سوال:
تحیۃ المسجد کی کیا فضیلت ہے؟
جواب:
مسجدیں اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ جگہیں اور کرہ ارض کا مقدس ترین خطہ ہیں۔ شریعت نے ان میں داخل ہونے پر دو رکعات مشروع قرار دی ہیں:
❀ مران بن ابان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
”میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے وضو کا پانی لایا، وہ چبوترے پر تشریف فرما تھے۔ انہوں نے اچھی طرح وضو کیا، کہا: میں نے اسی جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی طرح وضو کیا اور فرمایا: جس نے اس طرح وضو کیا اور پھر مسجد میں آکر دو رکعت نماز پڑھی، اس کے سابقہ (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: دھوکے میں نہ رہ جانا۔“
(صحيح البخاري: 6433)
❀ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا دخل أحدكم المسجد، فليركع ركعتين قبل أن يجلس.
”مسجد میں داخل ہوں تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ادا کر لیں۔“
(صحيح البخاري: 444، صحيح مسلم: 714)
❀ ایک روایت میں ہے:
لا يجلس حتى يركع ركعتين.
”اس وقت تک نہ بیٹھیں، جب تک دو رکعت نہ پڑھ لیں۔“
(صحيح البخاري: 444، صحيح مسلم: 714)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فيه استحباب تحية المسجد بركعتين وهى سنة بإجماع المسلمين.
”اس حدیث میں دلیل ہے کہ تحیۃ المسجد کے لیے دو رکعت مستحب ہیں، اس کے سنت ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔“
(شرح صحيح مسلم: 226/5)
❀ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا:
ثم دخلت المسجد، فصليت فيه ركعتين.
”میں (مسجد اقصیٰ) میں داخل ہو کر دو رکعت ادا کیں۔“
(صحيح مسلم: 162)
❀ مسروق رحمہ اللہ، سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں:
”آپ رضی اللہ عنہ گھر سے باہر تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے، میں آپ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھا۔ ایک آدمی نے انہیں سلام کہا تو کہنے لگے: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بالکل سچ فرمایا۔ عرض کیا: وہ کیا؟ فرمانے لگے: علامات قیامت سے ہے کہ آدمی جان پہچان والے کو ہی سلام کہے گا، آدمی مسجد میں داخل ہو کر طول و عرض کو عبور کر لے گا، مگر اس میں دو رکعت نماز نہیں پڑھے گا اور نوجوان بوڑھے کو دو پہاڑوں کے نشیب میں (یہ محاورتاً بولا گیا ہے، دور دراز مقام کی طرف اشارہ ہے) قاصد بنا کر بھیجے گا۔“
(مسند الشاشي: 400، وسنده صحيح)