تحریری طلاق کا شرعی حکم: کیا اطلاع دیے بغیر طلاق واقع ہو جاتی ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 851

سوال

میں، حاجی غلام محمد ولد فتح دین، قوم کھوکھر، رہائشی گلی توے شاہ، محلہ چوڑیگران، شہر شیخوپورہ، بحیثیت مسلمان اللہ تعالیٰ کو علیم و خبیر جان کر یہ بیان کرتا ہوں کہ آج سے تقریباً آٹھ تا دس سال قبل میرے داماد محمد مشتاق ولد محمد مالک، قوم پٹھان نے اپنی بیوی کشور سلطانہ دختر غلام محمد کو تحریری طلاق لکھ دی تھی، لیکن اس بات کی اطلاع ہمیں اُس وقت نہیں دی گئی۔

تقریباً دو سال بعد ان کے درمیان صلح ہو گئی۔ اس دوران میری بیٹی میرے ہی زیرِ کفالت رہی۔ صلح کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ محمد مشتاق نے دو سال پہلے ہی تحریری طلاق دے دی تھی۔

اب پھر سے تقریباً ڈھائی سال سے اس نے اپنی بیوی کو گھر سے نکال دیا ہے اور سامان اٹھا کر چلا گیا ہے۔

مزید یہ کہ جب وہ گھر سے سامان لے جا رہا تھا تو متعدد لوگوں کے سامنے اس نے کہا کہ

"میں نے اپنی بیوی کشور سلطانہ کو طلاق دے دی ہے”

اور وہ گواہان اب بھی موجود ہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ محمد مشتاق نے ڈھائی سال قبل ہمارے سامنے طلاق کے الفاظ ادا کیے تھے۔

اب صورتِ حال آپ کے سامنے ہے۔ براہِ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں واضح فرمایا جائے کہ کیا یہ طلاق شرعاً مؤثر ہو چکی ہے یا نہیں؟ شرعی فتویٰ عنایت فرمایا جائے۔

سائل:
حاجی غلام محمد ولد فتح دین، قوم کھوکھر، گلی توے شاہ، محلہ چوڑیگران، شیخوپورہ

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرطِ صحتِ سوال، اگر واقعی محمد مشتاق ولد محمد مالک پٹھان نے اپنی بیوی کشور سلطانہ دختر غلام محمد کو تحریری طلاق لکھ دی تھی، اور عدت کے اندر رجوع نہیں کیا تھا، تو شرعاً یہ طلاق واقع ہو کر مؤثر ہو چکی تھی اور کشور سلطانہ اپنے شوہر کے نکاح کے بندھن سے آزاد ہو گئی تھی۔

لہٰذا دو سال بعد ہونے والی مصالحت شرعاً باطل اور گناہ پر مبنی ہے۔ اس کے بعد ان دونوں کی ازدواجی زندگی شرعاً حرام اور معصیت شمار ہوگی۔

کیونکہ طلاق چاہے زبانی دی جائے یا تحریری، بیوی کو اطلاع دی جائے یا نہ دی جائے، شرعاً طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

دلائل از احادیثِ صحیحہ

1️⃣ حدیثِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضى الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ عَنْ أُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَكَلَّمْ ‏.‏ قَالَ قَتَادَةُ إِذَا طَلَّقَ فِي نَفْسِهِ فَلَيْسَ بِشَىْءٍ‏.‏
(صحیح البخاری، باب الطلاق في الإغلاق والکرہ والسکران والمجنون، ج2، ص793-794)

ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے میری امت کے ان خیالات کو معاف فرما دیا ہے جن پر وہ عمل نہ کریں یا زبان سے ظاہر نہ کریں۔”
قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا: "اگر کسی نے دل میں طلاق کا ارادہ کیا تو وہ کچھ نہیں، جب تک زبان سے ادا نہ کرے۔”

2️⃣ حدیثِ صحیح مسلم

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لأُمَّتِي مَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا مَا لَمْ يَتَكَلَّمُوا أَوْ يَعْمَلُوا بِهِ.‏
(صحیح مسلم، باب تجاوز الله عن حديث النفس والخاطر، ج1، ص77-78)

ترجمہ وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا۔

ان دونوں احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ جیسے زبانی طلاق معتبر ہے، ویسے ہی تحریری طلاق بھی شرعاً نافذ العمل ہے، اس پر علماء کا اجماع ہے۔

اقوالِ ائمہ و علماء

💠 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَاسْتُدِلَّ بِهِ عَلَى أَنَّ مَنْ كَتَبَ الطَّلَاقَ طَلُقَتِ امْرَأَتُهُ لِأَنَّهُ عَزَمَ بِقَلْبِهِ وَعَمِلَ بِكِتَابَتِهِ وَهُوَ قَوْلُ الْجُمْهُورِ وَشَرْطُ مَالِكٍ فِيهِ الْإِشْهَادُ عَلَى ذَلِك.‏
(فتح الباری شرح صحیح بخاری، ج9، ص316، باب الطلاق في الإغلاق والکرہ والسکران والمجنون؛ فتاوی نذیریہ، ج3، ص78)

تشریح:
اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص طلاق لکھ دے تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی، کیونکہ اس نے دل سے ارادہ کیا اور تحریر کے ذریعے عمل بھی کیا۔ یہی جمہور علماء کا موقف ہے۔

💠 شیخ محمد سابق مصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

والكتابة يقع بها الطلاق، ولو كان الكاتب قادرا على النطق، فكما أن للزوج أن يطلق زوجته باللفظ، فله أن يكتب إليها الطلاق.‏
(فقه السنة، ج2، ص219)

یعنی:
تحریر سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، خواہ شوہر بولنے پر قادر ہو۔ جیسے وہ لفظی طور پر طلاق دے سکتا ہے، ویسے ہی تحریری طور پر بھی دے سکتا ہے۔

💠 مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وقوعِ طلاق کے لئے طلاق نامہ کا عورت تک پہنچنا شرط نہیں، صرف لکھنے سے ہی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
(فتاویٰ احسن الفتاویٰ، ص440، طبع کراچی)

خلاصہ و حکم شرعی

مندرجہ بالا احادیثِ صحیحہ اور اقوالِ فقہاء سے ثابت ہوتا ہے کہ کشور سلطانہ دختر غلام محمد کو اسی وقت طلاق واقع ہو گئی تھی جب محمد مشتاق نے تحریری طلاق لکھی تھی۔

طلاق کی عدت تین حیض، تین ماہ یا حالتِ حمل میں وضعِ حمل تک ہوتی ہے۔ چونکہ صلح دو سال بعد ہوئی جبکہ عدت کا وقت کب کا گزر چکا تھا، اس لیے وہ نکاح ختم ہو چکا تھا۔

لہٰذا یہ صلح رجوع نہیں بلکہ تجدیدِ نکاح کے بغیر غیر شرعی تعلق تھا۔ اس کے بعد کی ازدواجی زندگی سراسر حرام اور گناہ پر مبنی تھی۔

اب اس عورت کو مزید کسی طلاق کی ضرورت نہیں، کیونکہ نکاح پہلی تحریری طلاق کے وقت ہی ختم ہو گیا تھا۔

یہ فتویٰ بشرطِ صحتِ سوال تحریر کیا گیا ہے۔
اگر سوال میں کوئی غلط بیانی یا جھوٹ ہوا تو اس کی ذمہ داری سائل پر عائد ہوگی۔
مفتی اس سلسلے میں کسی قانونی سقم کا ذمہ دار نہ ہوگا۔

ھٰذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے