منافع کی حد بندی
اگر تمام بازار میں نرخ بڑھ جائیں تو خرید و فروخت میں منافع کی کوئی متعین حد نہیں، کبھی ایسے ہوتا ہے کہ انسان کوئی چیز، مثال کے طور پر سو روپے میں خریدتا ہے، پھر تجارتی گرم بازاری کی وجہ سے اچانک اس کی قیمت دو سو تک بڑھ جاتی ہے تو وہ اسے دو صد میں بیچ دیتا ہے اور ایک سو منافع کما لیتا ہے لیکن اگر بازار ٹھنڈا ہو اور کوئی شخص نفع بڑھا کر لوگوں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہو، یا خریدار دھوکے میں آجانے والا اور قیمتوں سے نا واقف ہو تو ایسی حالت میں ریٹ زیادہ کر دینا حرام ہے، اور جس قیمت پر لوگ بیچ رہے ہیں اس سے زیادہ قیمت پر بیچناجائز نہیں۔
کوئی فروخت کرنے والا یہ بات کہہ سکتا ہے کہ اگر میں متعین قیمت مانگوں تو خریدار قیمت گھٹانے کے لیے میرے ساتھ سودے بازی شروع کر دے گا !
ایسی صورت میں ہم کہیں گے کہ اگر تجھے گمان ہو کہ خریدار تمہارے ساتھ سودے بازی کرے گا تو پھر قیمت بڑھانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر وہ تمہارے ساتھ سودے بازی نہیں کرتا تو پھر ضروری ہے کہ تم اس کو بازار کا ریٹ بتاؤ، مثلاً جب کوئی آدمی تمہارے پاس کوئی چیز خریدنے آئے جس کی قیمت سو روپے ہو لیکن تم نے یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ وہ تمہارے ساتھ سودے بازی کرے گا اس کو ایک سو بیس روپے بتا دیے، تاکہ جب وہ قیمت کم کرنے کو کہے تو تم سو میں اس کو بیچ دو، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور ایک سو بیس میں وہ چیز خرید لی، ایسی صورت میں ضروری ہے کہ تم اس سے کہو کہ بھائی ! صبر کر، میں نے تجھے ایک سو بیس اس لیے بتائے تھے کہ میں سمجھتا تھا کہ تم میں بھی دیگر لوگوں کی طرح بحث کرو گے اور قیمت کم کراؤ گے، لیکن تم نے ایسا نہیں کیا اور اس چیز کی حقیقی قیمت سو روپے ہے، جب تم نے اسے حقیقت بتا دی تو پھر کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا شخص حقیقت بیان کرنے والا اور لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے وقت سچائی اختیار کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”خرید و فروخت کرنے والے دونوں کو اختیار ہے، اگر وہ سچ بولیں اور حقیقت بیان کریں تو ان کے سودے میں برکت ہوگی، اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور حقیقت چھپائیں تو ان کی بیع سے برکت مٹ جائے گی۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2079 صحيح مسلم 11532/47]
[ابن يمين: نور على الدرب: 1/254]