سوال
بندہ آپ کا بے حد شکر گزار ہے کہ آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے وقت نکال کر ہمارے سوالات کے جواب دیے، جس سے ہمارے اسٹاف کو اطمینان حاصل ہوا۔ تاہم، تیسرے سوال "کیا ترانہ کے وقت تعظیماً جہاں کہیں سن رہے ہوں کھڑا ہو جانا جائز ہے یا نہیں؟” کے جواب پر بعض دوست مطمئن نہیں ہوئے۔
ان کا اعتراض یہ ہے کہ ترانہ کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا شرعی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قانونی تقاضا ہے، اور قانون کا احترام ہم پر لازم ہے۔ اسی طرح پرچم کشائی کے وقت کھڑا ہونا بھی قانون ہے۔
براہ کرم اس اعتراض کا تسلی بخش جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں امیر اور خلیفہ کی اطاعت فرض ہے، مگر یہ اطاعت اس وقت تک ہے جب تک اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی معصیت و نافرمانی لازم نہ آئے۔ اگر اطاعت کے نتیجے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی ہو تو ایسی اطاعت جائز نہیں۔
صحیح بخاری اور دیگر کتبِ حدیث میں ایک واقعہ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو ایک فوجی دستہ کا امیر مقرر کیا۔ اس نے آگ جلا کر ماتحت فوجیوں کو حکم دیا کہ اس میں چھلانگ لگا دیں۔ کچھ لوگ اطاعتِ امیر میں تیار ہوگئے، لیکن بعض نے کہا کہ ہم تو آگ سے بچنے کے لیے مسلمان ہوئے ہیں، پھر اس میں کیوں کودیں؟ اس دوران امیر کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور اس نے حکم واپس لے لیا۔ جب یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کو بتایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
{لَوْ دَخَلُوْہَا مَا خَرَجُوْا مِنْہَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ}
’’اگر وہ اس میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اس سے نہ نکلتے۔‘‘
اور مزید فرمایا:
{لاَ طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ اﷲِ}
’’اللہ کی نافرمانی کے کام میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں۔‘‘
قانون الٰہی بمقابلہ قانونِ ملکی
محترم! اگر بالفرض حکومت ایک قانون بنادے کہ ترانہ کے وقت تمام سننے والے تعظیم کے طور پر جھک جائیں یا سجدہ کریں، تو کیا مسلمان اس قانون کا احترام کرتے ہوئے یہ عمل کریں گے؟
یقیناً نہیں۔ کیونکہ اسلام اور اللہ تعالیٰ کا قانون مقدم ہے، اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین اللہ کے قانون کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
مثال کے طور پر ربا اور سود کو دیکھ لیجئے: شریعتِ اسلامیہ میں یہ قطعی حرام ہے، لیکن ملکی قانون کے مطابق یہ چل رہا ہے۔ تو اب احترام کس کا کیا جائے گا؟ ظاہر ہے ہر مسلمان یہی کہے گا کہ ہم ایسے ملکی قانون کا احترام نہیں کر سکتے جس سے قانونِ الٰہی کا دامن چھوٹ جائے۔
صحابہ کرام کا طرزِ عمل
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی مثالیں ملتی ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ملکی قوانین کو اس لیے مسترد کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کے مخالف تھے، مثلاً:
❀ حج تمتع نہ کرنا
❀ مرتدین کو جلانا
❀ خطبہ عید نماز سے پہلے دینا
جب خیر القرون کے دور میں انسانوں کا بنایا ہوا قانون اس وجہ سے قابلِ احترام نہ رہا کہ وہ شریعت کے مخالف تھا، تو آج کی حکومتوں کے بنائے ہوئے قوانین کو کیسے شریعت پر ترجیح دی جا سکتی ہے؟
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا قول
ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول موجود ہے:
{أَاَمْرُ أَبِیْ یُتَّبَعُ اَمْ اَمْرُ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ}
’’کیا میرے باپ کے حکم کی پیروی کی جائے یا رسول اللہ ﷺ کے حکم کی؟‘‘
یہ قول سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب و سنت کا صحیح فہم عطا فرمائے اور ان پر خالصتاً لوجہ اللہ عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب