سوال:
تاویل کیا ہے؟
جواب:
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
”تاویل سے تین مفہوم مراد لیے گئے ہیں: ① متاخرین کی اصطلاح میں تاویل: اکثر متاخرین کی اصطلاح میں تاویل سے مراد ہے: لفظ کو کسی دلیل کی بنا پر راجح معنی سے مرجوح معنی کی طرف پھیرنا۔ ان متاخرین کی اصطلاح کے مطابق کسی لفظ کا وہ معنی، جو اس کی ظاہری مراد سے مطابقت رکھتا ہو، تاویل نہیں کہلائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ”تاویل“ کے لفظ سے یہی مراد لیا ہے، نیز تمام نصوص کی ظاہری مدلول کے برعکس تاویلات ہیں، جنہیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے یا تاویل کرنے والے جانتے ہیں۔ متاخرین میں سے بہت سے اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ نصوص کو ان کے ظاہری معانی پر رکھا جائے گا، ان کا ظاہری معنی ہی مراد ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان نصوص کی ان مفاہیم کے علاوہ بھی تاویل ہے، جسے صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ائمہ اربعہ وغیرہ کو ماننے والوں میں کئی نام نہاد اہل سنت اس متناقض مؤقف کا شکار ہو گئے ہیں۔ ② جمہور مفسرین کے ہاں تاویل: تاویل سے مراد کلام کی تفسیر ہے، چاہے ظاہری معنی کے موافق ہو یا نہ ہو۔ جمہور مفسرین وغیرہ کی اصطلاح میں اسے ہی تاویل کہتے ہیں۔ اس تاویل کو علم میں پختہ لوگ جانتے ہیں۔ یہ معنی ان سلف کے موافق ہے، جو اس فرمان باری تعالیٰ پر وقف کرنے کے قائل ہیں: ﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ﴾ (آل عمران: 7)”اس کی تاویل کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور وہ لوگ جانتے ہیں، جو علم میں راسخ ہیں۔“ ③ قرآن و سنت میں وارد تاویل: تاویل سے مراد وہ حقیقت ہے، جس کی طرف کلام کو لوٹایا جاتا ہے، اگرچہ آپ اس کے ظاہری معنی سے واقف ہوں۔ پس جنت کے کھانے، پینے، لباس، نکاح اور وقوع قیامت وغیرہ کے متعلق جو خبر دی گئی ہے، ان کی تاویل سے مراد ان میں پائے جانے والے حقائق ہیں، نہ کہ وہ معانی مراد ہیں، جنہیں ذہنوں میں تصور کیا جاتا ہے اور زبان سے ادا کیا جاتا ہے۔ لغت قرآن میں بھی تاویل سے یہی مراد ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کے متعلق ذکر کیا: ﴿يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا﴾ (يوسف: 100) ”ابا جان! یہی میرے خواب کی تاویل ہے، جسے میں نے (برسوں) پہلے دیکھا تھا، اسے میرے رب نے سچ کر دیا ہے۔“ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ ۚ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِن قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ﴾ (الأعراف: 53) ”یہ لوگ اس کے اخیر نتیجے کے منتظر ہیں، جس دن اس کا اخیر نتیجہ آئے گا، اس دن وہ لوگ، جو اسے پہلے سے بھولے ہوئے تھے، کہیں گے کہ یقیناً ہمارے رب کے پیغمبر حق لے کر آئے تھے۔“ نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا﴾ (النساء: 59) ”اگر کسی مسئلہ میں تمہارا اختلاف ہو جائے، تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہو، یہ بہت بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بہت اچھا ہے۔” اس تاویل کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
(الفتوى الحموية الكبرى: 287/1-290)
فاہدہ :
❀ حافظ خطابی رحمہ اللہ (388ھ) فرماتے ہیں:
”تاویل کرنے والا ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا، اگرچہ وہ تاویل میں خطا کر جائے۔“
(معالم السنن: 295/4)