والی نہیں ہو سکتی، اس لئے حکم الٰہی سے آپ نے اپنی امت کو اس بات کا حکم دیا کہ صلو كمار أيتموني أصلي ”نماز اسی طریقہ سے پڑھو جس طریقہ سے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔“ [بخاري : 631] اور یہ تو ہمارے اور آپ کے ہاں مسلم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر وحی کے کسی بات کا حکم نہیں دیتے تھے۔ فافهم

واضح رہے کہ یہ تمام تر قباحتیں اس صورت میں لازم آتی ہیں جب آپ یہ کہیں جیسا کہ آپ نے (کتاب) آٹھ مسائل [ص 19] سے لفظ بہ لفظ نقل کرتے ہوئے لکھا بھی ہے کہ :

”خشوع کے لئے ضروری ہے کہ رفع یدین بھی نماز میں نہ کریں۔“ [آپ کی تحریر ص 1]

ہاں اگر آپ اپنی اس نقل فرمودہ بات سے ”رجوع“ کر لیں تو یہ قباحت لازم نہیں آتی، امید ہے کہ آپ غور فرمائیں گے۔ بصورت دیگر ان تمام باتوں کی اصل حقیقت پیش فرمائیں۔ چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ رفع الیدین عاجزی و انکساری، خشوع و خضوع اور سکون کے منافی ہرگز ہرگز نہیں بلکہ عین عاجزی و انکساری کا اظہار ہے، اگر آپ تسلیم نہیں کرتے تو اپنے اکابر علماء میں سے علامہ عبدالحئی حنفی لکھنوی کی منقول عبارت ملاحظہ کیجئے، لکھتے ہیں :
رفع اليدين عند الإفتتاح وغيره، خضوع، واستكانة، وابتهال و تعظيم لله تعالىٰ، و اتباع سنة نبيه صلى الله عليه وسلم
”رفع الیدین کرنا افتتاح (صلوٰۃ) کے وقت اور اس کے علاوہ خضوع ہے، عاجزی و انکساری ہے، گڑگڑانا ہے (اللہ کے سامنے) اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع ہے۔“ [التعليق الممجد على موطا محمد، ج 1 ص 375، حاشيه 3، قديمي كتب خانه]

محترم…….صاحب ! غور کیجئے گا، یہ رفع الیدین رب کے حضور عاجزی و انکساری، خشوع و خضوع کا اظہار صرف عندالافتتاح ہی نہیں بلکہ ”وغیرہ“ اس کے علاوہ دیگر مقام پر بھی ہے جیسے متواتر احادیث کی روشنی میں رکوع سے قبل اور رکوع سے اٹھنے کے بعد، اب یہ تو عجیب بات ہوئی کہ آپ کے ”علامہ و کثیر التصانیف معتبر شخصیت“ رفع الیدین کا شروع نماز کے علاوہ دیگر مقام پر بھی عاجزی و انکساری ہونا نقل فرما کر تسلیم کریں اور آپ اسے خشوع و خضوع کے منافی قرار دیں، اور پھر خود وتر میں روزانہ اور عیدین میں بار بار شروع نماز کے علاوہ بھی اس عمل کو دہرائیں، لیکن تناقض و تضاد کی عمدہ مثال بن کر اسی عمل کو خشوع و خضوع کے خلاف کہنے کی رٹ بھی لگائے رکھیں، خود بگوایں کار نادان نیست ؟ پھر آپ تو ماشاء اللہ ایک ”مذہبی مدرسہ“ کے طالبعلم ہیں۔ !

سوال ➊ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ”رفع الیدین“ شروع نماز میں اور درمیان وتر میں اور عیدین کی نمازوں کے درمیان خشوع و خضوع کے خلاف کیوں نہیں اور رکوع سے قبل رکوع سے اٹھنے کے بعد اور تیسری رکعت کے شروع میں خشوع و خضوع کے خلاف کیوں ہے ؟
سوال ➋ کیا اپنے اس ”خاص دعویٰ“ کی دلیل خاص قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کر سکتے ہیں ؟ یا جواب ندارد والا معاملہ ہے ؟
سوال ➌ بقول آپ کے نماز میں شروع کے علاوہ ”حدیث“ میں …. نماز کے اندر رفع یدین سے روکنا ہے۔ [ديكهئے اپني تحرير ص 2 سطر نمبر 12، 13]
بس یہ آپ ہی کے الفاظ ہیں بقدر ضرورت ہم نے نقل کردیئے۔ کیا آپ ثابت کر سکتے ہیں کہ وتر میں جو آپ ”رفع الیدین“ کرتے ہیں وہ نماز کے اندر نہیں ہے ؟
سوال ➍ کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز وتر میں اس رفع الیدین کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں ؟
امید ہے کہ میرے یہ سوالات آپ کے جوابات ”مستحق“ ”ٹھہریں گے، اللہ کرے ایسا ہی ہو ! آمین۔ چونکہ اگر ایسا نہ ہو تو آپ اپنے ہی قول کے مطابق ”گونگے شیطان“ ثابت ہوں گے۔

پانچویں بات : آپ نے لکھا ہے :

”خشوع کے لئے ضروری ہے کہ رفع الیدین بھی نماز میں نہ کرے۔“ [ص1]

تو یقیناً خشوع بھی ضروری ہے خاص طور پر جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت بیان فرمائی ہے، مثلا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ
”یقیناً فلاح پائی مومنوں نے، جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔“ [سورة المؤمنون : 1 تا 2]
معلوم ہوا کہ فلاح و کامیابی و کامرانی کے لئے خشوع لازمی ٹھہرا بلکہ فلاح کے حصول کی پہلی کڑی ہے۔
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ [2-البقرة:45]
”اور مدد طلب کرو صبر اور نماز (کے ذریعے) بے شک وہ بہت بھاری ہے مگر خشوع کرنے والوں پر (نہیں)۔“
↰ اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ خشوع اختیار کرنے والوں کے علاوہ لوگوں پر نماز بھاری ہے، نماز کو ہمیشگی کے ساتھ برضا و رغبت ادا کرنے کے لئے خشوع کا اختیار کرنا ضروری ہے، اس سے آپ خشوع کی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کس قدر ضروری ہے کہ اس کے بغیر اقامت صلوٰۃ جو بعد از ایمان اولین ضریضہ ہے اس کی ادائیگی بھاری ہے۔

سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خمس صلوات افترضهن الله عزوجل، من أحسن وضو ئهن و صلاهن لوقتهن و أتم ركوعهن و خشوعهن كان له على الله عهد أن يغفرله ومن لم يفعل فليس له على الله عهد إن شاء غفرله و إن شاء عذبه۔
اللہ عزوجل نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جس نے ان کے (ادائیگی کے) لئے اچھا وضو کیا، اور ان کے اوقات پر ان نمازوں کو پڑھا، ان کے رکوع (و سجود) و خشوع کو پورا کیا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا، اور جس نے ایسا نہیں کیا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد نہیں اگر چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے [موطا امام مالك باب الامر بالوتر 1238 ح267، سنن النسائي باب المحا فظه على الصلوات الخمس ح 462، سنن ابي داؤدباب فى المحافظه على وقت الصلاة ح 1420، اللفظ له وهو حد يث صحيح]
↰ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بخشش ومغفرت کا وعدہ جن سعادت مند لوگوں کے ساتھ خود رب کریم نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو نماذ کے دیگر لوازمات کے ساتھ ساتھ اس کے خشوع کا بھی خیال رکھیں اور اسے مکمل کریں اگرچہ خشوع کے موضوع پر بکثرت آیات و احادیث مبارکہ وارد ہیں لیکن فی الوقت اختصار مطلوب ہے، پس ”خشوع“ کی اہمیت کے ثبوت کے لئے اتنا ہی کافی ہے، یہاں انہیں بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ”خشوع“ ایک مطلوب و محمود چیز ہے، سو بقول آپ کے ”خشوع“ کے لئے ضروری ہے کہ رفع یدین بھی نماز میں نہ کرے۔ [آپ کی تحریر ص ا]
قصہ مختصر کہ نماز کے لئے ”خشوع“ ضروری ہے اور ”خشوع“ کئے بقول آپ کے ”رفع الیدین“ نہ کرنا ضروری ہے۔ اس بات کو یاد رکھئے گا، اب اپنے اکا بروانتہائی متعبر علماء کی سنیں وہ کیا فرماتے ہیں۔
➊ جناب مفتی تقی عثمانی (دیوبندی) صاحب جنہیں آپ کے حلقہ میں ”شیخ الاسلام“ کہا جاتا ہے وہ فرماتے ہیں :
”البتہ رفع يدين عند الركوع وعند الرفع منه میں اختلاف ہے، شافعیہ اور حنا بلہ ان دونوں مواقع پر بھی رفع کے قائل ہیں، محدثین کی ایک بڑی جماعت بھی ان کے مسلک کی حامی ہے، جبکہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کا مسلک ترک رفع کا ہے، ………… یہاں یہ واضح رہے کہ ائمۂ اربعہ کے درمیان یہ اختلاف محض افضلیت اور عدم افضلیت کا ہے نہ کہ جواز و عدم جواز کا، چنانچہ دونوں طریقے فریقین کے نزدیک بلا کراہت جائز ہیں …..“
مزید لکھتے ہیں : ”بعض شافعیہ نے بھی ترک رفع پر فساد کا حکم دے دیا، اور حنفیہ میں سے صاحب منیۃ المصلی نے رفع یدین کو مکروہ لکھ دیا، لیکن حقیقت وہی ہے جو ہم نے بیان کی، کہ نہ شافعیہ کے مذہب میں ترک رفع مفسد صلوٰۃ ہے نہ حنفیہ کے ہاں رفع مکروہ ہے۔“ [درس ترمذي، باب رفع اليدين عندالركوع، ج 2 ص 26]

مسئلہ زیر بحث میں آپ کے ”شیخ الاسلام“ مفتی تقی عثمانی صاحب نے جو کچھ بیان فرمایا اس میں بقدر ضرورت ہم نے یہاں نقل کیا ہے، آپ اسے بغور پڑھیں، اس میں بغیر کسی ایچ پیچ کے اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ احناف کے ہاں رکوع سے قبل اور بعد رفع الیدین پر عمل بلا کراہت جائز ہے اور یہ عمل مکروہ بھی نہیں، بلکہ تقی عثمانی صاحب تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ :
”رفع یدین کے مسئلہ پر ہماری آئندہ گفتگو کا منشاء یہ ثابت کرنا نہیں کہ رفع یدین ناجائز ہے یا احادیث سے ثابت نہیں۔“ [درس ترمذي، باب رفع اليدين عندالركوع ج 2 ص 27 مطبوعه مكتبه دارالعلوم كراچي]

محترم بھائی ….صاحب ! آپ کے نزدیک تو رفع الیدین خشوع و سکون کے منافی ہے جیسا کہ آپ نے آٹھ مسائل [ص 19] سے نقل فرمایا کہ ”خشوع کے لئے ضروری ہے کہ رفع یدین بھی نماز میں نہ کرے“ آپ خشوع کے لئے جس عمل سے بچنا اس کا نہ کرنا ”ضروری“ سمجھتے ہیں جی ہاں ضروری ! آپ کے ”عظیم مفتی“ اور ”شیخ الاسلام“ اس چیز پر عمل کرنا ”ناجائز و مکروہ“ تو کجا بلاکراہت سمجھتے ہیں، اور اسے حقیقت میں ”حنفیہ کا مذہب“ بتلاتے ہیں۔ جیسا کہ خط کشیدہ و جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔
قرآن و سنت سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ”خشوع و خضوع“ بالخصوص نماز میں انتہائی مطلوب اور اہم عمل ہے، تو کیا ایسا عمل جو خشوع جیسے عظیم عمل کے خلاف ہو اس میں خلل ڈالتا ہو وہ بلا کراہت جائز ہو سکتا ہے ؟ یقیناً نہیں، بالکل نہیں اور ہرگز ہرگز نہیں ! ایسے عمل کو تو ناجائز و مکروہ ہونا چاہیے اس میں تو کراہت ہونی چاہیے اور خاص طور پر ایسا عمل خشوع حاصل کرنے کے لئے جس کا نہ کرنا ضروری ہو۔ لیکن آپ کے ”شیخ الاسلام“ صاحب تو رفع یدین کرنا ناجائز و مکروہ نہیں کہتے اور احناف کے نزدیک اس پر عمل بلا کراہت جائز بتاتے ہیں۔

پس معلوم ہوا کہ نماز میں رفع الیدین خشوع کے خلاف نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے اور یہ عین خشوع اور رب کے حضور عاجزی و انکساری کا اظہار ہے جیساکہ آپ کے معتبر عالم علامہ عبدالحئی لکھنوی سے ہم نقل کر آئے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ خشوع کے خلاف قرار دینے والے اور اسی لئے رفع یدین نہ کرنا ضروری قرار دینے والے خود اپنے ”حنفی مذہب“ کے علم سے نابلدو کورے ہیں کہ ان کے ”شیخ الاسلام و عظیم مفتی“ بلا کراہت جائز قرار دیتے ہیں اور یہ نہ کرنا ضروری قرار دیتے ہیں۔

…..صاحب ! کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ آپ کے ”شیخ الاسلام“ و ”عظیم مفتی محترم“ تقی عثمانی صاحب اصل حنفی مذہب بیان فرما رہے ہیں یا آپ لوگ حنفی مذہب کی غلط ترجمانی کر رہے ہیں ؟
یاد رہے کہ ”جواب دینا لازم ہے“ اور جواب سے سکوت کر کے ”گونگا شیطان بننا“ خود جناب کا فرمودہ و بیان کردہ اصول ہے۔ [ديكهئے اپني تحرير ص 4 كا آخري پيراگراف] سو اس اصول کی روشنی میں ناچیز کا خیال ہے کہ آپ اپنا ناپسندیدہ ”گونگے شیطان“ کا کردار بننا گوارا نہیں فرمائیں گے، والله الموفق وهو أعلم بالصواب۔

صوفی عبدالحمید سواتی دیوبندی لکھتے ہیں کہ : ”رکوع جاتے وقت اور اس سے اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرنا زیادہ بہتر اور اگر کرلے تو جائز ہے۔“ [نماز مسنون ص 349 مطبوعہ 1986؁ء]
سوال ➊ آپ نے تو رفع الیدین رکوع سے پہلے اور اس کے بعد کو منسوخ قرار دیا ہے، کیا کسی منسوخ حکم پر عمل کرنا بلا کراہت جائز ہو سکتا ہے ؟ جبکہ وہ عمل خشوع کے بھی سخت خلاف ہو ؟
سوال ➋ بلا کراہت تو ایک طرف کیا منسوخی پر بکراہت بھی عمل جائز ہو سکتاہے ؟
سوال ➌ رفع الیدین عندالرکوع و بعدالرفع منہ بقول آپ کے منسوخ ہے، اور بقول آپ کے ”شیخ الاسلام و عظیم مفتی“ اس پر بلاکراہت عمل جائز ہے تو کیا ہر ہر منسوخ شے پر بلاکراہت عمل جائز ہے یا صرف رفع الیدین ہی پر باوجود منسوخ ہونے کے عمل جائز ہے ؟
اسی طرح سرفراز خان صفدر فرماتے ہیں :
”شاہ ولی اللہ صاحب حجۃ اللہ البالغہ [ج2 ص 10] میں لکھتے ہیں۔
والذي يرفع أحب إلى ممن لا يرفع فإن أحاديث الرفع أكثر وأثبت
”یعنی جو رفع الیدین کرتا ہے مجھے زیادہ محبوب ہے بنسبت اس کے جو رفع الیدین نہیں کرتا“ پس بے شک رفع الیدین کی احادیث بہت کثرت سے اور زیادہ ثابت شدہ ہیں۔ [نقل بقدر ضرورت۔ من خزائن السنن ج 1 حصه دوم ص 92] کہیں یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ یہ تکبیر تحریمہ کے رفع الیدین سے متعلق فرمایا گیا ہے، اس لئے کہ یہ بات شاہ ولی اللہ صاحب نے رکوع کے رفع الیدین سے متعلق بحث میں لکھی ہے۔ [ديكهئے۔ حجة الله البالغه ج 2 ص 24 تا 25۔ مطبوعه قديمي كتب خانه]
آپ کے قول و اصول کے مطابق کیا شاہ صاحب کو خلاف خشوع عمل کرنے والے زیادہ محبوب تھے ؟
(شاہ ولی اللہ وغیرہ کے یہ اقوال بطور الزام پیش کئے گئے ہیں۔ ان علماء کا ترک رفع یدین کو جائز سمجھنا احادیث صحیحہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ )
(ابوحمزہ) عمران بن ابی عطاء الاسدی،( تابعی) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
رأيت ابن عباس يرفع يديه إذا افتتح الصلوٰة وإذا ركع و إذا رفع رأسه من الركوع
”میں نے (سیدنا) ابن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ شروع نماز، رکوع سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه ج 1 ص 235 ح 2431 وسنده حسن]
یہ روایت مسائل الامام احمد [رواية عبدالله بن احمد 244/1 ح 331] مصنف عبدالرزاق [69/3 ح 2523] اور جزء رفع الیدین للبخاری [ح21] میں بھی موجود ہے۔ طاؤس (تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ (بن عباس) کو نماز میں رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [جزء رفع اليدين : 28و سنده صحيح] سیدنا ابن عباس کا نماز میں رفع یدین کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نماز میں رفع یدین خشوع و خضوع کے خلاف نہیں ہے۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے