تحفہ قبول کرنے کا حکم
تحفہ قبول کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ جب تحفہ دینے کی شرطیں مکمل ہوں تو تحفہ قبول کرنا واجب ہو جاتا ہے، اور وہ شرطیں یہ ہیں:
(1) تحفہ دینے والا احسان جتلانے والا نہ ہو، کیونکہ احسان جتلانے والوں کا تحفہ قبول کرنا کبھی اذیت ناک بھی ہوتا ہے، ایسا شخص لوگوں میں طرح طرح کی باتیں مشہور کر سکتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کو تحفہ دیا، ایسی صورت حال میں انسان اگر تحفہ قبول نہ کرے تو اس کے لیے عذر خواہی کی گنجائش ہوتی ہے تاکہ ایسے شخص کے احسان سے ایذا نہ اٹھائے۔
(2) دوسری شرط یہ ہے کہ تحفہ دینے والے کا مال حلال ہو، اگر اس کا مال حرام ہو اور آدمی حرام سے بچتے ہوئے اس کا تحفہ واپس کر دے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگر اس کا مال حلال و حرام سے مخلوط ہو تو پھر تحفہ قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے تحفہ قبول کیا حالانکہ وہ سود خوری اور حرام کھانے میں مشہور تھے۔
پھر تحفہ وصول کرنے والے کو چاہیے کہ وہ تحفہ دینے والے کو بھی بدلے میں کوئی تحفہ دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول کرتے اور اس کا بدلہ بھی دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”جو تمہارے ساتھ اچھائی کرے اسے اس کا انعام دو، اگر تمہارے پاس اس کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو اس کے لیے دعا کرتے رہو، یہاں تک کہ تم خیال کرنے لگو کہ اب تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 1672]
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 1/247]