تربیت اولاد سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده ، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو دینی تعلیم کیسے دیتے ؟

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾
﴿لقمان:13﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا، جب کہ وہ اسے نصیحت کر رہا تھا اے میرے چھوٹے بیٹے ! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔“

حدیث 1 :

«عن ابن عباس قال: كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما ، فقال: يا غلام ! إني أعلمك كلمات: احفظ الله يحفظك . احفظ الله تجده تجاهك، إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك رفعت الأقلام وجفت الصحف»
سنن ترمذى، أبواب صفة القيامة، رقم : 2635 ، مسند أحمد : 233/4- محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن میں (سواری پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے چھوٹے لڑکے! یقیناً میں تجھے کچھ باتیں سکھلا رہا ہوں، اللہ تعالیٰ (کے احکام) کی حفاظت کرو، وہ تیری حفاظت کرے گا، تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر، تو اس کو اپنے روبرو پائے گا، تو جب سوال کرے تو اللہ تعالیٰ (ہی) سے سوال کر ، اور جب مدد طلب کر، تو اللہ تعالی (ہی) سے مدد مانگو اور (اس حقیقت کو جان لو) یعنی (اچھی طرح ذہن نشین کر لو) کہ اگر ساری امت تجھے کچھ نفع پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو تجھے وہ نفع ہی پہنچے گا جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے تحریر کر دیا ہوا ہے اور اگر تمام امت تجھے کچھ نقصان پہنچانے کے لیے متحد ہو جائے تو تجھے اتنی ضرر ہی پہنچا سکیں گے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دی ہوئی ہے، قلموں کو اٹھا لیا گیا ہے اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استقبال کا طریقہ کیسے سکھایا ؟

حدیث 2 :

«وعن أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها ، أنها قالت: ما رأيت أحدا كان أشبه سمتا وهديا ودلا – وفي رواية: حديثا وكلاما – برسول الله صلى الله عليه وسلم من فاطمة ، كانت إذا دخلت عليه ، قام إليها ، فأخذ بيدها وقبلها وأجلسها فى مجلسه، وكان إذا دخل عليها ، قامت إليه ، فأخذت بيده فقبلته وأجلسته فى مجلسها»
سنن ابو داؤد، كتاب الأدب، رقم : 5217، سنن ترمذی، رقم : 3872- محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے ، ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے، اپنی جگہ پر بٹھاتے اور جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ آپ کے لیے کھڑی ہو جاتیں آپ کا ہاتھ پکڑتیں، استقبال کرتیں، آپ کی پیشانی مبارک پر بوسہ دیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے ان کا استقبال کیا اور بوسہ دیا۔“

اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دینا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ﴾
﴿طه:132﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور اپنے اہل وعیال کو نماز کا حکم دیجیے اور (خود بھی) اس پر قائم رہیے، ہم آپ سے رزق نہیں مانگتے ، ہم ہی آپ کو رزق دیتے ہیں، اور (بہترین) انجام تو (اہل) تقویٰ کے لیے ہے۔ “

حدیث 3 :

«وعن عمرو بن شعيب عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : مروا اولادكم بالصلاة لسبع واضربوهم عليها لعشر وفرقوا بينهم فى المضاجع»
مسند احمد : 187/2، سنن أبوداؤد، رقم : 495۔ محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
اور عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دینا شروع کرو اور جب دس برس کے ہو جائیں (اور نماز نہ پڑھیں) تو انہیں (تربیت کی غرض سے) مارو اور جب بچے دس برس کے ہو جائیں تو ان کو الگ بستروں میں سلایا کرو (کہیں شیطانی حرکات پر آمادہ نہ ہو جائیں)۔ “

اولاد کو ابتدا ہی سے اچھے ماحول میں رکھنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ﴾
﴿الصافات:100﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے میرے رب! مجھے (لڑکا) عطا کر جو نیکوں سے ہو۔“

حدیث 4 :

«وعن أنس بن مالك رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ولد لي الليلة غلام ، فسميته باسم أبى إبراهيم – عليه السلام – ثم دفعه إلى أم سيف امرأة قين يقال له: أبو سيف ، فانطلق يأتيه واتبعته ، فانتهينا إلى أبى سيف وهو ينفخ بكيره ، قد امتلا البيت دخانا، فأسرعت المشي بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقلت: يا أبا سيف ! أمسك ، جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فأمسك ، فدعا النبى صلى الله عليه وسلم بالصبي ، فضمه إليه ، وقال: ما شاء الله ان يقول: فقال أنس : لقد رأيته وهو يكيد بنفسه بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فدمعت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: تدمع العين ويحزن القلب، ولا نقول إلا ما يرضى ربنا والله! يا إبراهيم! إنا بك لمحزونون»
صحيح مسلم، کتاب الفضائل، رقم : 6025
” اور حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپﷺ (ایک دن آئے اور) ارشاد فرمایا کہ آج رات میرا بیٹا پیدا ہوا ہے اور میں نے اس کا نام اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے نام پر رکھا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ ایک لوہار ابوسیف نامی کی بیوی کو (پرورش کے لیے) دے دیا۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسیف کے پاس جا رہے تھے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا گیا جب ہم ابوسیف کے پاس پہنچے تو وہ بھٹی میں پھونک رہا تھا (یعنی آگ جلا کر کوئی چیز بنا رہا تھا) اور گھر دھویں سے بھر چکا تھا تو میں آپ سے پہلے ابوسیف کے پاس گیا میں نے جا کر کہا ابوسیف رک جا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں وہ رک گیا (ابراہیم بیمار تھا اس کا آخری وقت تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کو منگوایا اور اس کو اپنے سینے سے لگایا اور (پیار و محبت بھری) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ باتیں بھی کہیں میں نے دیکھا کہ ابراہیم کی جان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نکل رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آنکھ تو آنسو بہا رہی ہے اور دل غم سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن ہم (ابراہیم رضی اللہ عنہ کے متعلق اللہ سے) کوئی ایسی بات نہیں کہیں گے جس پر رب ناراض ہو جائے (یعنی ابراہیم کی موت پر اللہ کی رضا پر راضی ہیں)۔“

والدین بچوں کے نگران ہوتے ہیں

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ ۖ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ﴾
﴿آل عمران:38﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”وہیں زکریا نے اپنے رب سے دعا کی، کہا: میرے رب! مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا کر، بے شک تو ہی دعا سننے والا ہے۔ “

حدیث 5 :

«وعن عبد الله بن عمر يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته: الإمام راع ومسئول عن رعيته ، والرجل راع فى أهله وهو مسئول عن رعيته ، والمرأة راعية فى بيت زوجها ومسئولة عن رعيتها، والخادم راع فى مال سيده ومسئول عن رعيته ، قال: وحسبت أن قد قال: والرجل راع فى مال أبيه ومسئول عن رعيته وكلكم راع ومسئول عن رعيته»
صحيح البخارى، كتاب الجمعة ، باب الجمعة فى الفرى والمدن، رقم : 893 ،صحیح مسلم کتاب الامار ، باب فضيلة الامير العادل، رقم : 1829
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد سنا: ”تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ امام نگران ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہوگا۔ انسان اپنے گھر کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔“ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ”انسان اپنے باپ کے مال کا نگران ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا اور تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔“

مال و اولاد کے لیے دعا کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا﴾
﴿الكهف:46﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”مال اور بیٹے تو دنیاوی زندگی کی زینت ہیں، اور آپ کے رب کے ہاں باقی رہنے والی نیکیاں ہی ثواب میں بہتر ہیں اور امید لگانے کے اعتبار سے (بھی) بہتر ہیں۔ “

حدیث 6 :

«وعن أنس قال: دخلت على النبى صلى الله عليه وسلم يوما ، وما هو إلا أنا وأمى وأم حرام خالتي، إذ دخل علينا فقال لنا: ألا أصلى بكم؟ وذاك فى غير وقت صلاة ، فقال رجل من القوم: فأين جعل أنسا منه؟ فقال: جعله عن يمينه؟ ثم صلى بنا ، ثم دعا لنا – أهل البيت – بكل خير من خير الدنيا والآخرة، فقالت أمى يا رسول الله، خويدمك، ادع الله له ، فدعا لي بكل خير، كان فى آخر دعائه أن قال: اللهم أكثر ماله وولده، وبارك له»
صحیح مسلم کتاب المساجد ،باب جواز الجماعة فى النافلة ، رقم: 660، سنن النسائى ، رقم: 802 ، سلسلة الصحيحة، رقم: 140، 2214
”اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا (اور یہ اس دن کی بات ہے جب) صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم, میں، میری والدہ اور میری خالہ ام حرام تھے۔ جب آپﷺ ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہم سے فرمایا: کیا میں تمہیں نماز نہ پڑھاؤں؟ اور یہ (فرض) نماز کا وقت نہیں تھا۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا: تو آپ ﷺ نے انس کو کہاں کھڑا کیا ؟ انہوں نے کہا: اسے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔ پھر ہم گھر والوں کے لیے دعا فرمائی (اور) دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کی دعا کی۔ میری والدہ نے عرض کی، اللہ کے رسول! آپﷺ کا ننھا خادم، اس کے لیے اللہ سے (خصوصی) دعا کریں۔ آپ نے میرے لیے (دنیا و آخرت کی) ہر بھلائی کی دعا کی۔ آپ نے اپنی دعا کے آخر میں فرمایا: اے اللہ ! اسے کثرت سے مال اور اولاد عطا فرما اور اسے برکت سے نواز۔ “

لڑکے کو لڑکی پر ترجیح نہ دو

﴿قَالَ اللهُ تَعَالَى :لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ . أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ .﴾
﴿الشورى:49﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے۔ یا انھیں ملا کر بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے، یقیناً وہ سب کچھ جاننے والا ، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔“

حدیث 7 :

«وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من كانت له أنثى فلم يئدها ولم يهنها ولم يؤثر ولده عليها قال: يعني الذكور أدخله الله الجنة»
سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی فضل من مال يتامى، رقم: 5146، المشكاة، رقم : 4979
اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس کے یہاں بچی ہوئی اور اس نے اسے (دور جہالت کی طرح) زندہ دفن نہیں کیا، نہ اس کو حقیر سمجھا اور نہ لڑکوں کو اس پر ترجیح دی تو ایسے شخص کو اللہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ “

تین بہنوں یا بیٹیوں کی کفالت کی فضیلت

حدیث 8 :

«وعن أبى سعيد الخدري ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يكون لأحد ثلاث بنات ، أو ثلاث أخوات ، فيحسن إليهن ، إلا دخل الجنة»
سنن ابو داؤد، کتاب الأدب، باب فضل من عال بينهما ، رقم : 5147 ، سنن الترمذى، رقم: 1912 ، صحيح الترغيب، رقم : 1973 ، سلسلة الصحيحة ، رقم : 294
اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان سے حسن سلوک کرتا ہو تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ “

بچوں کو ابتدا ہی سے دین کی تعلیم دو

قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا﴾
﴿الفرقان:74﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور وہ جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔ “

حدیث 9 :

«وعن أبى قتادة الأنصاري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلى وهو حامل أمامة بنت زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ولابي العاص ابن ربيعة بن عبد شمس ، فإذا سجد وضعها وإذا قام حملها»
صحيح البخارى، كتاب سترة المصلى ، باب إذا حمل جارية صغيرة على عنقة في الصلوة، رقم : 516 ، صحيح مسلم، کتاب المساجد ، باب جواز عمل الصبيان في الصلاة، رقم : 543
”اور سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نواسی امامہ کو اٹھا کر نماز پڑھی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا اور ابو العاص کی بیٹی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے تو اسے (زمین پر) بٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو دوبارہ اٹھا لیتے۔ “

تقسیم کے وقت سب سے چھوٹے بچے کو پہلے چیز دینا

حدیث 10:

«وعن أبى هريرة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتي بالزهو قال: اللهم بارك لنا فى مدينتنا ومدنا، وصاعنا، بركة مع بركة ، ثم ناوله أصغر من يليه من الولدان»
صحیح مسلم، کتاب الحج ، رقم : 1373 ، سنن الترمذی، رقم : 3504، سنن ابن ماجه، رقم : 3329
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب نیا پھل لایا جاتا تو آپ یوں دعا فرماتے: ”اے اللہ ! ہمارے مدینہ طیبہ اور ہمارے مد اور صاع میں برکت در برکت فرما۔ پھر وہاں موجود بچوں میں سے سب سے چھوٹے بچے کو دے دیتے۔ “

نیک اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہے

قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا﴾
﴿الفرقان:74﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور وہ جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔“

حدیث 11 :

«وجبير بن نفير عن أبيه قال: جلسنا إلى المقداد بن الأسود يوما ، فمر به رجل فقال: طوبى لهاتين العينين اللتين رأتا رسول الله صلى الله عليه وسلم ، والله لوددنا أنا رأينا ما رأيت ، وشهدنا ما شهدت فاستغضب ، فجعلت أعجب ، ما قال إلا خيرا ، ثم أقبل عليه فقال: ما يحمل الرجل على أن يتمنى محضرا غيبه الله عنه؟ لا يدرى لو شهده كيف يكون فيه؟ والله ، لقد حضر رسول الله صلى الله عليه وسلم أقوام كبهم الله على مناخرهم فى جهنم، لم يجيبوه ولم يصدقوه، أولا تحمدون الله عز وجل إذ خرجكم لا تعرفون إلا ربكم ، فتصدقون بما جاء به نبيكم صلى الله عليه وسلم ، قد كفيتم البلاء بغيركم ، والله لقد بعث النبى صلى الله عليه وسلم على أشد حال بعث عليها نبي قط ، فى فترة وجاهلية ، ما يرون أن دينا أفضل من عبادة الأوثان ، فجاء بفرقان فرق به بين الحق والباطل، وفرق به بين الوالد وولده ، حتى إن كان الرجل ليرى والده أو ولده أو أخاه كافرا، وقد فتح الله قفل قلبه بالإيمان، ويعلم أنه إن هلك دخل النار ، فلا تقر عينه، وهو يعلم أن حبيبه فى النار، وأنها للتي قال الله عزوجل:» ﴿وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا﴾ ﴿الفرقان:74﴾
مسند احمد، رقم : 2381 الاحاد والمثانى لابن أبي عاصم، رقم : 292، المعجم الكبير للطبرانی: 253/20 ، صحیح ابن حبان، رقم : 6552 ، سلسلة الصحيحة، رقم :2823
”اور حضرت جبیر بن نفیر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی وہاں سے گزرا تو اس نے کہا: کتنی با سعادت ہیں یہ دونوں آنکھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، اللہ کی قسم ! ہماری خواہش ہے کہ ہم بھی وہ دیکھتے جو آپ نے دیکھا ہے اور ہم بھی ان مواقع پر موجود ہوتے جن پر آپ موجود رہے ہیں۔ اس بات سے سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ غصے میں آگئے تو مجھے ان پر تعجب ہوا کہ (غصے والی کیا بات ہے) اس نے اچھی بات ہی کی ہے۔ پھر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا وجہ ہے کہ کوئی شخص کسی موقع پر موجود ہونے کی تمنا کرتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے غائب رکھا ہے۔ نہ معلوم وہ اس موقع پر موجود ہوتا تو اس کا کیا حال ہوتا ؟ اللہ کی قسم ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کتنے لوگ حاضر ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کے بل جہنم میں اوندھا کر دیا۔ (کیونکہ) انہوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا نہ آپ کی تصدیق کی۔ کیا تم اس بات پر اللہ کی تعریف بیان نہیں کرتے کہ جب اس نے تمہیں پیدا فرمایا تو تم اپنے رب کے سوا کسی (غیر اللہ) کو نہیں جانتے ، یعنی ہر طرف ایمان ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق کرتے ہو۔ ( تصدیق و تکذیب کی) آزمائش دوسرے لوگوں کے ذریعے تم سے ٹل گئی۔ اللہ کی قسم! جیسے سخت حالات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے کوئی نبی ایسے حالات میں مبعوث نہیں ہوا۔ یہ فطرت اور جاہلیت کا زمانہ تھا (کہ سال ہا سال تک نبی مبعوث نہ ہوا تھا) بتوں کی عبادت سے بڑھ کر لوگ کسی دین کو افضل نہیں سمجھتے تھے۔ آپ فرقان لے کر آئے جس کے ذریعے حق اور باطل میں امتیاز کیا۔ باپ بیٹے کے درمیان جدائی کر دی یہاں تک ایسا موقع آگیا کہ ایک (مومن) آدمی اپنے والد، بیٹے اور بھائی کو کافر دیکھتا تھا اور خود اس کے دل کے تالے اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ذریعے کھول دیئے ۔ وہ جانتا تھا کہ یقینا اگر وہ (اس کا باپ اور بھائی) ہلاک ہو گیا تو دوزخ میں جائے گا، لہذا (انہیں دیکھ کر) اس کی آنکھیں ٹھنڈی نہ ہوتی تھیں جبکہ وہ جانتا ہوتا کہ اس کا حبیب دوزخ میں جانے والا ہے اور یہ (اولاد کی محبت) ایسی چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور وہ لوگ جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما۔ “

بچوں کو دم کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ . وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ .﴾
﴿القيامة:26،27﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”ہرگز نہیں، (وہ وقت یاد کرو) جب (جان) ہنسلیوں تک پہنچ جائے گی ۔ اور کہا جائے گا کون ہے دم کرنے والا ؟ “

حدیث 12 :

«وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: كان النبى صلى الله عليه وسلم يعود الحسن والحسين ويقول: إن أباكما كان يعوذ بها إسماعيل وإسحاق: أعوذ بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة ، ومن كل عين لامة»
صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبياء رقم : 3371 ، سنن ترمذی، کتاب الطب، رقم : 2060 ، سنن ابو داؤد، كتاب السنة، رقم : 4737 ، المشكاة : 1535
”اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لیے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ تمہارا بزرگ دادا (ابراہیم علیہ السلام ) بھی ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ اسماعیل اور اسحاق علیہ السلام کے لیے مانگا کرتے تھے، میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے۔ “

بچوں سے کھیلنا

حدیث 13 :

«وعن عدي بن ثابت قال: سمعت البراء يقول: رأيت النبى صلى الله عليه وسلم والحسن صلوات الله عليه على عاتقه، وهو يقول: اللهم ، إنى أحبه فأحبه»
صحيح البخاری، فضائل اصحاب النبي ﷺ، رقم : 2749، صحیح مسلم، رقم : 2422، سنن الترمذى، رقم : 2783 ، الصحيحة، رقم : 2289
اور حضرت براء (بن عازب) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کندھے پر اٹھا رکھا تھا اور ارشاد فرما رہے تھے:” اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔“

نیک اولاد کے فائدے

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا﴾
﴿الفرقان:74﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” اور وہ جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا۔“

حدیث 14 :

«وعن أبى هريرة ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن الرجل لترفع درجة فى الجنة فيقول: أنى هذا؟ فيقال: باستغفار ولدك لك»
سنن ابن ماجه کتاب الادب، باب بر الوالدین رقم 3560، سلسلة الصحيحة، رقم : 4076
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت میں انسان کا درجہ بلند ہو جاتا ہے وہ پوچھتا ہے کہ یہ درجہ مجھے کہاں سے ملا ہے؟ تو اسے جواب دیا جاتا ہے کہ تیری اولاد کی تیرے لیے بخشش کی دعا کی وجہ سے یہ درجہ بلند ہوا ہے۔“

بچوں کی اچھی صفات بیان کرنا

حدیث 15 :

«وعن ابن أبى نعم قال: كنت شاهدا ابن عمر إذ سأله رجل عن دم البعوضة؟ فقال: ممن أنت؟ فقال: من أهل العراق ، فقال: انظروا إلى هذا، يسألني عن دم البعوضة، وقد قتلوا ابن النبى صلى الله عليه وسلم ، سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: هما ريحاني من الدنيا »
صحیح البخارى، فضائل أصحاب النبي ﷺ، رقم : 3753، سنن الترمذی، رقم: 3770 ، السلسلة الصحيحة، رقم : 2494
”اور عبدالرحمن بن ابو نعم سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا۔ ایک آدمی نے سوال کیا کہ مچھر کو مارنا کیسا ہے (جائز ہے نا جائز ؟) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: تو کہاں سے آیا ہے؟ اس نے کہا: عراق سے۔ تب ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اسے دیکھو! مچھر کے مارنے کے جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں پوچھتا ہے حالانکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر کو شہید کیا (تو انہیں ذرا خیال نہ آیا) میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا: وہ دونوں (حسن و حسین رضی اللہ عنہما) دنیا میں میرے پھول ہیں۔ “

اولاد کو اچھا کھلانے کی ترغیب

حدیث 16 :

«وعن المقدام بن معدى كرب، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما أطعمت نفسك فهو لك صدقة، وما أطعمت ولدك فهو لك صدقة، وما أطعمت زوجك فهو لك صدقة ، وما أطعمت خادمك فهو لك صدقة»
مسند أحمد، رقم : 17179 ، سنن الكبرى للنسائي، رقم : 9141، المعجم الكبير للطبرانی: 268/20 ، السلسلة الصحيحة، رقم : 492
اور حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا: ”جو تو خود کھائے ، وہ تیرے لیے صدقہ ہے اور جو تو اپنی اولاد کو کھلائے ، وہ تیرے لیے صدقہ ہے، جو تو اپنی بیوی کو کھلائے ، وہ تیرے لیے صدقہ ہے اور جو تو اپنے نوکر کو کھلائے وہ بھی تیرے لیے صدقہ ہے۔ “

بچیوں کی پرورش کی فضیلت

قَالَ الله تَعَالَى: ﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا﴾
﴿الإسراء:31﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور تم اپنی اولاد کو غریبی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انھیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی ، بے شک ان کا قتل کبیرہ گناہ ہے۔“

حدیث 17 :

«وعن جابر بن عبد الله حدثهم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من كان له ثلاث بنات، يؤويهن، ويكفيهن ، ويرحمهن، فقد وجبت له الجنة البية ، فقال رجل من بعض القوم: وثنتين، يا رسول الله؟ قال: وثنتين»
مسند احمد : 14247 ، السلسلة الصحيحة، رقم : 1027
اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس کی تین بیٹیاں ہوں جنہیں وہ ٹھکانا دیتا ہو، ان کی کفالت کرتا ہو اور شفقت کرتا ہو تو اس کے لیے ضرور جنت واجب ہو گئی۔“ حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول ! اگر کسی کی دو بیٹیاں ہوں تو (ان کے ساتھ حسن سلوک کا بھی یہی ثواب ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دو کے ساتھ حسن سلوک کا بھی یہی ثواب ہے۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تزکیہ نفس کرنے کا انداز

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ﴾
﴿آل عمران:164﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
” بے شک اللہ نے مومنوں پر احسان کیا، جب ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیجا، وہ انھیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور بے شک وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔ “

حدیث 18 :

«وعن معاذ بن جبل قال: لما بعثه إلى اليمن خرج معه رسول الله صلى الله عليه وسلم يوصيه … فقال المتقون من كانوا وإن أولى الناس بى حيث كانوا»
مسند احمد : 235/5، رقم : 22052۔ شیخ شعیب نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن بھیجا تو آپﷺ الوداع کرنے کے لیے شہر سے باہر تشریف لائے اور وصیت فرمائی، ارشاد فرمایا: ”میرے عزیز اور دوست تم میں سے متقی لوگ ہیں، وہ جو بھی ہوں اور جہاں ہوں ۔۔۔ “

اولاد کو فکر آخرت کی ترغیب دینا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾
﴿الشعراء:214﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
”اور آپ اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرائیں۔ “

حدیث 19 :

«وعن أبى هريرة قال: لما نزلت هذه الآية ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ ﴿الشعراء:214﴾ قام النبى صلى الله عليه وسلم فنادى : يا بني كعب بن لوى، أنقذوا أنفسكم من النار ، يا بني عبد مناف ، أنقذوا أنفسكم من النار ، يا بنى هاشم ، أنقذوا أنفسكم من النار، يا بني عبد المطلب ، أنقدوا أنفسكم من النار، يا فاطمة بنت محمد ، أنقذى نفسك من النار، فإني لا أملك لك من الله شيئا، غير أن لكم رحما سأبلها ببلالها»
سنن ترمذی، کتاب تفسیر القرآن، رقم : 3185 ، صحیح مسلم، رقم : 204، سنن النسائی، رقم : 3644 ، السلسلة الصحيحة، رقم : 3177
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ”اور آپ اپنے بہت قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں ۔“ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نے قریش کو اکٹھا کیا اور) کھڑے ہوئے اور آواز دی: ”اے بنو کعب بن لؤی اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، اے بنو عبد مناف ! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، اے بنو ہاشم اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، اے بنو عبدالمطلب اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، اے فاطمہ بنت محمد اپنی جان کو آگ سے بچا لو۔ میں اللہ کی طرف سے تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں سوائے اس کے کہ میرا تمہارے ساتھ رشتہ داری کا تعلق ہے میں اس رحم کو تر کرتا رہوں گا۔ “

بچوں کو محبت سے سینے سے لگانا

حدیث 20 :

«وعن أبى هريرة قال: أتى النبى صلى الله عليه وسلم رجل ومعه صبي ، فجعل يضمه إليه ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم : أترحمه؟ قال: نعم ، قال: فالله أرحم بك منك به، وهو أرحم الراحمين»
شعب الايمان للبيهقي ، رقم : 7134 التوحيد لإبن منده : 360 – محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس کے ساتھ بچہ بھی تھا۔ وہ پیار سے اسے سینے سے لگانے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم اس پر رحمت و شفقت کرتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تم پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا تم اس (بچے) پر مہربان ہو۔ وہ تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ “

حدیث 21 :

«وعن يعلى بن مرة أنه قال: خرجنا مع النبى صلى الله عليه وسلم ، ودعينا إلى طعام فإذا حسين يلعب فى الطريق، فأسرع النبى صلى الله عليه وسلم أمام القوم ، ثم بسط يديه ، فجعل يمر مرة ها هنا ومرة ها هنا، يضاحكه حتى أخذه، فجعل إحدى يديه فى ذقنه والأخرى فى رأسه، ثم اعتنقه ، ثم قال النبى صلى الله عليه وسلم : حسين مني وأنا منه، أحب الله من أحب الحسين ، سبط من الأسباط»
سنن الترمذى، كتاب المناقب، رقم : 3775 ، سنن ابن ماجه رقم : ١٤٤، السلسلة الصحيحة، رقم : 1227
اور حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کھانے کی دعوت پر باہر نکلے تو راستے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کھیل رہے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے لوگوں سے آگے بڑھے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا دیا۔ بچے نے ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ہنسی کرتے رہے یہاں تک کہ اس کو پکڑ لیا۔ آپ نے ایک ہاتھ اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور دوسرا اس کے سر پر رکھا اور اسے گلے لگا لیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرے۔ حسین ہمارے بچوں میں سے ایک بچہ ہے۔ “

چھوٹوں پر شفقت

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾
﴿التحريم:6﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، اس پر سخت دل، بہت مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انھیں حکم دے اور وہ کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں۔ “

حدیث 22 :

«وعن عمرو ابن شعيب عن أبيه، عن جده، قال: قال أن رسول الله صلى الله عليه وسلم : ليس منا من لم يرحم صغيرنا، ويعرف حق كبيرنا»
سنن ترمذی، ابواب البر والصلة، رقم : 192 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 2196
اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کے حق (تکریم) کو نہیں پہچانتا وہ ہم سے نہیں ہے۔ “

بیوہ اور طلاق یافتہ بیٹیوں کی دیکھ بھال کرنے کی فضیلت

حدیث 23 :

«وعن سراقة بن مالك ، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ألا أدلكم على أفضل الصدقة؟ ابنتك مردودة إليك ، ليس لها كاسب غيرك»
سنن ابن ماجه ، كتاب الادب، رقم : 3667 ، المشكاة، رقم : 5002
اور حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں تمہیں بہترین صدقہ کیوں نہ بتا دوں وہ تمہاری بیٹی ہے جو تمہارے پاس لوٹا دی گئی ہے اور تمہارے سوا کوئی اس کو کما کر کھلانے والا نہیں (یعنی شادی ہو جانے کے بعد پھر ماں باپ کے حوالے کر دی گئی ۔ “)

چھوٹے فوت شدہ بچے جنت کی تتلیاں

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾
﴿الحشر:10﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے ، اے ہمارے رب ! یقینا تو بے حد شفقت کرنے والا نہایت رحم والا ہے۔ “

حدیث 24 :

«وعن خالد العبسي قال: مات ابن لي ، فوجدت عليه وجدا شديدا، فقلت: يا أبا هريرة، ما سمعت من النبى صلى الله عليه وسلم شيئا تسخى به أنفسنا عن موتانا؟ قال: سمعت من النبى صلى الله عليه وسلم يقول: صغاركم دعاميص الجنة»
صحيح مسلم البر والصلة، رقم : 2635 ، مسند أحمد، رقم : 10325 ، السلسلة الصحيحة، رقم : 431
”اور حضرت خالد عبسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میرا بیٹا فوت ہو گیا، اس کا مجھ کو بہت صدمہ پہنچا، چنانچہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابو ہریرہ! کیا اس (بچوں کی فوتگی) کے بارے میں آپ نے کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا؟ تاکہ ہماری جانوں کو کچھ سکون ملے۔ فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا کہ تمہارے چھوٹے فوت ہونے والے بچے جنت کی تتلیاں ہوں گے۔ “

چھوٹے بچوں کے لیے دعا کروانا

حدیث 25 :

«وعن أبى هريرة، أن امرأة أتت النبى صلى الله عليه وسلم بصبي فقالت : ادع له ، فقد دفنت ثلاثة ، فقال: احتظرت بحظار شديد من النار»
صحیح مسلم كتاب البر والصلة، رقم : 2636 ، سنن النسائی، رقم : 1877 ، سنن ماجه ، رقم : 1603
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لے کر آئی اور عرض کیا: (اللہ کے رسول!) اس کے لیے دعا فرمائیں، میرے تین بچے فوت ہو چکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تو نے آگ سے بہت بڑی رکاوٹ بنا لی ہے۔ “

بچوں کی ذمہ داری سے غفلت بہت بڑا گناہ ہے

حدیث 26 :

«وعن عبد الله ابن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : وكفى بالمرء إثما أن يضيع من يقوت»
سنن أبی داؤد، کتاب الزكوة، رقم : 1692 – محدث البانی نے اسے اسے حسن کہا ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ انہیں ضائع کر دے جن کی کفالت اس کے ذمے ہے۔ “

اولاد پر خرچ کرنے کا بیان

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾
﴿البقرة:233﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”(اس صورت میں) باپ کے ذمے ہے کہ اولاد کو دستور کے مطابق کھانا اور کپڑا دے۔ “

حدیث 27 :

«وعن ثوبان ، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن من أفضل دينار أنفقه الرجل على عیاله ، ودينار أنفقه على أصحابه فى سبيل الله ، ودينار أنفقه على دابته فى سبيل الله . قال أبو قلابة: وبدأ بالعيال ، وأى رجل أعظم أجرا من رجل ينفق على عيال صغار حتى يغنيهم الله عز وجل ؟»
صحيح مسلم، كتاب الزكاة ،رقم 994 ، سنن الترمذی، رقم : 1966، سنن ابن ماجه ، رقم : 2760
”اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقیناً سب سے افضل دینار وہ ہے جو آدمی اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے اور وہ دینار جو اللہ کے راستے میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرے اور وہ دینار جو اپنی سواری پر اللہ کی راہ میں خرچ کرے .. ابو قلابہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیال سے ابتدا کی ۔۔۔ اور اس شخص سے بڑے اجر والا کون ہے جو اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتا ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ انہیں بے نیاز کر دے۔ “

بچوں کے لیے برکت کی دعا کرنا

حدیث 28 :

«وعن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت قال: خرجت مع أبى وأنا غلام شاب ، فنلقى شيخا، قلت: أى عم، ما منعك أن تعطي غلامك هذه النمرة، وتأخذ البردة، فتكون عليك بردتان ، وعليه نمرة؟ فأقبل على أبى فقال: ابنك هذا؟ :قال نعم، قال: فمسح على رأسى وقال: بارك الله فيك ، أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: أطعموهم مما تأكلون، واكسوهم مما تكتسون، يا ابن أخي، ذهاب متاع الدنيا أحب إلى من أن يأخذ من متاع الآخرة، قلت: أى أبناه، من هذا الرجل؟ قال: أبو اليسر بن عمرو»
صحیح مسلم، کتاب الزهد، رقم : 3006
”اور حضرت عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں اپنے باپ کے ساتھ باہر نکلا۔ میں اس وقت نوجوان لڑکا تھا۔ ہم ایک بزرگ سے ملے جنہوں نے ایک چادر اور معافری کپڑا زیب تن کیا ہوا تھا اور ان کے غلام نے بھی ان جیسا لباس پہن رکھا تھا۔ میں نے کہا: چچا جان! اس میں کیا رکاوٹ ہے کہ آپ یہ دھاری دار چادر اپنے غلام کو دے دیتے اور اس سے دوسری چادر لے لیتے۔ اس طرح آپ پر دو ایک طرح کی چادریں ہو جاتیں اور غلام پر دھاری دار چادر ہو جاتی۔ یہ سن کر وہ میرے والد کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے پوچھا: یہ آپ کا بیٹا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ اسے برکت دے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو خود کھاتے ہو وہ ان غلاموں کو کھلاؤ اور جو خود پہنو انہیں بھی پہناؤ۔ میرے بھتیجے! دنیا کے سامان کا مجھ سے چلے جانا مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ وہ میرے آخرت کے سامان سے کچھ لے لے۔ میں نے کہا: ابا جان یہ آدمی کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ ابو الیسر (کعب) بن عمرو ہیں۔ “

بچوں کے ساتھ ہنسی مزاح کرنا

حدیث 29 :

«وعن أنس بن مالك يقول: كان النبى صلى الله عليه وسلم ليخالطنا، حتى يقول لأخ لى صغير: يا أبا عمير ، ما فعل النغير؟»
صحيح البخارى، كتاب الأدب، رقم : 6129، صحیح مسلم، رقم : 2150 ، سنن ابو داؤد، رقم : 4969 ، سنن الترمذی، رقم : 1989 ، سنن ابن ماجة، رقم : 3720
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن یا حسین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑا اور ان کے قدم اپنے قدم مبارک پر رکھے، پھر فرمایا: اوپر چڑھو۔“

بچوں کو تحفہ دینا

حدیث 30 :

«وعن النعمان بن بشير حدثه، أن أباه انطلق به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يحمله فقال: يا رسول الله ، إني أشهدك أني قد نحلت النعمان كذا وكذا ، فقال: أكل ولدك نحلت؟ قال: لا ، قال: فأشهد غيري ، ثم قال: أليس يسرك أن يكونوا فى البر سواء؟ قال: بلى ، قال: فلا إذا»
صحیح البخارى، كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها، رقم : 2586، صحيح مسلم، رقم : 1623 ، سنن أبو داؤد، رقم : 3542 ، سنن الترمذی، رقم : 1367، سنن ابن ماجه رقم : 2376 ، سنن النسائی، رقم : 3674
” اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد مجھے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے اور عرض کی: اللہ کے رسول ! میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے نعمان کو فلاں فلاں چیز دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تو نے اپنے سارے بچوں کو دیا ہے۔ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پھر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو۔ نیز فرمایا: کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ تیرے سارے بچے تیرے ساتھ برابر حسن سلوک کریں؟ انہوں نے کہا: جی بالکل۔ آپ نے فرمایا: پھر ایسے نہ کرو (کہ کچھ کو دو اور باقیوں کو محروم رکھو)۔“

اپنے بچوں کو بوسہ دینا

حدیث 31 :

«وعن أبى هريرة قال: قبل رسول الله صلى الله عليه وسلم حسن بن على وعنده الأقرع بن حابس التميمي جالس ، فقال الأقرع: إن لي عشرة من الولد ما قبلت منهم أحدا ، فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال: من لا يرحم لا يرحم»
صحيح البخاري، كتاب الأدب، رقم : 5997 ، صحيح مسلم، رقم : 2318، سنن أبی داؤد، رقم : 5218 سنن الترمذي رقم : 1911
”اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (سے روایت ہے وہ) فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا تو وہاں اقرع بن حابس تمیمی بھی تھے، انہوں نے کہا: میرے دس بیٹے ہیں، میں نے کبھی کسی کو بوسہ نہیں دیا۔ تب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا۔ “

حدیث 32 :

«وعن عائشة رضي الله عنها قالت: جاء أعرابي إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: أتقتلون صبيانكم؟ فما نقبلهم ، فقال النبى صلى الله عليه وسلم : أو أملك لك أن نزع الله من قلبك الرحمة؟»
صحيح البخارى، كتاب الادب، رقم : 5998 ، صحیح مسلم، کتاب الفضائل رقم : 64
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: کیا تم اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہو؟ ہم تو انہیں بوسہ نہیں دیتے۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں اس کا کیا علاج کروں کہ اللہ نے تیرے دل سے رحمت کا مادہ نکال دیا۔ “

اولاد کے درمیان عدل کرو

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ﴾
﴿النحل:90﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”بے شک اللہ عدل اور احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور وہ بے حیائی، برے کام اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں وعظ کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ “

حدیث 33:

«وعن عامر قال: سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنهما وهو على المنبر يقول: أعطانى أبى عطية، فقالت عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إنى أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية ، فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله ، قال: أعطيت سائر ولدك مثل هذا قال: لا. قال: فاتقوا الله ، واعدلوا بين أولادكم . قال فرجع فرد عطيته»
صحیح بخاری، کتاب الهبة باب الإشهاد في الهبة، رقم : 2587
”اور حضرت عامر سے روایت ہے کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ منبر پر بیان کر رہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہما (نعمان کی والدہ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ (حاضر خدمت ہو کر) انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنا لوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا۔ “

بچوں کا ختنہ کرنا

قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾
﴿النحل:123﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”(اے نبی!) پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ ملت ابراہیم کی اتباع کریں جو (اللہ کی طرف) یکسو تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ “

حدیث 34 :

«وعن أبى هريرة رواية: الفطرة خمس أو خمس من الفطرة: الختان ، والاستحداد، ونتف الإبط، وتقليم الأظفار، وقص الشارب»
صحیح بخاری، کتاب الاستئذان ، رقم 5889
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پانچ کام فطرت انسانی میں شامل ہیں۔ (1) ختنہ کرانا (2) زیر ناف بال مونڈنا (3) مونچھیں کاٹنا (4) ناخن تراشنا (5) بغلوں کے بال نوچنا۔ “

اولاد کو بد دعا نہ دو

حدیث 35:

«وعن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا تدعوا على أنفسكم، ولا تدعوا على اولادكم، ولا تدعوا على اموالكم ، لا توافقوا من الله ساعة يسأل فيها عطاء فيستجيب لكم»
صحيح مسلم ، کتاب الذهد، رقم : 7515 ، سنن ابوداؤد، رقم : 1532
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اور اپنے آپ کو بد دعا نہ دو اور نہ ہی اپنی اولاد کو اور نہ ہی اپنے مال کو ۔ ایک گھڑی ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے جو بھی (سوال) کیا جائے تو وہ قبول فرماتا ہے۔ “

اولاد سے سچ بولنے کا بیان

قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ﴾
﴿التوبہ:119﴾
❀ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ “

حدیث 36 :

«وعن عبد الله بن عامر بن ربيعة العدوي حدثه عن عبد الله بن عامر أنه قال: دعتنى أمى يوما ورسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد فى بيتنا فقالت: ها تعال أعطيك فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم : وما أردت أن تعطيه قالت: أعطيه تمرا فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم : أما إنك لو لم تعطه شيئا كتبت عليك كذبة»
سنن ابو داؤد، کتاب الادب، رقم : 4991 ، سلسلة الصحيحة ، رقم 748
”اور حضرت عبداللہ بن عامر فرماتے ہیں کہ ایک دن میری والدہ نے مجھے آواز دی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی مقام پر تشریف فرما تھے۔ میری والدہ نے مجھے کچھ دینے کا وعدہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والدہ سے دریافت کیا کہ تیرا اپنے بیٹے کو کیا دینے کا ارادہ ہے جو تو نے اس سے وعدہ کیا ہے؟ تو میری والدہ نے جواب دیا کہ میں نے اس کو کھجور دینے کا ارادہ کیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو اس بچے کو کوئی چیز نہ دیتی تو تیرے اعمال نامہ میں جھوٹ لکھا جاتا (جس کا تجھے گناہ ہوتا) ۔“

اولاد کو اچھی تعلیم دو

حدیث 37 :

«وعن أيوب بن موسى، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ما نحل والد ولدا من نحل أفضل من أدب»
سنن ترمذی، کتاب البر والصلة، رقم : 1952
اور جناب موسیٰ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ”والدین بچے کو جو سب سے اچھا تحفہ دے سکتے ہیں، وہ بہترین تعلیم و تربیت ہے۔“

اپنی اولاد سے عزت و احترام سے پیش آؤ

حدیث 38 :

«وعن أنس بن مالك يحدث ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اكرموا أولادكم، وأحسنوا آدبهم»
سنن ابن ماجه کتاب الادب، باب بر الوالد و احسان الى البنات ، رقم : 3671
اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اپنی اولاد کو عزت دو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔ “

اولاد کو کھانے پینے کے آداب سکھلانا

حدیث 39 :

«وعن عمرو ابن أبى سلمة يقول: كنت غلاما فى حجر رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانت يدى تطيش فى الصحفة فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : يا غلام! سم الله، وكل بيمينك، وكل مما يليك فما زالت تلك طعمتى بعد»
صحيح البخارى، كتاب الاطعمة، رقم الحديث : 5376 ، صحیح مسلم، کتاب الأشربة، رقم : 108
”اور حضرت عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں زیر پرورش تھا اور میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں گھومتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے لڑکے! اللہ تعالیٰ کا نام لو (یعنی اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کھانے کی ابتدا کرو)، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے تناول کرو۔ اس کے بعد میرے کھانے کا اسلوب یہی رہا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق رہا)۔ “

اولاد کو شکل وصورت سنت کے مطابق رکھنے کی ترغیب

حدیث 40 :

«وعن ابن عمر ، أن النبى صلى الله عليه وسلم رأى صبيا قد خلق بعض شعره وترك بعضه ، فنهاهم عن ذلك ، وقال: احلقوه كله أو اتركوه كله»
سنن ابوداؤد، کتاب الترجل، رقم : 4195 محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا کہ اس کے (سر کے) کچھ بال مونڈھ دیے گئے تھے اور کچھ رہنے دیے گئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا اور ارشاد فرمایا: اس کے سارے بال مونڈھ دو یا سارے رہنے دو۔“
«وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين»

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے