● مسنون رکعات تراویح :
لفظ تراویح علما محدثین کے ہاں ایک اصطلاحی نام ہے۔ احادیث رسول ﷺ میں اس کے لیے ”قیام رمضان ، صلوة في رمضان، قیام الليل، صلاۃ التہجد اور صلوۃ اللیل“ وغیرہ ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس نماز تراویح کا نبی مکرم ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے ساتھ تین دن قیام کیا تھا۔ یہ بات احناف کے ہاں بھی مسلم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب صحابہ کرامؓ کا ذوق دیکھا کہ وہ کثرت کے ساتھ اس نماز میں شریک ہو رہے ہیں، تو آپ نے جماعت کو ترک کر دیا اور ارشاد فرمایا :
خشيت أن يكتب عليكم صلاة الليل
’’مجھے تم پر ’’صلاۃ اللیل“ کی فرضیت کا ڈر ہے۔“
صحيح البخارى، كتاب الأذان، باب اذا كان بين الامام وبين القوم حائط او سترة ، رقم: ۷۲۹
ایک اور روایت میں ہے :
ولكنى خشيت أن تفرض عليكم صلاة الليل فتعجرو عنها
’’میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر صلاة اللیل فرض نہ ہو جائے، اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، رقم : ١۷۸/٧٦١-صحيح ابن خزیمه، رقم: ۲۲۰۷
علامه طحاوی حنفیؒ سیدنا زید بن ثابتؓ سے یہ الفاظ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
خشيت أن يكتب عليكم قيام الليل
”مجھے تم پر ”قیام اللیل‘‘ کے فرض ہونے کا خدشہ ہے۔“
شرح معانى الآثار للطحاوى، كتاب الصلوة، باب القيام في شهر رمضان هل هو في المنازل أفضل أم مع الامام : ٢٤٢/١
امام احمد بن حنبلؒ اپنی مسند میں یہ الفاظ روایت کرتے ہیں کہ :
مخافة أن يفترض عليكم قيام هذا الشهر.
’’تم پر اس ماہ، یعنی رمضان کے قیام کی فرضیت کے خوف سے چھوڑ رہا ہوں۔“
قارئین کرام ! مذکورہ بالا روایات میں غور فرمائیں کہ ان میں نماز تراویح کے لیے صلاة الليل، قیام اللیل وغیرہ جیسے الفاظ ہی استعمال ہوئے ہیں۔ پس قیام اللیل کی تعداد میں مروی تمام صحیح احادیث نبویہ تعداد تراویح پر دلالت کناں ہیں۔
مسند احمد ١٨٣/٦ ، رقم : ٢٤٩٦٨
● نماز تراویح :
محدثین نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ والی حدیث پر قیام رمضان اور صلاۃ التراویح کے ابواب باندھے ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں ’’کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان کے تحت امام بخاریؒ نے یہ حدیث ذکر کر کے واضح کر دیا کہ اس کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ ہے۔ ایسے ہی امام بیہقی نے ’’باب ما روى فى عدد ركعات القيام فى شهر رمضان‘‘ اور (امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد) محمد حسن الشیبانی نے ”باب قيام شهر رمضان ومــا فـيـه فـي الفضل‘‘ قائم کیا ہے۔
چنانچہ مولانا انور شاہ کاشمیری دیوبندی لکھتے ہیں :
ولا مناص من تسليم أن التراويح عليه السلام كانت ثمانية ركعات ولم يثبت فى رواية من الروايات أنه عليه السلام صلى التراويح والتهجد على حدة فى رمضان.
’’یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ رسول کریم ﷺ کی تراویح آٹھ رکعات تھیں۔ اور کسی روایت سے ثابت نہیں کہ آپ نے تراویح اور تہجد کو رمضان میں علیحدہ علیحدہ پڑھا ہو۔‘‘
العرف الشذى: ١٦٦/١.
اور فیض الباری (۴۲۰/۲) میں فرماتے ہیں : کہ میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ دونوں ایک ہی نماز ہے۔
مولانا عبدالحق دہلوی اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی رمضان میں نماز وہی گیارہ رکعات ہی تھیں کہ جو عام حالات میں ہمیشہ تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے۔
تراویح کا مقدمہ حنفی فقہاء کی عدالت میں ، ص: ۱۶
باقی فرقہ دیوبندی قاسم نانوتوی دیوبندی حیاتی، ماتریدی، اشعری صاحب لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے جو گیارہ رکعات مع وتر ثابت ہیں، وہ بیس سے زیادہ معتبر ہیں۔
لطائف قاسميه، مكتوب سوئم، ص : ۱۸-تراویح کا مقدمہ حنفی فقہاء کی عدالت میں ، ص : ١٦.
پس اگر تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ دو نمازیں ہوتیں تو رمضان میں ان کے الگ الگ پڑھنے کا آپ ﷺ سے کوئی ثبوت ملنا چاہیے تھا۔ جبکہ ایسا قطعی نہیں ہے۔ لہذا تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول اللہ ﷺ جو گیارہ رکعات عام دنوں میں تہجد کے طور پر پڑھتے تھے، وہی گیارہ رکعات رمضان میں بطور تراویح کے ادا کرتے تھے۔ فرق ان کے اوقات کا اور قیام میں طوالت کا تھا۔ ابوداؤد وغیرہ میں روایت موجود ہے کہ جس میں آپ ﷺ کے تین راتوں میں جماعت کرانے کا تذکرہ ہے، اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ آپ نے اسی نماز تراویح کو رات کے تین حصوں میں پڑھا اور تراویح کا وقت عشاء کے بعد سے اخیر رات تک اپنے عمل سے بتادیا جس میں تہجد کا وقت آگیا۔ یہی بات مولوی عبدالحی لکھنوی حنفی نے اپنے فتاوی اُردو پر رقم کی ہے۔
● قیام اللیل کی فضیلت :
سیّدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :
من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه.
’’جس شخص نے رمضان المبارک کا قیام ایمان اور ثواب سمجھ کر کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘
صحيح بخاری، کتاب صلاة التراويح، رقم : ٢٠٠٩.
سیدنا عمرو بن مرہ الجہنیؓ فرماتے ہیں :
جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يارسول الله! أرأيت إن شهدت أن لا إله إلا الله وأنك رسول الله، وصليت الخمس، وأديت الزكوة ، وصمت رمضان وقمته فممن أنا؟ قال: من الصديقين والشهداء.
’’ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا۔ اُس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے بتائیں گے کہ اگر میں اس بات کی گواہی دوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں، اور میں پانچ نمازیں ادا کروں، زکوۃ دوں، رمضان کے روزے رکھوں اور اس کا قیام کروں تو میں کن لوگوں میں سے ہوں گا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : صدیقین اور شہداء میں سے۔“
مسند بزار : ۱/ ۲۲، رقم : ٢٥ ـ موارد الظمآن، رقم: ۱۹
مذکورہ بالا احادیث سے پتا چلا کہ قیام رمضان کی بہت زیادہ فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ سابقہ گناہ معاف کر کے اپنے نیک بندوں ،صدیقین اور شہداء میں اٹھائے گا۔
● نماز تراویح کا وقت :
نماز تراویح کا وقت ، نماز عشاء سے فارغ ہونے کے بعد سے لے کر فجر تک ہے، کسی بھی وقت میں ادا کی جاسکتی ہے۔ بہتر ہے کہ جماعت کے ساتھ ادا کی جائے۔ تعداد رکعات تراویح نماز تراویح گیارہ رکعات تین وتر کے ساتھ مسنون ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا عام معمول یہی تھا۔ اجلہ علماء احناف کا بھی یہی موقف ہے۔ جیسا کہ دلائل سے واضح ہورہا ہے۔ جو شخص عبادت کو زیادہ وقت دینا چاہے اس کے لیے ہے کہ نماز تراویح میں قیام کو جتنا بھی دراز کر سکتا ہو کرے۔ رکوع و سجود اور جلسے میں جتنی زیادہ تسبیجیں اور دعائیں پڑھ سکتا ہو پڑھے۔ سیدہ صدیقہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے قیام اللیل سے متعلق پوچھنے والے سے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے قیام کی چار رکعتوں کے حسن و طول کا کچھ حال نہ پوچھ یعنی مجھ سے بیان نہیں ہو سکتا۔
صحیح بخاری، رقم: ١١٤٧.
صحابہ کرام ؓ فرماتے ہیں : ’’ہم عہد عمرؓ میں قیام اتنا لمبا کرتے کہ لاٹھیوں پر ٹیک لگانا پڑتی۔“
مؤطا، كتاب الصلاة في رمضان، رقم : ٤.
تراویح میں پڑھنے کے لیے اگر قرآن زیادہ یاد نہ ہو تو سورۃ اخلاص کی کثرت سے ہی قیام کی درازی کو پورا کر لیا کریں۔ اگر اُمت کی مغفرت کی غرض سے نبی اکرم ﷺ نے ایک ہی آیت کو قیام اللیل میں بار بار پڑھتے ہوئے صبح کر دی، تو آپ سورۃ اخلاص کو ہی اخلاص کے ساتھ حسب طاقت ہر رکعت میں پڑھ کر اپنے اللہ کو راضی کریں اور قیام، رکوع و سجود کو لمبا کر کے نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کریں۔ نہ کہ رکعات کی تعداد بڑھا کر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت مول لیں۔
دلیل نمبر ۱
سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ :
كان رسول الله يصلي فيما بين أن يفرغ من صلاة العشاء وهى التى يدعو الناس العتمة إلى الفجر إحدى عشرة ركعة، يسلم بين كل ركعتين ويوتر بواحدة
”رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد فجر تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے، اور ہر دو رکعت میں سلام پھیرتے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ عشاء کی نماز کو لوگ ’’عتمہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔‘‘
صحيح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب صلاة الليل وعدد ركعات النبي في الليل، رقم : ٧٣٦/١١٢.
↰ فائدہ:
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ کے قیام اللیل کی تعداد گیارہ رکعات تھی۔
دلیل نمبر ۲
ابوسلمہؒ فرماتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، اور ان سے رسول اللہ ﷺ کی رمضان المبارک کے مہینے میں نماز کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا :
كانت صلاته ثلاثة عشر ركعة منها ركعتا الفجر.
’’آپ کی نماز ۱۳ رکعات تھی، اور ان میں سے دو فجر کی رکعتیں تھیں‘‘
صحیح ابن خزیمه : ٣٤١/٣، رقم: ۲۲۱۳
↰ فائدہ:
یعنی تراویح آپ گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں آپ کا قیام گیارہ رکعت تھا، اور قیام رمضان کا معنی حنفی حضرات بھی تراویح ہی کرتے ہیں۔
دلیل نمبر ۳
ابو سلمہ نے سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں رات کی نماز کیسے پڑھتے تھے؟ تو سیدہ عائشہؓ نے فرمایا :
ما كان يزيدفي رمضان ولا فى غيره على إحدى عشرة ركعة.
’’رمضان کا مہینہ ہو یا غیر رمضان، رسول اللہﷺ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“
صحيح البخاري، كتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، رقم : ۲۰۱۳- صحيح مسلم كتاب صلاة المسافرين، باب صلاة الليل وعدد ركعات النبى فى الليل فى الليل، رقم : ۷۳۸/۱۲٥- موطا امام محمد ص : ١٤٢.
ملاحظه هو
اس حدیث مبارکہ کو محدثین کرامؒ نے ”قیام رمضان‘‘ کے باب میں بیان کیا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق ”نماز تراویح‘‘ سے ہے۔ یاد رہے کہ سائل نے رمضان المبارک کی راتوں کو ادا کی جانے والی نماز کے بارے میں سوال کیا تو سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے انہیں رمضان المبارک کے متعلق بھی جواب دیا اور ساتھ افادہ زائدہ کے طور پر غیر رمضان کے متعلق بھی بتایا کہ غیر رمضان میں بھی نبی کریم ﷺ گیارہ رکعات ادا کرتے تھے، جو نماز عشاء کے بعد سے لے کر نماز فجر تک ادا کرتے تھے۔
دلیل نمبر ۴
اس مسئلہ کی تائید سیدنا جابرؓ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ :
صلى بنا رسول الله فى رمضان ثمان ركعات والوتر ، فلما كان من القابلة اجتمعنافى المسجد وروونا أن يخرج إلينا فلم نزل فى المسجد حتى أصبحنا فدخلنا على رسول الله فقلنا له: يارسول الله رجونا أن تخرج علينا فتصلق بنا فقال: كرهت أن يكتب عليكم الوتر.
’’رسول اللہ ﷺ نے ہمیں رمضان المبارک میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے، اگلی رات ہم مسجد میں جمع ہوئے اور امید تھی کہ آپ ہمارے پاس آئیں گے۔ ہم صبح تک مسجد میں رہے۔ پھر ہم نے رسول اللہ کے پاس جا کر عرض کی، یا رسول اللہ ! ہمیں امید تھی کہ آپ آکر ہمیں نماز پڑھائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے ناپسند کیا کہ کہیں تم پر صلوۃ الوتر فرض نہ ہو جائے۔“
صحیح ابن خزیمه : ۱۳۸/۲، رقم: ۱۰۷۰ – صحیح ابن حبان : ١٦٢/٥ ١٦٣ – قيام الليل ص: ٢٥٢ – معجم الاوسط : ١٦٨/٥
↰ فائدہ:
اس حدیث سے جہاں آٹھ رکعات تراویح ثابت ہوئیں، وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ رات کی اس نماز کو صلوۃ الوتر بھی کہتے ہیں۔ اس حدیث کی سند میں عیسی بن جاریہ پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ لیکن عیسی بن جاریہ جمہور علماء ومحدثین کے نزدیک ثقہ یا کم از کم صدوق یعنی حسن الحدیث ہے۔
دلیل نمبر ۵
سیدنا جابرؓ سے مروی ہے کہ ابی بن کعب نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر کہا۔ یا رسول اللہ ! میرے گھر کی عورتوں نے رمضان کی رات مجھ سے کہا : ہم قرآن نہیں جانتی، ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھیں گی :
فصليت بهن ثمان ركعات وترت فكان شبه الرضا ولم يقل شيئا
’’میں نے انہیں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے۔ آپ نے اس پر کچھ نہیں کہا، یعنی اظہار رضا مندی فرمایا۔“
مسند أبـي يـعـلـى : ٣٣٦/٣، رقم: ۱۸۰۱- مجمع الزاوئد : ۷۷/۲
↰ فائدہ:
یاد رہے کہ کسی کام کا سن کر یا دیکھ کر، اس پر خاموشی اختیار کرنا آپ ﷺ کی تقریری سنت کہلاتی ہے۔
● علمائے احناف کی طرف سے گیارہ رکعات کا اعتراف :
جناب ابو الخلاق الحسن بن عمار شرنبلالی حنفی (متوفی ۱۰۷۹ھ) رقم طراز ہیں’’جب یہی بات ثابت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے باجماعت گیارہ رکعات مع الوتر پڑھائی پھر اس کی سنیت سے انحراف یقیناً نبوت سے دائمی عداوت کی دلیل ہے۔‘‘
مراقی الفلاح شرح نور الإيضاح، ص : ٦٠٦.
امام ابوحنیفہ کے شاگرد محمد بن حسن الشیبانی اپنے موطا باب التراویح (ص:۹۳) میں سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی صحیح بخاری ومسلم میں موجود گیارہ رکعات مع الوتر والی روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : کہ ہمارا بھی اس گیارہ رکعات مع الوتر والی حدیث پر ہی عمل ہے۔
ملا علی قاری حنفی مرقاۃ شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں : کہ مسئلہ تراویح میں حقیقت یہی ہے کہ گیارہ رکعات مع الوتر ہی مسنون ہیں۔ جن کا اہتمام رسول اللہ ﷺ نے باجماعت کیا تھا۔
مرقاة شرح مشكوة : ۱۸۲/۱
ملاعلی قاری دوسری جگہ لکھتے ہیں : اس سب کا حاصل یہ ہے کہ قیام رمضان گیارہ رکعات مع الوتر جماعت کے ساتھ سنت ہے۔ یہ آپ ﷺ کا عمل ہے۔
مرقاة : ۳۸۲/۲
ابن الهمام حنفی متوفی ۸۶۱ ھ رقم طراز ہیں :
’’اس سب کا حاصل یہ ہے کہ قیام رمضان گیارہ رکعات مع الوتر جماعت کے ساتھ سنت ہے۔‘‘
فتح القدير، باب النوافل : ٤٦٠/١.
عبدالحی لکھنوی حنفی ۱۳۰۴ھ رقمطراز ہیں : آپ نے تراویح دو طرح ادا کی ہے۔
(۱)بیس رکعت ہے جماعت اس روایت کی سند ضعیف ہے۔
(۲) آٹھ رکعتیں اور تین رکعات وتر باجماعت
مجموعه فتاوی عبدالحی : ۳۳۱/۱-۳۳۲.
عبدالشکور حنفی متوفی ۱۳۸۱ھ رقمطراز ہیں کہ اگرچہ نبی ﷺ سے آٹھ رکعات تراویح مسنون ہے، اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس سے بیس رکعات بھی۔
علم الفقه، ص: ۱۹۸، حاشیه.
امام ابوحنیفہ، قاضی ابو یوسف، اور امام محمد سے بسند صحیح یہ قطعی ثابت نہیں ہے کہ بیس رکعات تراویح سنت رسول ﷺ سے ہیں۔ اور ساتھ سیدنا عمر بن خطابؓ کا گیارہ رکعات پڑھنے کا حکم موطا امام مالک میں بسند صحیح موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں شافعی، مالکی، اور حنبلی لوگ گیارہ رکعات ہی پڑھتے ہیں۔ اور پاکستانی حنفی علماء نے اقرار کرنا شروع کر دیا، اور کچھ عوام الناس میں سے بھی گیارہ رکعات پڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔
● سیدنا عمر بن خطابؓ کا گیارہ رکعات کا حکم :
دلیل نمبر ۶
امام مالک، محمد بن یوسف سے، وہ سائب بن یزید سے بیان کرتے ہیں کہ :
أمر عمر بن الخطاب رضى الله عنه أبى بن كعب وتميما الدارى أن يقوما للناس بإحدى عشرة ركعة.
’’سیدنا عمر بن خطابؓ نے ابی بن کعب اور تمیم داریؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔“
مؤطا امام مالك، كتاب الصلاة في رمضان : ١١٤/١ – سنن الكبرى للبيهقي : ٤٩٦/٢ – طحاوی: ۱۹۳/۱ – معرفة السنن والآثار : ٣٧٦/٢ -”اسنادہ صحیح“ آثار السنن، ص : ۳۹۲.
دلیل نمبر ۷
امام ابوبکر بن ابی شیبه بواسطه یحیی بن سعید از محمد بن یوسف، از سائب بن یزیدؓ بیان کرتے ہیں :
أن عمر جمع الناس عل أبى وتميم فكانا يصليان إحدى عشرة ركعة.
’’سیدنا عمرؓ نے لوگوں کو اُبی بن کعب اور تمیم داریؓ پر جمع کیا وہ دونوں گیارہ رکعات پڑھاتے تھے۔“
مصنف ابن ابی شیبه: ۳۹۲/۲.
↰ فائدہ:
اسی حدیث کو امام ابو زید عمر بن شبہ النمیری البصری، یحیی بن سعید کے واسطے سے اپنی کتاب تاريخ المدينة المنورة پر لائے ہیں۔ اس روایت کی سند بھی انتہاء درجہ کی صحیح ہے۔
● سیدنا عمرؓ کے زمانے میں گیارہ رکعات کا ثبوت :
دلیل نمبر ۸
امام سعيد بن منصور، از عبدالعزیز بن محمد، از محمد بن یوسف، از سائب بن یزیدؓ بیان کرتے ہیں کہ :
كنا نقوم فى زمان عمر بن الخطاب والله بإحدى عشرة ركعة.
’’ہم عمر بن خطابؓ کے زمانے میں ۱۱ رکعات پڑھتے تھے۔“
التعليق الحسن على آثار السنن، ص : ٣٩٢ ـ الحاوى في الفتاوى ٣٥٠،٣٤٩/١
↰ فائدہ:
ان احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا مبارک عمل بھی گیارہ رکعات تھا، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حکم بھی یہی تھا۔ اسی کے مطابق سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا تمیم الداریؓ نے گیارہ رکعات تراویح پڑھائیں، اور ان کے پیچھے پڑھنے والوں نے بھی اس پر عمل کیا۔ پس معلوم ہوا کہ اجماع صحابہ دنیا میں بھی گیارہ رکعات پر تھا۔ کسی بھی صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے خلفاء راشدینؓ کا بیس رکعات پڑھنے کا عمل یا حکم موجود نہیں ہے۔
↰ نوٹ:
یادر ہے کہ امیر المومنین عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، ابی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعودؓ سے بیس (۲۰) رکعات قیام اللیل کی تمام روایات سنداً ضعیف ہیں، بلکہ بعض تو موضوع درجہ کی روایات ہیں۔ ذیل کی سطور میں ہم چند ایسی روایات اور ان کی تحقیق پیش کر دیتے ہیں کہ جن سے بیس رکعت تراویح سنت نبویہ ہونے کی دلیل پکڑی جاتی ہے۔
● بیس رکعت تراویح سنت ہونے کی دلیل اور اس کے جوابات :
دلیل نمبر ۱
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ’’بے شک نبی کریم ﷺ ماہ رمضان میں بیس رکعت (تراویح) اور وتر پڑھتے تھے۔‘‘
مصنف ابن ابی شیبه: ٣٩٤/٢.
جواب:
اس حدیث میں ایک راوی ابراہیم بن عثمان ہے۔ جس کے بارے میں علامہ زیلعی فرماتے ہیں:
’’قال احمد: منكر الحديث‘‘
’’امام احمد نے کہا یہ منکر الحدیث ہے۔‘‘
علامہ عینیؒ فرماتے ہیں :
اسے شعبہ نے کذاب کہا ہے، اور احمد ، ابن معین ، بخاری اور نسائی وغیرہ نے ضعیف کہا ہے، اور ابن عدی نے اپنی کتاب ’’الکامل‘‘ میں اس حدیث کو اس کی منکر روایات میں ذکر کیا ہے۔
عمدة القارى: ۱۲۸/۱.
ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر (۳۳۳/۱) اور عبد الحی لکھنوی نے اپنے فتاویٰ (۳۵۴/۱) میں اس حدیث پر جرح کی ہے۔
علامہ انور شاہ کاشمیری دیوبندی اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’اور جو بیس رکعت ہیں، تو وہ آپ کا اسلام سے بسند ضعیف مروی ہیں، اور اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔‘‘
العرف الشذى: ١٦٦/١.
علامہ سیوطی نے اس حدیث کے راوی پر شدید جرح کی ہے، اور کہا کہ
هذا حديث ضعيف جدا لا تقوم به حجة.
’’یہ حدیث سخت ضعیف ہے اس سے حجت قائم نہیں ہوتی۔‘‘
الحاوى : ٣٤٧/١.
بانی تبلیغی جماعت جناب زکریا صاحب اوجز المسالک شرح موطا امام مالک (۳۰۴/۲) میں فرماتے ہیں :
کہ یقینا محدثین کے اصولوں کے مطابق بیس رکعات نماز تراویح نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً ثابت نہی۔ بلکہ ابن عباسؓ والی روایت محدثین کے اصولوں کے مطابق مجروح ہے، ثابت نہیں۔
دليل نمبر ۲
یزید بن رومان سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں، کہ ’’لوگ عمرؓ کے زمانہ میں رمضان میں ۲۳ رکعت پڑھتے تھے۔‘‘
مؤطا امام مالك : ١٥/١.
جواب:
یہ روایت منقطع ہے۔ جیسا کہ علامہ عینی حنفی نے (عمدۃ القاری ۱۱/ ۱۲۷ طبع دار الفکر) میں تصریح کی ہے ۔
ويزيد لم يدرك عمر فيكون منقطعا .
’’اس روایت کے راوی یزید کی عمرؓ سے ملاقات نہیں، اس لیے یہ روایت منقطع ہے۔‘‘
علامہ نیموی حنفی نے بھی لکھا ہے کہ
’’یزید بن رومان نے عمر بن خطابؓ کو نہیں پایا۔‘‘
آثار السنن، حاشیه، ص : ٢٥٣.
دليل نمبر ۳
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ عمر بن خطابؓ نے ایک شخص کو بیس رکعت پڑھانے کا حکم دیا۔
مصنف ابن ابی شیبه.
جواب :
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
یحییٰ بن سعید بن قیس انصاری مدنی ثقہ ، ثبت اور طبقہ خامسہ سے ہے۔
تقریب، ص : ۳۹۱.
↰ فائدہ:
یادر ہے کہ اس طبقہ کی عمرؓ سے ملاقات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیموی حنفی فرماتے ہیں : یحییٰ بن سعید کی عمرؓ سے ملاقات نہیں ہے۔
بحواله تحفة الاحوذي: ٧٥/٢.
↰ فائدہ:
علامه نیموی تعلیق آثار السنن میں فرماتے ہیں :
”آپ پر مخفی نہ رہے کہ سائب بن یزید کی بیس رکعت والی روایت کو بعض علماء نے ان الفاظ سے ذکر کیا ہے کہ لوگ عمرؓ کے عہد میں بیس رکعت پڑھتے تھے اور بیس عثمان اور علیؓ کے عہد مبارک میں بھی اس کی مثل، پھر بیہقی کا حوالہ دیا۔ لیکن اس کا یہ قول کہ عثمانؓ اور علیؓ کے عہد مبارک میں بھی اس کی مثل مدرج قول ہے۔ امام بیہقی کی تصنیفات میں نہیں پایا جاتا۔‘‘
بحواله تحفة الأحوذي : ٧٦/٢.
دليل نمبر ۴
ابوعبد الرحمن السلمی سے روایت ہے کہ علیؓ نے رمضان میں قاریوں کو بلایا، پھر ان سے ایک کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت پڑھائے، اور آپ خود علیؓ کو وتر پڑھاتے تھے۔
السنن الكبرى للبيهقي : ٤٩٦/٢.
جواب :
یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی حماد بن شعیب ہے، جسے ابن معین، نسائی اور ابوزرعہ، وغیر ہم نے ضعیف کہا۔ امام بخاری نے ”منكر الحديث تركوا حديثه‘‘ کہا۔
لسان الميزان : ٣٨٤/٢.
اور اس میں دوسرا راوی عطاء بن السائب مختلط ہے۔ زیلعی حنفی نے کہا ہے ’’لیکن اسے آخر میں اختلاط ہو گیا تھا، اور تمام جنھوں نے اس سے روایت کی ہے، اختلاط کے بعد کی ہے سوائے شعبہ اور سفیان کے۔“
نصب الراية : ٥٨/٣.
دليل نمبر ۵
ابوالحسناء فرماتے ہیں کہ علیؓ نے ایک شخص کو پانچ تراویح بیس رکعت پڑھانے کا حکم دیا، اور اس سند میں ضعف ہے۔
السنن الكبرى للبيهقي : ٤٩٧/٢.
جواب :
یہ سند بھی ضعیف ہے۔ امام بیہقیؒ نے بذات خود ہی اس مذکور بالا اثر نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ اس سند میں ضعف ہے۔
مزید برآں ابوالحسناء مجہول ہے۔
تقريب التهذيب
حافظ ذہبی فرماتے ہیں : وہ غیر معروف ہے۔
ميزان الإعتدال : ٥١٥/٤.
علامہ نیموی نے بھی کہا ہے :
وهو لا يعرف
حاشیه آثار السنن، ص : ٢٥٥.
دليل نمبر ۶
اعمش فرماتے ہیں : عبداللہ بن مسعودؓ بیس تراویح پڑھاتے تھے۔
مصنف عبد الرزاق، رقم : ٧٧٤١ – مصنف ابن ابی شیبه : ٣٩٤/٢ـ معجم كبير، للطبراني، رقم : ٩٥۸۸ – قيام الليل، للمروزي، ص : ١٠.
جواب :
یہ سند بھی منقطع ہے۔
عمدة القارى : ۱۲۷/۱۱.
اور اس کی سند میں ’’حفص بن غياث عن الاعمش‘‘ ہے۔ پس حفص بن غیاث مدلس ہے، اور صیغہ عن سے روایت کر رہا ہے۔
وفى هذا كفاية لمن له دراية!