تحقیق: صحابی کے کتے کا نام راشد – کیا یہ روایت صحیح ہے؟
ماخوذ : فتاوی علمیہ جلد 3۔ اصول، تخریج الروایات اور ان کا حکم – صفحہ 266

سوال

سرفراز صفدر دیوبندی نے کہا ہے کہ:

"اگر کسی صحابی کا نام غلط ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدل دیتے تھے۔ دیہات سے ایک موٹا تازہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اور اس کے ساتھ ایک کتا بھی تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ بھائی! تیرا نام کیا ہے؟ کہنے لگا: میرا نام ظالم ہے اور میرے کتے کا نام راشد ہے۔ اور راشد کا معنی ہے ہدایت یافتہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ تو بندہ ہوکے بھی ظالم ہے اور وہ کتا ہو کے بھی راشد ہے۔ اپنے علاقے میں جاکر لوگوں کو بتا دینا۔ منیب الطبع اور سلیم الطبع شیخ تھا، کوئی قیل وقال نہیں کی، کہنے لگا: حضرت ٹھیک ہے۔ اور اگر اڑنا چاہتا تو کہہ سکتا تھا کہ حضرت! میرا کوئی اور نام رکھ دو، کتے کا نام تو میرا نہ رکھوا۔ اور بعضے اڑ بھی جاتے تھے جیسے۔”
(ذخیرۃ الجنان فہم القرآن ج3 ص162-163)

کیا یہ صحیح ہے کہ صحابی کے کتے کا نام راشد تھا؟ تحقیق کر کے جواب دیں۔
جزاکم اللہ خیراً۔
(احمد بن فضل مالک حسن زئی)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سرفراز خان صفدر صاحب نے اپنی مذکورہ کتاب میں اس روایت کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ لیکن یہ روایت امام ابو نعیم الاصبہانی کی کتاب
دلائل النبوۃ (1/35، حدیث 68) اور معرفۃ الصحابۃ (لابی نعیم ج2، ص1120، حدیث 2814)
میں درج ذیل سند کے ساتھ مطولاً و مختصراً موجود ہے:

"حدثناه عمر بن محمد بن جعفر، ثنا إبراهيم بن السندي، ثنا النضر بن سلمة، ثنا محمد بن الحسن المخزومي، حدثني يحيى بن سليمان، عن حكيم بن عطاء الظفري، من بني سليم من ولد راشد بن عبد ربه، …..الخ”

اسے ابو نعیم کے حوالے سے:

  • حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ:
    (البدایہ والنہایہ، نسخہ محققہ 3/177-178)
  • حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ:
    (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ 1/495 ت2517، دوسرا نسخہ 2/140 ت2512)

نے نقل کیا ہے۔

روایت کی تحقیق

➊ حکیم بن عطاء الظفری، اس کا باپ عطاء الظفری اور دادا:
تینوں مجہول راوی ہیں۔

➋ یحییٰ بن سلیمان:
غیر متعین راوی ہے۔

➌ محمد بن الحسن المخزومی:
دلائل النبوۃ اور البدایہ والنہایہ میں غلطی سے
محمد بن سلمہ المخزومی لکھا گیا ہے۔ معرفۃ الصحابہ لا بی نعیم میں
محمد بن الحسن المخزومی لکھا ہوا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"وروى أبو نعيم من طريق محمد بن الحسن بن زباله عن حكيم بن عطاء السلمي”
(الاصابہ 1/495)

اس پر جرح:
امام یحییٰ بن معین:

"وكان كذابا ولم يكن بشيء وهو مدني”

یعنی: وہ کذاب (جھوٹا) تھا، وہ کچھ بھی نہیں تھا اور وہ مدنی ہے۔
(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری 1060)

مزید فرمایا:

"ليس بثقة كان يسرق الحديث”

یعنی: وہ ثقہ نہیں، وہ حدیث چوری کرتا تھا۔
(ایضا: 799)

اور فرمایا:

"والله ما هو بثقة حدث عدوالله عن مالك”

یعنی: اللہ کی قسم! وہ ثقہ نہیں، اللہ کے دشمن نے امام مالک سے حدیث بیان کی۔
(کتاب الجرح التعدیل 7/288، وسندہ صحیح)

امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ:

"متروك”
(سوالات البرقانی: 427)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"كذبوہ”

یعنی محدثین نے اسے کذاب قرار دیا۔

 

➍ نضر بن سلمہ:
غیر متعین ہے اور اس طبقے میں نضر بن سلمہ شاذان المروزی کذاب راوی بھی ہے۔

➎ عمر بن محمد بن جعفر:
اس کی توثیق مطلوب ہے۔

خلاصہ تحقیق

سرفراز خان صفدر صاحب کی بیان کردہ روایت
موضوع (من گھڑت) ہے۔ لہٰذا اسے بغیر ذکر جرح کے بیان کرنا حلال نہیں ہے۔ تعجب ہے ان لوگوں پر جو عوام کے سامنے "شیخ الحدیث” بنے بیٹھے ہوتے ہیں اور ضعیف، مردود، موضوع بلکہ بے اصل و بے سند روایات بغیر کسی خوف کے دھڑلے سے بیان کرتے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جس نے مجھ سے ایسی حدیث بیان کی جس کا جھوٹ ہونا معلوم ہو تو وہ شخص جھوٹوں میں سے ایک (یعنی جھوٹا) ہے۔”
(صحیح مسلم: 1 باب 1)

کیا ان لوگوں کو اللہ کی پکڑ کا کوئی ڈر نہیں ہے؟!
(5/دسمبر 2010ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1