سوال
ایک علمی تعاقب:
علمائے کرام، محدثین اور محققین اس مسئلہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ تراویح کے بعد نوافل باجماعت پڑھانا شریعت محمدیہ ﷺ کی روشنی میں جائز ہے یا نہیں؟ اگر کوئی عالم رمضان المبارک کی راتوں میں اہتمام کے ساتھ باجماعت نوافل پڑھاتا ہے تو کیا یہ نبی اکرم ﷺ کی سنت کے خلاف ورزی شمار ہوگی؟ کیا یہ عمل بدعت کہلائے گا یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلہ میں دو پہلو قابلِ غور ہیں:
➊ نفل نماز باجماعت ادا کرنا۔
➋ اس جماعت کا اہتمام، اس پر دوام اور اصرار، یعنی کسی خاص وقت یا مخصوص مہینے میں اسے مستقل طریقے سے ادا کرنا۔
1. نفل باجماعت پڑھنے کا ثبوت
◈ یہ عمل رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔
◈ صحیح بخاری: ج1، ص87 میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذکور ہے:
وہ اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرے تھے، جب رسول اللہ ﷺ تہجد کے لئے کھڑے ہوئے تو وہ بھی آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہوگئے۔
◈ اسی طرح صحیح بخاری، کتاب باب صلوٰة النوافل جماعة، ج1، ص581 میں حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان ہوا ہے جسے حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔
ان احادیث سے واضح ہوا کہ نوافل کی جماعت جائز ہے۔
تاہم یہ اتفاقی جماعت ہے، یعنی ایک شخص نفل پڑھ رہا ہو اور دوسرا شامل ہوجائے تو یہ درست ہے۔
2. اہتمام اور دوام کے ساتھ باجماعت نوافل
◈ اہتمام کرنا، اعلان کرنا، مردوں اور عورتوں کو جمع کرکے نوافل کو مستقل طور پر باجماعت پڑھانا جائز نہیں بلکہ بدعت ہے۔
◈ وتر کے بعد دو رکعت نفل بھی ثابت ہیں، مگر امام نوویؒ نے وضاحت کی کہ آپ ﷺ نے ان پر ہمیشگی نہیں فرمائی (صحیح مسلم، باب الصلوٰة اللیل وعدد الرکعات، ج1، ص254؛ وقفہ السنة، ج1، ص164)۔
لہٰذا:
◈ اتفاقی طور پر باجماعت نوافل درست ہیں۔
◈ وتر کے بعد دو رکعت نفل پڑھنا بھی درست ہے مگر مستقل طور پر نہیں۔
3. مطلق جواز کو بدعت بنانے والی چیز
◈ اگر نوافل کے لئے دوام، اہتمام اور وقت یا مہینے کی تعیین کی جائے تو یہ عمل جائز نہیں بلکہ بدعت ہوگا۔
◈ مثال: نمازِ چاشت (ضحیٰ) صحیح احادیث سے ثابت ہے (صحیح بخاری، ج1، ص157) اور نبی ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی وصیت بھی فرمائی۔
◈ اس کے باوجود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بدعت کہا۔
صحیح بخاری: ج1، ص238؛ صحیح مسلم مع النووی: ج1، ص409 میں ہے کہ حضرت مجاہد تابعی نے بیان کیا:
فَسَأَلْنَاهُ عَنْ صَلَاتِهِمْ، فَقَالَ: بِدْعَةٌ۔
یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے۔
امام نوویؒ نے وضاحت کی:
مراده أن اظھارھا والاجتماع لھا بدعة لا أن صلوة الضحی بدعة۔ (صحیح مسلم، ج1، ص409)
امام الطرطوشی مالکیؒ نے بھی یہی بات کہی (کتاب الحودت والبدع، ص40)۔
4. ذکر و اذکار کی مثال
◈ ذکر کے اذکار جیسے سبحان اللہ، اللہ اکبر، لا إله إلا الله بڑے فضائل رکھتے ہیں۔
◈ لیکن اگر انہیں خاص ہیئت یا اہتمام کے ساتھ کیا جائے تو وہی ذکر ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔
مسند دارمی، ج1، باب کراھبة اخذ الرای، ص6 میں ہے کہ کچھ لوگ کنکریوں پر ذکر کر رہے تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ویحکم یا امة محمد ﷺ ما اسرع ھلکتکم۔۔۔ وانتم مفتحی باب ضلالة۔
5. اصولی نکتہ
◈ عبادت کو اسی صورت میں ادا کرنا چاہئے جس طرح وہ شریعت سے منقول ہے۔
◈ اگر غیر معین عبادت کو مخصوص وقت یا شکل کے ساتھ مقید کیا جائے تو وہ بدعت بن جاتی ہے۔
◈ اسی لئے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے چاشت کی جماعت کو بدعت کہا، اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ذکر کے حلقوں کو ضلالت قرار دیا۔
6. امام شاطبیؒ کی وضاحت
امام ابو اسحاق شاطبیؒ (کتاب الاعتصام، ج1، ص200، ص220، ص254) نے بدعات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
◈ کسی نیک عمل کے لئے خاص ہیئت یا وقت معین کرنا جو شریعت سے ثابت نہ ہو، بدعت ہے۔
◈ مطلق نفل کو اہتمام اور اجتماع کے ساتھ ادا کرنا شریعت میں اضافہ ہے۔
◈ نوافل کو چھپا کر پڑھنے کے حکم کی موجودگی میں باجماعت اہتمام کے ساتھ پڑھنا بدعت بالاولیٰ ہے۔
نتیجہ
◈ نوافل باجماعت اتفاقی طور پر جائز ہیں۔
◈ وتر کے بعد دو رکعت نفل بھی جائز ہیں مگر مستقل عادت کے طور پر نہیں۔
◈ تراویح کے بعد باجماعت نوافل کا اہتمام، اصرار اور دوام کے ساتھ پڑھنا بدعت ہے۔
◈ یہ عمل نبی اکرم ﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظامؒ سے منقول نہیں۔
◈ لہٰذا شریعت محمدیہ ﷺ کی رو سے اس کا بدعت ہونا واضح ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب